’’الانسان‘‘

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریجنل دعوہ سینٹر اور آئی سی آر سی کے اشتراک سے 16جون کو کراچی میں ایک روزہ سیمینار ’’بین الاقوامی انسانی قانون ‘‘ کے حوالے سے منعقد تھا، پروفیسر ڈاکٹر منیر ، پروفیسر مشتاق ، ڈاکٹر ضیاء اﷲ رحمانی اور آئی سی آرسی کے منتظم حضرت بلال نے سندھ بھر سے مدعو علماء وفضلاء کے سامنے انتھائی پرمغر اندا ز میں موضوع پر مقالات،تقاریر اورویڈیوز کے ذریعے سے روشنی ڈالی،اختتامی کلمات راقم الحروف کے حصے میں تھے ۔ حمدوصلاۃ اور تشکر وامتنان کے بعد یہ معروضات پیش کی گئیں :
بین الاقوامی قوانین کے کئی ابواب ہیں ، ان ہی ابواب میں سے دوباب صرف ’’الانسان ‘‘ یعنی بنی نوع بشری کے متعلق ہیں ، ایک حقوق انسانی کا قانون ِبین الاقوام ہے ،جو اپنی مندرجات کے اعتبارسے عموم کوشامل ہے ، دوسرا جنگوں اور نزاعات میں انسانی جانوں کے متعلق ہے ، آئی سی آر سی صرف اس آخری باب کی ترتیب وترویج ،نشرواشاعت ،دعوت وتبلیغ اور تنفیذکے لئے ڈیڑھ سوسال سے کوشاں ہے ، اس کے پاس اپنی کوئی قوتِ نافذہ نہیں ہے ، یہ صرف اپنی سفارشات اور اخلاقیات کے توسط سے اس میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ، بہت سے مواقع پر اس کے رفقائے کار کو اس میدان میں کامیابی مل جاتی ہے ، اور کئی مقامات پر قوت واقتدار کے نشے میں دھت ممالک اورحکمراں جنگوں میں بہت بری طرح انسانی قوانین کو پامال کرتے نظر آتے ہیں ،جیسے افغان امریکہ جنگ میں امریکی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی ، بوسنیا صربیا نزاع میں صرب حکام کا وحشی پن ، شام وعراق میں جانبین کی بربریت۔ ایسے میں اس جیسی تنظیمیں انسانیت کیلئے اپنی آواز ہی بلند کرسکتی ہیں جنیوا کنونشن اور ان کے بعد کے اقوام متحدہ کے قوانین ومواثیق یاددلاتی رہتی ہیں ۔

لیکن جنگ بہر حال جنگ ہوتی ہے ، اس میں دونوں فریقین جائز حدود پارکرتی ہیں ،درندگی کامظاہرہ ہوہی جاتاہے ،انسانیت کی تباہی کے ایسے ایسے مناظر مشاہدے میں آجاتے ہیں،کہ جن کے تصور سے روحیں کانپنے لگتی ہیں،اوربدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،اس کی بنیادی وجوہات میں سے یہ ہیں کہ غضب کے وقت انسان اپنی اصلیت بھول جاتاہے ، انسانیت جو بذات ِخود ایک شرف او راعزاز ہے ، وہ دماغوں سے اوجھل ہوجاتی ہے،یہ انسانیت جب بھی اپنی دونوں صفتوں ماہیت اور مادیت میں سے کسی ایک طرف جھکتی ہے ، تو اسکے افعال ، اقوال اور کردار میں توازن کھو جاتاہے ، ماہیت کے غلبے کی صورت میں وہ اپناذاتی جسمانی نقصان کربیٹھتاہے اورمادیت کے غلبے کی صورت میں وہ بہیمیت یا اس سے بھی نیچے چلاجاتاہے ،جسکی تعبیر قرآن کریم نے یوں کی ہے ، : ﴿ اِن ھم الا کالانعام بل ھم اضل سبیلا﴾ (سورۂ فرقان،آیت44) ،یہ صرف پیغمبر اور اھل اﷲ ہی ہوتے ہیں ،کہ وہ ہرحال میں اس توازن کو برقرار رکھتے ہیں ، دیگر انساں کوئی بھی ہو، وہ یہ موازنہ نہیں کرسکتے ، اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں ، کہ ملک میں لسانی، فرقہ وارانہ یاجماعتی فسادات میں انسانیت کی کس کس طرح توہین ہوتی ہیں،نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی افواج نے جب سوات میں آپریشن کیا، یا اب وزیر ستان میں کررہی ہیں ، وہاں بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں ، املاک کا بھی نقصان ہوجاتاہے ، غیر جنگجو بھی زد میں آجاتے ہیں ، اوردوسری طرف پاکستانی طالبان نے بھی جتنے حملے اس ملک میں کئے ، وہ بھی قرآنی اصطلاح سے متصاد م ہوجاتے ہیں ، قرآن کریم میں لفظ ’’جہاد وقتال‘‘ جہاں بھی استعمال ہوا ،اس سے مراد، جانبین سے مشارکہ واشتراک فی القتال کا مفہوم ہے ،قتال وجہاد دونوں ’’بابِ مفاعلہ ‘‘ کے مصادرہیں ، جن کا مطلب ہے ، جو تم سے لڑے ان سے لڑو ، لہذا ان الفاط کے صرف ظاہر پر اگر غور کیاجائے ، تومطلب صاف واضح ہے ،کہ لڑنا اس سے ہے ، جو لڑاکو آپ کے ساتھ لڑائی پر تُلاہو، جو جنگجو آپ کے مقابلے میں ہو، اگرکوئی لڑنہیں سکتا، یا لڑنا اور جنگ کرنا نہیں چاہتا، یا آپ سے نہیں لڑتا،تو ان سے قتال وجہاد نہیں ہے ، جیسے بوڑھے ، خواتین ، بچے ،مزدور ، مویشی ،املاک طبی عملہ وغیرہ ، چنانچہ اسی لفظ’’ قتال ‘‘ یعنی مشارکت فی القتال کو بنیاد بناکر بین الاقوامی انسانی قانون مرتب کیاگیا، غزوات نبی ﷺ او رحضرات صحابہ کرام ؓ کی جنگیں تواس پر شاہد عدل ہیں ۔

اس تناظر میں ہم اپنی افواج اور طالبان جو قرآن وسنت کی دعوت کے علمبرداری کا زعم رکھتے ہیں ،سے گزارش کرینگے ،کہ وہ اپنے اپنے اہداف کو ہی نشانہ بنائیں ،انتقامی انداز نہ اپنائیں،تاکہ کل کو وہ جنگی جرائم کے مرتکب نہ ٹہریں،ہاں اس میں کسی بھی باقاعدہ فوج کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ یہاں ہمارا مطالبہ اس سے ہٹ کرہے ، کہ اس وقت کون حق پرہے ، اورکون باطل پر ، کیونکہ یہ سب ہی جانتے ہیں ، کہ کسی اسلامی ملک میں فساد برپا کرنا بذات خود ایک جرم ہے ، اور لڑائی پر اتر آنا اس سے بھی بڑاجرم ہے ، ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر جنگ ہی ناگزیر ہے ، تو جوجس سے جنگ کررہاہے ،مقابلے میں اسی سے جنگ ہو، قرآن کریم نے فرمایاہے :’’ ﴿وقاتلوافی سبیل اﷲ الذین یقاتلونکم،ولا تعتدوا․․․․﴾ (سورہ ٔ بقرہ۔آیت190 )، اﷲ کی راہ میں انہیں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں ،اور حد سے تجاوز نہ کرو۔

اسلام نے یہ اصول کیوں وضع کئے، تاکہ جنگ میں بھی انسانیت کا احترام ملحوظ رہے ، اب اگر کوئی آدمی فطرت کے اصول ،قوانین اور بین الاقوامی منظورشدہ دساتیر کا لحاظ نہیں کرسکتا،یا نہیں کرتا ،تو وہ انسانی معاشرے میں ایک ظاہری شکل وصورت کا انسان توہے، لیکن وہ ’’الانسان ‘‘ یعنی انسانِ کامل کہلانے کا مستحق ہرگز نہیں ہے ۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877730 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More