اکثر شہروں کا یہی حال ہے جو لائبریریاں تھیں وہ یکے بعد
دیگرے بند ہوتی چلی گئیں جو اکا دکا بچ گئیں وہ بھی آج نہیں تو کل انتہائی
خاموشی کے ساتھ بند کردی جائیں گی۔ کیونکہ آثار کچھ ایسا ہی پتہ دے رہے ہیں۔
طلبا تو دور اساتذہ میں بھی مطالعے کا شوق مفقود ہوتا جارہا ہے۔ یقین نہ
آئے تو کوئی بھی شخص اس بارے معلومات کرے تحقیق کرے یا طلبہ واساتذہ سے
دریافت کرلیا جائے تو انہیں صورت حال کا اچھی طرح سے ادراک ہوجائیگا۔ان سے
یہ پوچھ لیاجائے کہ حال ہی میں انہوں نے کون سی نئی یا پرانی کتاب دیکھی یا
پڑھی ہے تو صورت حال بہت آسانی سے دماغ میں بیٹھ جائیگی۔ اکثر سے یہی جواب
ملے گا کہ عرصہ دراز ہوگیا کتاب کو چھوئے یا دیکھے۔ لوگ اول تو اب کچھ
پڑھتے ہی نہیں ہیں اور اگر کوئی تھوڑا بہت باذوق مل بھی گیا تو اس کی
دلچسپی ڈائجسٹ یا رسالوں کی حد تک ہی مقید ہو کر رہ گئی ہے۔ایک وہ بھی وقت
تھا کہ جب بہت سے لوگ شاکی تھے کہ اردو والے تو مانگ کر پڑھنے کے عادی ہیں
لیکن اب کتابیں مانگنے والی وہ بے چاری مخلوق بھی عنقا ہوچکی ہے۔ جو ارباب
علم ودانش اپنے پاس کتابوں کا ذخیرہ محفوظ رکھتے ہیں ان سے کوئی اس بابت
گفتگو کرے تو وہ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اب تو کتابیں مانگنے کا
سلسلہ بھی قریب الاختتام ہے۔ کل تک جن لوگوں کودیکھ کر کتابوں کا چھپانے کا
جی کرتا تھا انہیں کتاب نہ دینے کے سو سو بہانے کرتے پڑتے تھے آج نگاہیں ان
لوگوں کو کھوجتی ہیں ان کی منتظر رہتی ہیں ۔ دل میں خواہش ابھرتی ہے کہ کاش
وہ سابقہ وقت لوٹ آئے وہ لوگ آئیں اور کتابوں کی ڈیمانڈ کریں۔بلکہ دل و
دماغ اس حد تک راضی بہ رضا ہیں کہ وہ اگر ایک مانگیں تو ہم انہیں دس کتابیں
دینے کو تیا ر ہیں کیونکہ اہل علم و دانش کے نزدیک اس مانگنے اور دینے میں
حصول علم کا قابل قدر جذبہ شامل ہوا کرتا تھا۔
بات صرف اردو ادب یا لٹریچر تک ہی محدود نہیں ہے معیاری کتابیں پڑھنے کا
ذوق و شوق دوسری زبانوں میں بھی قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔ کتب بینی کے شوق
کے فقدان کی کئی وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔ دیگر زبانوں کے لوگ جنہیں ہم
ادب دوست اور حساس طبع کہہ سکتے ہیں کتب بینوں کو متوجہ کرنے کیلئے مختلف
عوامل سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ لوگوں بالخصوص طلبا و طالبات کو راغب کرنے
اور اس کو احساس زیاں مانتے ہوئے وہ نقصان کی تلافی میں مصروف عمل بھی ہیں
۔ مگر ہمارے یہاں اس حوالے سے دور دور تک بے حسی نظر آتی ہے۔اب تو یہ عالم
ہے کہ گھر آئے مہمان بھی جو کبھی کسی کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیتے تھے یا
وقت گزاری کیلئے کتاب کا مطالعہ شروع کردیتے تھے اب تو وہ بھی اس پر آمادہ
نہیں ہوتے۔چونکہ زمانہ بدل رہا ہے انداز بدل رہے ہیں اطوار و افکار تبدیلی
کی جانب مائل ہیں طلبہ کتاب نہیں پڑھ سکتے کہ یہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور
ہے۔ کمپیوٹر لیپ ٹاپ سی ڈی اور تھری جی فورجی کا دور ہے۔لہذا کاغذی کتابوں
کی بجائے انہیں ebook دی جائیں تو شاید وہ راغب ہوجائیں۔لیکن یہ سب بھی
محال نظرآتا ہے ہماری ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ ہم تو اس بات کو بھی مانتے
کو تیار نہیں کہ زمانہ اس حد تک بدل چکا ہے ۔وجہ یہ کہ آج بھی ملک خداداد
میں کمپیوٹرز تو کجا ایسے علاقے بھی ہیں جن میں بجلی کی سہولت تک موجود
نہیں تعلیمی کی سہولیات کا فقدان حکومتی غیر التفاتی کا مذاق اڑاتا ہے ۔اور
بالفرض اگر مان لیا جائے کہ ہر گھر میں کمیپوٹراور لیپ ٹاپ مہیا کردیا جائے
تو کیا یہ نئی نسل ebooks کو پڑھے گی؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہم دیکھ
رہے ہیں کہ جونقشہ ہمارے سامنے ہیں اس میں بھی کمپیوٹر کتابیں پڑھنے کیلئے
نہیں بلکہ کئی دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
جب اس قسم کی صورت حال ہے تو پھر ہمیں اصل مرض کیطرف توجہ دینی چاہئے۔ جڑ
کو پکڑنا چاہئے۔کل تک تو یہ ہوتا تھا کہ بچے جب لکھنے پڑھنے کے لا ئق
ہوجاتے تھے تو ماں باپ انہیں اچھی اچھی کتابیں لا کر دیتے تھے کہ انہیں
پڑھو ان کے مطالعے سے دل و دماغ روشن ہونگے اب اکثریت ماں باپ خود اس طرف
توجہ دینے سے قاصر اور بے بہرہ نظر آتے ہیں وہ خود جب ٹی وی اور کمیپوٹر سے
دل بہلاتے ہیں تو بچوں کو کیونکر کتابوں کی ترغیب دے سکتے ہیں۔کیونکر اس
سوغات سے انہیں متعارف کراسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی گھر میں اقبال کی
شاعری، شہاب نامہ ، زاویہ جیسی پرمغز کتب زیر بحث نہیں لائی جاتیں بلکہ ساس
بہو اوران رشتوں میں موجود سازشوں کو ان کم سنوں کے ذہنوں میں پختہ کرنے کی
سازش کی جارہی ہے انڈین اور پورپین کلچر کو راسخ کیا جارہا ہے۔اگر دیکھا
جائے تو بیچارے والدین کا بھی اتنا قصور نہیں کیوں کو ہماری تقریبا دونسلیں
ایسی گزری ہیں جنہوں نے اردو کی عدم توجہ کی بنا پر کتابوں سے دوستی نہیں
کی۔اب یہ والدین،اہل علم، اہل ادب اور بالخصوص حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ
اردو کتب اور اردو ادب کے فروغ کیلئے اپنی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ
ہوں۔ لائبریریوں کو اپ ٹو ڈیٹ کیاجائے انہیں آباد کیا جائے۔ان کی خستہ سالی
اور خستہ حالی کوفوری بنیادوں پر دور کرکے لاکھوں کروڑ وں روپے کی کتب کو
محفوظ کیا جائے۔نئی نسل کو کتب بینی کی ترغیب دی جائے یہ بہت ضروری ہے۔ |