ذاکر خان آج بہت ما یوس ، پر یشان اور غمگین تھا ان کی
داستان سن کر مجھے بھی تو ڑا سا تعجب ضرور ہوا لیکن ہم جس دنیا میں رہ رہے
ہیں وہاں ایسے واقعات ہر روز کسی نہ کسی کے ساتھ رونما ہو تے رہتے ہیں لیکن
جب پہلی بار آپ کے ساتھ کو ئی ایسا واقعہ پیش آجائے جو غیر معمولی ہو تو
انسان پر یشان ہوہی جا تا ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ عادت پڑجاتی ہے ‘ ذاکر
خان نے مایوسی کے انداز میں اپنی کہانی کچھ اس طر ح بیان کی کہ ہم مزدور
لوگ جوسارا دن رکشہ چلاتے ہوئے پہلے سے دھکے کھا کھا کر بے حال ہو جاتے ہیں
لیکن جب کوئی بیماری اپ کی گھر والی پر آجائے اور ان کو ہسپتال داخل کرا نا
پڑ جائے تو بندے کو اﷲ تعالیٰ بہت جلد یاد آجاتا ہے ‘ ذاکر خان کہتا ہے کہ
گزشتہ د نوں بیوی کی بیماری زیادہ ہونے پر ہسپتال لے جا نا پڑا‘ پہلے تو
میں پشاور شہر کے ایک سر کاری ہسپتال میں گیا توو ہا ں سے واپس کیا گیا کہ
ہم مر یض کو داخل نہیں کر سکتے ‘وہاں سے مایو س ہو کر دوسرے سر کاری ہسپتال
میں گئے ‘ انہوں نے بھی معائنے کے بعد واپس کیا کہ اتوار کی رات ہے ڈاکٹر
صاحبان چھٹی پر ہے اس لیے ہم مر یض کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے ‘ساری رات
ہسپتا لوں کے چکر لگا لگا کر آخر میں پشاور کے دوسرے بڑے ہسپتال خیبر ٹیچنگ
میں رات کے تین بجے گئے تو ہسپتال کا لفٹ بند تھا ‘ مر یض کو مشکل حالات
میں سیڑ ھیوں پر دوسری منزل کو لے جانا پڑا‘ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے آپر یشن
کامیاب ہوا اور ڈلیوری بڑے آپر یشن کے ذریعے ہوگئی لیکن اس کے بعد ایک رات
ایک وارڈمیں جبکہ دوسری رات دوسری وارڈ میں شفٹ کرنے سے مصیبت ہی مصیبت اور
وہ بھی اس حال میں جب مر یض اکیلا ہو ‘ کیوں کہ ڈاکٹر حضرات جب را ونڈ
لگاتے ہیں اس وقت مر یض کے ساتھ کسی کو روکنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ان مر
یضوں کے لیے تو خاص کر مسئلہ در پیش آتا ہے جو ہماری طرح ان پڑ ھ اور جاہل
ہو‘ جس کو یہ بھی سمجھ نہ آتا ہو کہ ڈاکٹر سے اپنی بیماری کے متعلق کیا بات
کر یں‘ پھر نتیجہ وہی جو اکثر مر یضوں کو در پیش ہو تا ہے کہ مر ض ایک ہو
تا ہے اور ڈاکٹر دوادوسری لکھ لیتا ہے۔ دو دن بعد جب مین وارڈ میں بھجوایا
گیا تو وہا ں پر واش روم گندگی اور غلا ظت کی تصویر پیش کر رہا تھا ‘ جب با
وقت مجبوری مر یض کے ساتھ بیٹھنا پڑ تا تھا تو وارڈ میں موجودبینچ کھٹمل سے
ایسے بھر ے پڑ ے تھے کہ خیال یہ آتا تھا کہ شاید یہاں پر کھٹملوں کی افزائش
کی جارہی ہے اور یہاں سے باقی صوبے میں بھجوائی جارہی ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے
کہ ہم غر یب لوگ پیسوں سے مار کھا جاتے ہیں اور پر ائیویٹ روم افورڈ نہیں
کر سکتے لیکن جب آخر کار مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک دوست سے قرض لیا
تو معلو م ہوا کہ پرائیویٹ روم بھی اتنی آسانی سے نہیں مل جاتے ‘بے شک آپ
ایک رات گزرنے کے لیے ان کو پانچ سو روپے دے رہے ہو لیکن پانچ سو روپے تو
بہت سے لو گ دینا چاہتے ہیں لیکن ان کو کمرہ نہیں ملتا اس کے لیے اپ کو
اعلیٰ سطح پر سفارش کر نے پڑ ے گی جو ہم بے چار نہیں کر سکتے ۔ ذاکر خان
کہتا ہے کہ ہم مرد حضرات تو رات ہسپتال کے میدانوں اور مساجد میں گزارنے پر
مجبور تھے لیکن مر یض کے سا تھ دیکھ بھال کے لیے خاتون بھی بد بودار اور
کھٹملوں کے ساتھ لڑ تے ہوئے رات گزرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ ذاکر خان کہہ
رہا تھا کہ ایک طرف ہمارے حکمران جمہوریت پسند ہو یا آمر یت پسند ‘ عوام کو
سہولت دینے کے نعر ے اور وعدے تو کررہے ہیں لیکن عملی طور پر حالات یکسر
مختلف ہے ۔وجہ صرف یہ ہے کہ سر کاری ہسپتالوں میں غریب لو گ علاج معالج کر
تے ہیں ۔ ایٹمی ملک ہو نے کے باوجود ہسپتالوں کا نظام خیبر پختونخوا سمیت
پورے ملک میں انتہائی خراب ہے‘عوام کو بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں اور
اس کو درست کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ذاکر خان کے ساتھ پیش آنے
والے حالات پورے ملک کے ہسپتالوں کے ہیں جس کو درست کر نے کی اشد ضرورت ہے
صرف نعروں اوروعدوں سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ |