برسوں کی کمائی اک گولی کی محتاج

پندرہ سال کی مسلسل مایوسی کے دور سے گزرتے ہوئے ایک جوڑے کو با آخر کسی کی دعا لگ گئی۔۔۔جوڑے کے ہاں اﷲ تعالی نے ایک خوبصورت بیٹا عطا کیا، ماں کی آنکھیں خوشی سے نم ہونے لگی، باپ کا سینا اور چوڑا گیا۔ دونوں اﷲ کا شکر بجا لاتے نہ تھکتے، ماں باپ نے خون پسینہ ایک کر کے بیٹے کی پرورش کی۔ ماں کی دلی تمنا کہ بیٹا ڈاکٹر بن کر عوام کی خدمت کرے گا، جب کہ باپ بیٹے کا سینا فوجی تمغوں سے اٹا دیکھنے کا خواہش مند تھا۔۔۔اﷲ تعالی نے باپ کی خواہش پوری کر دی، بیٹا پاک آرمی میں سلیکٹ ہو گیا پاکستان کے اس فوجی جوان کے وجود میں سیسہ بھر د یا گیا ،،، ، مئی کے و جو د کو لوہا بنایا گیا۔۔۔ سر پر کفن باندھا گیا اور کندھوں پر پاک وطن کی عزت کو رکھ کر اس ماں کے لال کو سرحدوں پر دشمن کی گولی سے لال ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔۔۔۔

منتوں مرادوں سے مانگے ہوئے جگر کو اور اسی پاک فوجی کو 1965 کی جنگ میں بھیجا گیا ،جہاں وطن کو پچا تے پچا تے جا م شہادت پی گیا ۔۔۔ اسی پاک فوجی کو 1971 کی جنگ میں کھڑا کر د یا گیا جہاں ایک بار پھر جوان جان کی پرواہ کئے بغیر وطن کی مٹی کو بچتا گیا۔ یہی نہیں بلکہ کار گل کی جنگ میں بھی یہی فوجی امداد کے لیے نظر آیا۔ ہم کہاں کہاں ماں کے اس شیر کی مثال ڈھونڈتے پھریں گے ۔۔۔؟؟؟ یہی فوجی اپنی خواہش کی پرواہ کے لیے بغیر ملکی ہنگامی صورتوں میں دورتا چلا اتا ھے۔۔۔ ۲۰۰۹ راولپنڈی جی ایچ کیو پر دہشت گرد حملہ ہوتا ہے۔۔۔ یا ۲۰۱۱ مہران بیس پر حملہ کے کے طیاروں کو تباہ کیا جاتا ہے۔۔۔ یا پھر 2012 میں پشاور ایئر پورٹ پر حملہ کیا جاتا۔۔۔ تو یہی فوجی یونیفارم پہنے، بلند حوصلوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر تے کرتے شہید ہو جاتا ہے۔۔۔

پاکستان کی موجود صورت حال بے حد قابل رحم ہے۔ جہاں قحط سالی بڑھتی جا رہی ہے، پولیو کا مر ض کنٹرول سے باہر ہوتا جارہا ہے ، مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے، عورتوں کو جنسی ہراساں کیا جا رہا ہے۔۔۔ عوام میں ہڑتالوں، احتجاجوں اور دھرنوں کا شوق بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔، ملازمین سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔۔۔ اہم امور کو نظر انداز کر کے عوامی بجٹ کو قیا مت صغرا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔، اور جہاں سیاست دان اپنے وقت کو بھر پور طریقوں سے انجوائے کر رہے ہیں۔۔۔ وہیں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ہولناک واقعات پاکستان کو دنیا میں بدنام ہی نہیں کر رہے بلکہ پاکستان کو پناہ ستان قرار دے رہے ہیں۔ جہاں غیر ملکی دہشت گرد مختلف علاقوں میں پناہ لیتے ہوئے تربیت حاصل کر رہے ہیں اور ملکی معشیت کو کمزور سے کمزور تر بنا رہے ہیں۔ وہیں دہشت گردی کے واقعات سے نمٹے کے لیے حکومت تو بے حد سست نظر آئی۔ حال تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت عام انسان کو بنیادی سہولتیں دینے کی بجائے ترقیاتی کاموں میں معروف رہی ہے۔ مگر غیر ملکی طاقتیں پاکستان کی جڑیں کمزور کرنے کے در پے ہیں۔ اس سے بے خبر دو بھائی آپس میں پیا ر ومحبت کے خطوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔۔۔ ایک والدہ محترمہ کو شال کا تحفہ دیتا ہے تو دوسرا ساڑھی کا تحفہ۔۔۔ ان تخائف کی تبادلے کے بعد پاکستان کو ایک اور بے حد قیمتی تحفہ ۸ جون کو کراچی ائیر پورٹ پر حملے کی صورت میں ملا ۔ اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے یہی پاک فوجی ہی کام آیا۔ اس حملے میں کتنی ماؤں کے انتظار کو لامتنائی بنا دیا گیا۔ کتنی بہنوں سے ان کے بھائی کو چھین لیا گیا۔ اور کتنی ہی دلہنوں سے ان کے سوہاگ چھین گئے ۔ یہ فوجی کس کس صورت میں ملک کی حفاظت کرے۔ مگر جب خوشی کا لمحہ آتا ہے تو اسی فوجی کو مٹی تلے دب جا نا ھو تا ھے۔۔۔حملے ہو رہے ہیں، جانیں تباہ ہورہی ہیں مگر حکومت تو آگے پیچھے ممالک میں پھرتی اپنے کاروبار کو وسیع کرنے میں مشغول رہی ۔ دو چار ٹیلی فونک انٹرویو سے دکھی ماؤں اور بیویوں سے اظہار افسوس کیا جاتا ہے، اور چند دستوں کی سلامی پیش کرتے ہوئے اس بہادر فوجی کی روح کو خوش کر دیا جاتا ہے۔اور در پردہ حکومت پھر عیاشی کا سیگار سلگاتی نظر آتی ہے ۔۔ اور ایک بار پھر دشت گردوں سے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں پاک فوج کو ضرب عضب آپریشن کا حکم دے دیتی ہے۔ اس امر میں کوئی مین شک نہیں دشت گرد پاکستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال میں رکھ کر ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ اور اب غیر ملکی شدت پسندوں کو ان کے ارادوں میں نا کام بنانے کے لیے فوجی آپریشن کا حکم د یا گیا ۔۔۔ فوجی آپریشن کی نوبت ہی کیوں آئی۔۔۔؟؟؟ اس آپریش کے اختتام پر کیا آخری دہشت گرد تک مر جائے گا۔، اس ضرب عضب میں کتنے بچوں ماصوموں اور بے گنا ہوں پر ضرب لگے گی، کیا حکومت ملک کو دہشت گردی جیسی ملحق بیماری سے بچا لے گی۔؟ ۔ کوئی شک نہیں کہ اس ضرب عضب کے آغاز ہوتے ہی بہت سارے سوالات بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ کیا حکومت کا یہ حکم وقت کی ضرورت تھا یا پھر حکومت بہادر فوجی کی قربانی پر ہمدردی کے بول یاد کرنے کے لیے وقت مانگ ر ھی ھے ۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 41347 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.