اغوا برائے تاوان کی وارداتیں

لیاقت آباد پولیس نے 11 سال کی عمر میں اغوا کی جانے والی بچی کو 17 سال بعد بازیاب کرالیا ہے، گیارہ سال پہلے ہونے والے اس واقعے کا پولیس کوئی سراغ نہ لگا سکی تھی۔اس بچی کو ان کے پڑوسیوں نے اغوا کیا تھا۔ عزیز آباد پولیس نے اغوا برائے تاوان میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کر کے زنجیروں سے بندھے مغوی صنعت کار کو بازیاب کرا لیا۔ سائٹ کے اس مغوی صنعتکار عصمت کا کھوج لگا کر یاسین آباد میں ایک مکان پر چھاپہ مارا اور کمرے میں بند زنجیروں سے جکڑے اور آنکھوں پر پٹی بندھے مغوی صنعتکار عصمت کو بازیاب کر کے ملزم شاہد کو گرفتار کر لیا۔ ملزم سے ایک ٹی ٹی پستول اور وصول کی گئی تاوان کی رقم 2 لاکھ روپے برآمد کر لی گئی۔ اغوا برائے تاوان کی ایک اور واردات میں ڈیفنس فیز 8 میں واقع این ایل سی کی کینٹین کے مالک محمد حسین مغل کو چند مسلح افراد اغواء کرنے کے بعد اسے یونیورسٹی روڈ گلشن اقبال کی طرف لے جارہے تھے کہ نیپا چورنگی سگنل پر گاڑی رکی تو محمد حسین ملزمان کی قید سے فرار ہوگیا اس کے شور کرنے پر قریب موجود لوگ جمع اور ملزمان فرار ہوگئے۔ بعد میں ملزمان پکڑے گئے۔ کراچی اغوا کاروں کے لئے جنت ہے۔

کراچی میں روزانہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہوتی ہیں ۔ جن میں چند ایک ہی کی پولیس میں رپورٹ درج ہوپاتی ہے۔ کچھ لوگ ڈر کر اور کچھ ملزماں کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر ایسی وارداتوں کے بعد پولیس کے پاس نہیں جاتے۔ اغوا برائے تاوان میں وصول ہونے والی رقوم دہشت گردی کی وارداتوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اغوا کاروں کے کراچی میں کئی گروپ کام کررہے ہیں۔ جن کے رابطے بلوچستان، اندرون سندھ، اور قبائیلی علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سندھ پولیس کا وہ شعبہ اینٹی وائیلنٹ کرائم سیل اغواء برائے تاوان کے مقدمات کی تحقیقات کرتا ہے۔ پچھلے 7 سال کے دوران اس کی کارکردگی ناقص دکھائی دیتی ہے۔ 2003ءمیں سندھ پولیس نے باقاعدہ اینٹی وائیلنٹ کرائم سیل کا باقاعدہ قیام کیا گیا تھا۔ اور اس میں آنے والے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سنے جاتے ہیں۔ پولیس نے سینکڑوں انتہائی خطرناک ملزمان کی گرفتاری تو ظاہر کی گئی‘ تاہم ابھی تک کوئی ایسا مقدمہ سامنے نہیں آیا جس میں کسی بھی ملزم کو ان مقدمات کی روشنی میں سز ادی گئی ہو۔ مقدمات اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ کسی کو سزا ہی نہ ہو۔2005ء سے اغواء برائے تاوان کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ پولیس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مقدمات کے فیصلے نہ صرف تاخیر سے ہوتے ہیں بلکہ اس میں بہت معمولی نوعیت کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ اکثر ملزمان عدم ثبوت اور شہادتوں کی آڑ لے کر بری ہوجاتے ہیں۔

پولیس نے کئی اغوا کاروں کو مقابلے میں مارنے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ ان میں لیاری کا رحمان بلوچ، امان اللہ بروہی اور قادر نوہانی جیسے ملزمان شامل ہیں۔ جن پر حکومت سندھ کی طرف سے لاکھوں روپے کا انعام مقرر تھا،۔ گزشتہ 6 سال کے دوران شہر کے پوش علاقوں سے اغواء ہونے والے افراد کے ملزمان کو گرفتار کرنے کی تعداد غریب علاقوں سے اغواء ہونے والے ملزمان سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے واقعات میں اغوا کرنے والے تاوان کی رقم وصول کرنے کے بعد مغوی افراد کو قتتل بھی کردیتے ہیں۔ نئی جوڈیشل پالیسی کے مطابق اب ان مقدمات کی سماعت ہر دوسرے روز ہونی ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا نے پولیس کو صوبے بھر اور بالخصوص کراچی میں جرائم کے انسداد کے لئے مزید مستعدی اور کڑی نگرانی سے منظم کارروائیوں کے احکامات جاری کئے تھے۔ انہوں نے پولیس کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے اور بالخصوص کراچی میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام، ایسی وارداتوں میں مغویان کی صحیح سلامت بازیابی، مغویان کو رکھے جانے والے مقامات کے خاتموں اور ایسے سنگین جرائم میں ملوث گروہوں، ان کے سرپرستوں اور کارندوں کی گرفتاریوں کے لئے ٹھوس حکمت عملی پر مشتمل منصوبہ بندی ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے سندھ کے کچے کے علاقوں میں موجود ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کے خاتموں اور انہیں پناہ دینے والے پتھاریداروں کے خلاف نتیجہ خیز پلان ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ دوسری جانب پولیس کی جانب سے اسٹریٹ کرائم، قتل، اقدام قتل، اغواء برائے تاوان اور دیگر سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کے مقدموں میں عدالتوں کی جانب سے سمن جاری کرنے کے باوجود پولیس افسران واہلکاروں کا گواہی کے لئے حاضر نہ ہونا عدالتی عمل پر اثر انداز ہورہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ احکامات کے جو پولیس افسران اہلکار مقدمات میں گواہی کے لئے حاضر نہیں ہوتے ان کے خلاف سخت محکمہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔ چیف جسٹس کو ان بڑھتے ہوئے واقعات کا نوٹس لینا چاہئے۔ اغوا برائے تاوان کے مقدمات کی خصوصی مانیٹرنگ کی جائے۔ تاکہ کراچی میں پھیلا ہو خوف و ہراس کم ہو۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387525 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More