انجام گلستان کیا ہوگا

دوسری جنگ عظیم میں یورپ سے شکست کھانے کے بعد جرمن قوم کو سب سے ذلت آمیز شرائط کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اس قوم نے اپنی حب الوطنی، محنت، جانفشانی، سے ایک بار پھر نہ صرف اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کیا، بلکہ بہت سے معاملات میں یورپ سے بازی لے گیا۔ علامہ اقبال نے شائد ان ہی خصوصیات کے بنا پر اپنی تعلیم کے لئے جرمنی کو پسند کیا تھا۔ اسی جرمن قوم نے وطن سے محبت کی ایک انوکھی مثال قائم کی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ ٹیکس سے بچنے کے لئے قانون کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن جرمنی کے ۴۴ افراد نے اپنے ملک کو ٹیکس دینے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا ہے۔ ان افراد نے اپنے ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے زیادہ ٹیکس دینے پر نہ صرف آمادگی ظاہر کی ہے بلکہ حکومت کو زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔ جرمنی کے ایک امیر ترین گروپ نے اپنی رٹ پٹیشن میں کہا ہے کہ ان کے پاس بہت دولت ہے۔ جو ان کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا حکومت ہم سے زیادہ ٹیکس وصول کرے تاکہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالا جا سکے۔ درخواست پر 44 امیر ترین افراد کے دستخط ہیں۔ جرمنی کے ایک ریٹائرڈ 66 سالہ ڈاکٹر کے مطابق اگر جرمن کے 22 لاکھ امیر افراد 5 فیصد زائد دولت ٹیکس دیں تو دو سال میں ملک کو 100 ارب یورو کی اضافی آمدنی ہوگی۔ جس سے اقتصادی بحران کا خاتمہ ہو جائیگا۔

جرمنوں کے بر عکس پاکستان میں دولت مند افراد کی بڑی تعداد اپنی دولت چھپاتی ہے۔ اور ٹیکس چوری کرتی ہے۔ ایک اندازے کے پاکستان میں 800 ارب روپے کی سالانہ ٹیکس چوری ہوتی ۔ ملک میں ٹیکس کا سارا بوجھ غریب عوام پر یا سرکاری شعبے کے ملازمین پر ہے۔ ٹیکس چوری کرنے والے اور عوام کو لوٹنے والے 80 فیصد شوگر ملز کے مالکان سیاسی رہنما ہیں جن میں سے 68 فیصد مالکان حکومت میں شامل ہیں۔ خود کو غریب عوام کے نمائندہ قرار دینے والے ان رہنماؤں کی حالت یہ ہے کہ کروڑوں ڈالرز کے اخراجات سے ان کی جماعتوں کے انٹرنیشنل سیکرٹریٹ لندن میں قائم ہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں غریب لوگ امراء کو سبسڈی دیتے ہیں کیونکہ پاکستان میں90 فیصد ٹیکس بالواسطہ ہیں اور غریبوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور امراء چند ہزار ہیں۔ اس ملک میں غریبوں کی اکثریت بجلی، گیس، پٹرول، ٹیلیفون کے استعمال پر جو بالواسطہ ٹیکس ادا کرتی ہے وہ ان براہ راست ٹیکسوں سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں جو امراء بادل نخواستہ ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب کوئی غریب کسان گاﺅں سے اپنی سبزی یا پھل شہر لاتا ہے تو وہ نہ صرف کارپوریشن کے اہلکاروں کو اپنی پیداوار کا کچھ حصہ دینے پر مجبور ہوتا ہے بلکہ ٹول ٹیکس بھی ادا کرتا ہے جبکہ امیر آدمی جو سیاستدان یا بیوروکریٹ ہوتا ہے اور لینڈ کروزر پر سوار ہوتا ہے وہ ٹول ٹیکس سے VIP ہونے کے باعث مستثنیٰ خیال کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں صاحب حیثیت سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور بالا دست طبقے کے افراد کی اکثریت نان کسٹم پیڈ انتہائی قیمتی گاڑیوں میں گھومتی پھرتی ہے۔ مگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کیا مجال کہ ان کو پکڑ سکیں۔ پاکستان میں اہل ثروت افراد انکم ٹیکس اور دولت ٹیکس دینا گوارہ نہیں کرتے ہیں جسکی وجہ سے ہماری قومی آمدنی میں ٹیکسوں کی شرح جی ڈی پی کا محض 9.5فیصد ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود ارب پتی ممبران کے گوشواروں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں اکثریت کے پاس نہ تو کوئی گھر، گاڑی اور بینک بیلنس ہے۔ اسی لئے وہ زکوٰة فنڈ اور بیت المال کی امانتوں پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کے پاس اسلام آباد ،لاہور، کراچی میں کروڑوں روپوں کی مالیت کے بنگلے ہیں مگر پراپرٹی ٹیکسوں سے بچنے کیلئے رجسٹریوں میں ان کی مالیت چند لاکھ روپے ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سینٹ کے ارکان اثاثوں کی جو تفصیل دی ہے اس کے مطابق سب سے زیادہ اثاثوں کے مالک وفاقی وزیر سیاحت محمد اعظم خان سواتی ہیں٬ جن کے اثاثوں میں متحدہ عرب امارات میں دو کروڑ درہم کی جائیداد جبکہ اندرون ملک 25 کروڑ روپے کی غیر منقولہ جائیداد شامل ہے جبکہ سب سے کم اثاثوں کے مالک جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا گل نصیب خان ہیں جن کے پاس 30 ہزار روپے کی نقدی اور 3 ہزار روپے بینک بیلنس شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے شائع کئے گئے گوشواروں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری اطلاعات طارق عظیم کے بیرون ملک سات لاکھ بیس ہزار پاﺅنڈ کے اثاثہ جات ہیں۔ ۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کے اثاثہ جات۶۲ کروڑ سے زائد ہیں۔ ۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف کے اثاثہ جات میں ایک کروڑ 16 لاکھ روپے کے مختلف شہروں میں پلاٹ شامل ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کے زیادہ تر اثاثے ان کی اہلیہ کے نام پر ہیں۔ جبکہ ان کے ذمہ 20 لاکھ روپے کے قرضے واجب الادا ہیں۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کامل علی آغا کے اثاثہ کی مجموعی مالیت دو کروڑ پانچ لاکھ روپے ہے ۔ سابق اٹارنی جنرل پاکستان سردار لطیف کھوسہ کے اثاثہ جات میں پچاس لاکھ روپے کے زیورات شامل ہیں جن کی مالیت شادیوں کے وقت اور موجودہ 50 لاکھ روپے درج کی گئی ہے۔ یہ زیورات ان کی بیگمات کے نام ہیں۔ یہ تو چند نام ہیں، فہرست بہت طویل ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے لائف سٹائل کی وجہ سے غربت ایک سنگین معاشی مسئلہ بن چکا ہے۔ عوام بجلی پانی گیس پیٹرول کے ٹیکس اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کر رہے ہیں۔ لیکن امرا نہ تو اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر تیار ہیں، اور نہ ٹیکس ادا کرنے پر رضامند ہیں۔ پاکستان کا مالیاتی خسارہ جو 722 بلین روپے ہے۔ اگر زرعی ٹیکس لیا جائے۔ امراء سے ٹیکس لیا جائے تو یہ خسارہ ختم ہو جائیگا۔ موجودہ حالات نے عوام کو مایوسی میں دھکیل دیا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے نوجوانوں میں سماجی بے چینی، احساس کمتری اور شدید تلخی کا احساس جنم لے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ شدید ناراض نسل بن چکے ہیں۔ کچھ جرائم کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں چند ایک دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں٬ اکثریت منشیات کی دنیا میں پناہ گزیں ہو چکی ہے اور چند خوش قسمت جائز یا ناجائز ذریعوں سے غیر ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ایسے میں وطن عزیز کی ترقی اور کامرانی کیلئے کون علم بلند کریگا جبکہ ہر طرف چوروں اور راہزنوں کا راج ہے۔ اہل اقتدار کے ایوانوں میں جدھر نظر اٹھاﺅ تو لگتا ہے کہ۔ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔ انجام گلستان کیا ہوگا
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387553 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More