بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عبداﷲ بن مبارک ؒ کے پڑوسی نے مکان بیچنے کا ارادہ کیا اور قیمت دگنی رکھی۔
لوگوں نے اعتراض کیا کہ مارکیٹ ویلیو سے آپ دگنی قیمت بتلا رہیں ہیں تو
مالک مکان نے کہا کے مکان کے ساتھ عبداﷲ بن مبارکؒ کا پڑوس بھی تو دے رہا
ہوں ، ایسا پڑوس آپ کو کہیں نہیں ملے گا،اس لئے قیمت زیادہ ہے
پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اسلام کی تعلیم ہے اور انکو تکلیف دینے
والا اچھا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں، حدیث شریف میں آتا ہے کہ دو عورتوں
کا تذکرہ کیا گیا ایک وہ جو خوب نفلی عبادات کرتی تھی لیکن پڑوسیوں کو تنگ
کرتی تھی اور دوسری وہ جو نفلی عبادات زیادہ نہیں کرتی تھی لیکن پڑوسیوں کے
ساتھ اس کا رویہ بہت اچھا تھا تو پہلی عورت کو جہنمی اور دوسری کا جنتی
قرار دیا گیا ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پڑوسی کے حقوق کہ
متعلق اس قدر تاکید فرماتے کہ ایسا لگتا تھا کہ میراث میں حصہ دار بنا دیں
گے ۔ صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں اس قدر احتیاط برتی جاتی تھی کہ ایک بار
بکرے کا گوشت کسی نے اپنے پڑوسی کا دیا ، اس پڑوسی نے اس خیال سے کہ میرا
دوسرا پڑوسی ضرورت مند ہو گا اس نے وہاں بھیجوادیا،دوسرے پڑوسی نے اسی طرح
اپنے پڑوسی کے متعلق یہ گمان کیا اس طرح یہ گوشت سات گھروں سے ہو کر دوبارہ
پہلے گھر میں آگیا حالانکہ اس وقت سب ہی ضرورت مند تھے لیکن ہر ایک نے
دوسرے کا فوقیت دی۔ عبداﷲ بن عمر ؓ نے بکرا ذبح کیا تو بار بار تاکید
فرماتے کہ میرے یہودی پڑوسی کو سب سے پہلے گوشت پہنچائیں ، علماء فرماتے
ہیں کہ اگر ہمارا پڑوسی اگر اپنا رشتہ دار ہو تو ایسی صورت میں بہت زیادہ
احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اس کے تین حق ہو جاتے ہیں رشتہ داری کا حق،
مسلمان ہونے کا حق اور پڑوسی ہونے کا حق، انسان کی اچھائی اور برائی کا
معیار اس کو قرار دیا گیا کہ پڑوسی اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں ۔
جس طرح قریبی رشتہ داروں کے حقوق ہیں اس طرح پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں ،
لیکن رشتہ داروں کے حقوق کا تو کچھ خیال رہتا ہے لیکن پڑوسیوں کو نظر انداز
کر دیا جاتا ہے اور اہمیت نہ ہونے کی وجہ سے ایسی حرکتیں ہو جاتیں ہیں جو
کہ پڑوسیوں کے لئے اذیت کا باعث بنتی ہیں اس لئے کہا گیا کہ پھل وغیرو کوئی
چیز گھر لائیں تو اگر پڑوسیوں کے دینے کا ارادہ نہ ہو تو خفیہ طور پر گھر
لائیں اور بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں تاکہ پڑوسی کے بچے دیکھ کر رنجیدہ
نہ ہوں ، لیکن اب تو باقاعدہ دکھانے کے لئے بچے ہر نیا کھلونا لے کر باہر
نکلتے ہیں جنہیں دیکھ کر پڑوسی کے بچے اپنے والدین سے ضد کرتے ہیں اور
گھروں میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
صحابہ کرام ؓ نے حالت جنگ میں بھی ایسا ایثار کیا کہ پیاسے جان دے دی لیکن
پڑوس میں پڑے ہوئے زخمی سے پہلے پانی پینا گوارا نہ کیا ، ہماری یہ حالت ہے
کہ پڑوسی کا پانی بھی ہم کھینچ لیتے ہیں کہ گھر میں پانی کھینچے کی ایسی
پاورفل مشین لگواتے ہیں کہ جس سے لائن کے پانی لے علاوہ پڑوس کے ٹینک سے
پانی بھی کھنچ جاتا ہے، کئی منزلہ عمارت میں رہنے کی صورت میں سب کا پانی
پر حق ہوتا ہے لیکن کوشیش کی جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی ٹنکی ہمارے گھر لگی ہو
تاکہ زیادہ سے زیادہ پانی کا زخیرہ کر سکیں اور یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ
یہ پڑوسیوں کی حق تلفی کر کے ہم کتنا بڑا جرم کرتے ہیں-
آجکل گنجان آباد علاقوں میں مکان اس قدر قریب ہوتے ہیں کہ پڑوسیوں کے گھر
کا منظر صاف نظر آتا ہے ، علماء کرام فرماتے ہیں کہ گھروں میں جھنکنا گناہ
کبیرہ ہے اور یہ گناہ دن رات دھرلے سے ہو رہے ہیں ، پڑوسیوں کے معاملے میں
اپنی نظروں کی خاص طور پر حفاظت کی ضرورت ہے ، ایسے ہی دوسروں کو اس گناہ
سے بچانے کی فکر کرنی چاہئے اور گھروں میں ایسا انتظام کیا جائے کہ کوئی
ہمارے گھر جھانک نہ سکے اس میں کوتائی کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور
خاندان کی رسوئی کا سبب بنتے ہیں-
پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی ایک صورت جو کہ عام ہوتی جارہی ہے کہ شادی بیاہ
تقریبات میں رات دیر گئے آتش بازی و فائرنگ کی جاتی ہے کہ پورا محلہ
گھبراہٹ میں اٹھ جاتا ہے ۔ خوشی کے اظہار کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ پڑوسیوں
کو اذیت دینے کا وبال سر لے لیا۔بعض رات گئے دینی پروگرام رکھتے ہیں اس میں
لوڈ اسپیکر کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے ۔ مسجد نبویﷺ میں ایک واعظ اتنی
بلند آواز سے تقریر کرتے تھے جس سے حضرت عائشہ ؓکی عبادت میں خلل پڑتا تھا
، حضرت عائشہ ؓ نے خلیفہ وقت حضرت عمر ؓ سے شکایت کر دی اور حضرت عمر ؓ نے
اس واعظ کو تنبیہ فرمائی-
ایک طرف تو اس کا خیال رکھنا کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، اپنی ذات
سے انکو تکلیف نہ دے، دوسری طرف یہ بھی پڑوسی کے حق میں شامل ہے کہ ا گر
پڑوسی کی طرف سے کوئی اذیت پہنچے تو اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے، ذرا
ذرا سی بات پر شکایت نہ کرے-
عبداﷲ بن مبارکؒ کے پڑوسی نے اپنے مکان کی قیمت بڑھا دی ، اسی طرح پڑوسی سے
کیا جانے والا اچھا سلوک روز قیامت میزان عمل کو بھاری کر کے ہماری قیمت
بڑھا دے گا۔ |