تحریر:امینہ فلک شیر
اس حقیقت سے تو آگاہ ہیں کہ انسان کی زندگی میں چار عالم بالترتیت بچپن ،لڑکپٹن
،جوانی اور بڑھاپا آتے ہیں ،عالم بلوغت کو عالم جوبن بھی کہتے ہیں۔تمام
مخلوقات بشمول چرند پرند شجر پر بھی انسان کی طرح عالم جوبن آتا ہے تو وہ
اسکاکھل کر اظہار کرتے ہیں لیکن عین اس عالم میں انسان سے قوت گویائی سلیب
کرلی جائے امنگوں کو جاگنے سے پہلے ہی سُلا دیا جائے تو آپ ہی بتائیں
جب عالم سب ہو نغمہ سرا
اور جھوم رہا ہوسارا جہاں
کوئی چھین لے تجھ سے تیرا گماں
اس وقت کا عالم کیا ہوگا
متاثرہ افراد پریہ عالم دانستہ طور پر لایا جاتا ہے ،انھیں مجبور کیا جاتا
ہے کہ وہ اس عالم بے زباں کو اپنائیں۔ لیکن وقت گواہ ہے کہ جسطرح لاوا پہاڑ
کا سینہ چاک کرکے اک چنگاڑسے نمودار ہوتا ہے اسی طرح قید سے رہائی کوانسانی
قوت بے ہنگھم شور و غوغہ ،چیخ و پکار ،توڑپھوڑ کی صورت میں نمودار ہوتی
ہے۔جسے لواحقین بڑی آسانی سے کسی آسیب ،بھوت پریت جنات کا سایہ یا
پھرجادوٹونے کااثر قرار دیتے ہیں کہیں خداکی اس مخلوق کوزنجیروں سے جھکڑ
دیاجاتا ہے کبھی مجذوب توکبھی پاگل کہہ کرپاگل خانوں میں پھینک دیاجاتا ہے
۔کچھ ناعاقبت اندیش والدین اپنی نااہلی پرپردہ پوشی کیلئے اپنی ہی غیرت کی
دھجیاں اڑانے ،اپنی بچیوں کوجعلی پیروں ،عالموں کے پاس لے جاتے ہیں۔جہاں
متاثرہ بچیاں نازندوں میں رہتی ہیں نامردوں میں ایسے والدین بابار عزت کے
لٹیروں کے ہاتھوں اپنی ہی ناموس تارتار کرواتے ہیں۔کیونکہ عالم بے زباں اور
خوف جعلی پیروں کی بلیک میلنگ کا مجبور بے بس ناجی سکتی ہیں نہ مرسکتی ہیں
یاخدا ایسے والدین کو ہدایت ارفع سے نواز(آمین) کچھ لالچی والدین و لواحقین
بچیوں کے اس عالم کوکیش کروانے سے بھی نہیں چوکتے انھیں سائیں لوگ کہہ کر
حجرے میں بٹھا دیاجاتا ہے۔جہاں لوگ منتیں مانگنے آتے ہیں اور دونوں ہاتھوں
سے پیسہ لٹاتے ہیں اگر لوگ اس مجذوب کی حقیقت کو جانیں تو جان پائیں کہ یہ
مخلوق تو خود طالب دعا ہے۔ایسی مثالیں تقریبا ہرطرح کے معاشروں میں دکھائی
دیتی ہیں لیکن برصغیر پاک و ہندمیں تو یہ ناسور پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔وجہ
ایمان کی ناپختگی ،جہاں ایمان ڈگمگا یا وہیں ایسی خرفات نے جنم لیا۔عام
مشاہدہ ہے مختلف گھروں میں جب مذہب روایت ،عزت یا خاندان کے نام پربچیوں پر
بے جاپابندیاں ثبت کی جاتی ہیں تو وہ باغی ہوکر راہ فرار اختیار کرلیتی ہیں
اور مستقل اندھیروں کی باسی بن جاتی ہیں ۔کچھ اندر ہی اندر گھٹ کر کبھی
چھتوں سے گرکر کبھی پنکھوں سے لٹک کر دنیائے فانی سے کوچ کرجاتی ہیں۔کچھ
مجبورا کیڑوں مکوڑوں کی سی زندگی پر اکتفاا کرلیتی ہیں اوراس عالم میں بے
جان نظروں سے خلا ء میں گھورتی رہتی ہیں کسی ہم سخن کی تلاش میں لبوں پر
خاموشی کے فعل مگر اذہان ہمہ وقت تکفر کی آماجگاہ رہنا ہے اکثر اوقات یہی
مخلوق اپنوں کے بنائے قید خانوں میں طبعی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں
۔انھیں سیلن زدہ گھروندے دیمک کی طرح چاٹ کھاتے ہیں انھیں مختلف بیماریاں
مثلا ٹی بی،شوگر ،فالج ،دل کا عارضہ،بلڈ پریشر،یا غشی (مرغی)کے دورے پڑتے
ہیں تو اپنی کوتاہی کو چھپانے کیلئے حاضر ی ہورہی ہے کالیبل لگا دیا جاتا
ہے حالانکہ یہ تمام علامتیں تطبعی اور نفسیاتی ہیں ۔جو قابل علاج ہیں لیکن
علاج ہی مقصود ہوتا تویہ مواقع ہی کیوں آتے خود غرضی کے اس دور میں یہ
کیفیات ناصرف بالغ بچیوں بلکہ کبھی کبھار شادی شدہ حتیٰ کہ سروس پیشہ کو
بھی درپیش ہوتی ہیں ایسے حالات ہمیشہ تبھی وقوع پزیر ہوتے ہیں جب بے جا
سختی کی جاتی ہے۔جب اپنوں کا اپنوں سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے،جب سانس لینے سے
پہلے ہی گلاگھونٹ دیا جاتا ہے ۔کبھی کسی نے اس برائی کے تداراک کا سوچا
؟میرے خیال میں ایسے افراد کا علاج نہ صرف medical treatment ہے بلکہ بحثیت
انسان ان سب کو بھی انسانیت کا حق دیتے ہوئے اظہار جذبات کے مواقع کرنا
ہونگے بے شک بے جا آزادی نہیں اپنے ماحول اور مذاہب کے مطابق گھروں میں
مائیں اپنی بیٹیوں کی سہیلیاں بن جائیں انکے جذبات،انکی رائے کواہمیت
دیں۔۔انھیں دوستانہ طریقہ سے راہنمائی فراہم کریں۔ممکنہ حد تک دوست بن
جائیں گھروں میںpossible heathy activiesکا اہتمام کریں تاکہ ممکنہ و ذہنی
ورش کرتے رہتے ہیں اور تقریباتمام معاشروں میں مرد پر پابندیاں بھی ناہونے
کے برابر ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس اندوناک عالم سے تقریبابچے ہی رہتے
ہیں۔ اور اس عالم کا شکار حواکی بیٹی ہی ہوجاتی ہے ۔ہرزی روح وجہ چاہت کا
طلبگار ہوتا ہے ہر تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔سخت گیرروایات پر عمل پیرا ہونے
والوں سے میری یہی گزارش ہے کہ خدا کیلئے خود بھی جیواور دوسروں کوبھی جینے
دو۔لیکن اس کڑوے سچ کیلئے کوئی بھی مورد الزام ٹھہرنے کو تیار نہیں نا ہی
اپنے نا ہی بیگانے نے کیا کبوتر کی طرح آنکھیں موند لینے سے بلی اپنے شکار
کو بخش دے گی نہیں اسلیے کوئی مانے یا انکار کرے کم از کم اس حقیقت کوجان
کراسے اپنے اس گھناونے کردار سے کچھ تو ندامت ہوگی شاید کوئی ایسا گردہ بھی
پیدا جائے جو خاندانی روایات وانا کو فراموش کرکے نسل آدم کی عزت کو اذیت
ناک عالم کی گرفت سے آزادی دلائے اور عالم بے زباں میں گرفتار بچیوں کی آہ
بکا کوسن سکے
میں صورت بد دُعاؤں کی
کہیں دور سے پستی آئی ہوں
میں گٹھریاں دور وآھوں کی
مجھے معاف کروپٹتی آتی ہوں
اب قفل جہالت توڑ بھی دو
مجھ پہ رحم کرومجھ پہ رحم کرو
مجھے جینے دو مجھے جینے دو
ہوں ٹھنڈک تیری آنکھوں کی
خشبوہوں تیری بھگیا کی
ہیں دونوں لخت جگر تیرے
کیوں بھیاکوبس لاڈ کرے
میں تیری پیاری گھڑیاں ہوں
مجھے آنگن میں تو کھیلنے دو
مجھ پہ رحم کرو،مجھ پہ رحم کرو
مجھے جینے دو مجھے جینے دو |