کہتے ہیں غلطیاں سب ہی کرتے ہیں
مگر فرق اتنا ہوتا ہے کہ عقل مند اپنی غلطی پر پردہ ڈالنا جانتا ہوتا ہے
جبکہ اس کی بانسبت کم عقل شخص اپنی غلطی کو ظاہر کر بیٹھتا ہے۔ غلطی انسان
ہی سے ہوتی ہے اس لئے اسے غلطیوں کے پتلے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر کچھ
غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جو نہ تو کسی عقل مند نے کر کے چھپائی ہوتی ہے اور نہ
ہی کسی کم عقل نے کر کے ظاہر کی ہوتی ہیں بلکہ وہ غلطی تو ان دونوں نے نہیں
کی ہوتی وہ غلطی تو کسی اور نے کی ہوتی جو کہ کسی وجہ سے ان دونوں کے قسم
کے افراد پر ڈال دی جاتی ہے۔ ایسی غلطی کو عقل مند چھپا بھی نہیں سکتا اور
کم عقل اس کو ظاہر کیا کرے گا۔
ہمارے معاشرے میں کچھ چیزوں کی ناپ تول کے طریقے کچھ افسوس ناک اور انوکھے
ہیں۔ مثلاکسی کو کمتر سمجھنے کے لئے اس کا غریب ہونا ہی کافی ہے۔ کسی کو
مجرم قرار دینے اور اس پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے اس کی کمزوری ہی کافی
ہے۔ غریب کی خرید و فروخت اس کی بھوک کا حساب لگا کر کی جاتی ہے، کسی کو
روٹی دے کر اقتدار لیا جاتا ہے تو کسی کی روٹی چھین کر بدلہ لیا جاتا ہے۔
کہیں حق اور سچائی کے دام گولیوں کے بہاؤ ملتے ہیں تو کہیں بے قصور زبان کی
خاموشی توڑنے کے لئے حبس بے جا اور غیر قانونی ماردھاڑ کا سہارہ لیا جاتا
ہے۔ جب ہمارے معاشرے میں اس قسم کی انوکھے ناپ تول کے طریقے ہوں گے تو شاید
محرومیاں اس معاشرے کا مقدر بن جائیں گی۔
ایک مجرم کو جرم کی پاداش میں جب سزا ملتی ہے تو اس کی اصلاح کچھ حد تک
متوقع ہوتی ہے مگر جب کسی بے قصور کو مجرم قرار دے کر سزا دی جاتی ہے تو اس
کے ایک سچا، پکا مجرم بننے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔ جرم تو جرم ہے وہ
کوئی بھی کرے اور اس کی سزا بھی اس کو ملنی چاہیے مگر یہاں جرم کوئی اور
کرتا ہے اور سزا کسی اور کو ملتی ہے۔ جس سے ہمارے معاشرے میں مجرم اور
جرائم بڑھتے جارہے ہیں، محرومیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک دفتر
میں برسوں کام کرنے والے سینئر ورکر کو صرف شک کی بنیاد پر لٹکادیا جاتا ہے
اور اس پر کچھ الزامات لگائے جاتے ہیں جس کے متعلق وہ جانتا تک نہیں ہوتا،
پھر اس پر جرم ثابت کرنے کے لئے اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے تو یہ
سب وہ چیزیں ہیں جو ایک اچھے بھلے کام کرنے والے شخص کو مجرم بننے کی دعوت
دیتی ہیں۔ ورنہ وہ تو کام کر رہا ہوتا ہے اور رزق حلال کے حصول کے لئے نکلا
ہوتا ہے۔
محرومیوں کے اس سفر کا اختتام یقینا بہت بھیانک ہوتا ہے۔ ایک اچھا بھلا شخص
کسی نا کردہ گناہ کی پداش میں کرائم کی دلدل میں گھسیٹا جاتا ہے تو اس کا
واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے کرمنل بنانے کی ٹرینگ دی جارہی ہوتی ہے۔ آج
معاشرے میں کتنی ہی غلطی فہمی سے پیدا ہونے والی یا ذاتی، سیاسی یا مذہبی
دشمنی کی بنیاد پر ایک ایسے شخص کو سیکورٹی اداروں کے حوالے کردیا جاتا ہے
کہ جن کے نام سے ہی روحیں کانپ اٹھتی ہیں ، مگر اس کے بعد وہ شریف النفس
انسان یا تو انتقام میں کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جس کے بعد وہ قانونی
مجرم بن جاتا ہے یا پھر وہ اس راستے کو ہی اپنا شعار سمجھتے ہوئے اس پر
ہمیشہ کے لئے چل نکلتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جرائم پیشہ
گروپس کا آلہ کار بن جائے۔
اسی طرح کسی بھی مذہبی جماعت کے عتاب کا نشانہ بننے والا سرگرم کارکن جب
کسی ایسی پریشانی سے دو چار ہوتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ وہ کسی عسکری تنظیم
کے ہتھے چڑھ جائے۔ جسے عام زبان میں بم دھماکوں اور غلط معنوں میں استعمال
کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت وطن عزیز کو دہشت گردی کے جن خطرات کا سامنا ہے اس
کے پیچھے ہمارے سابقہ اور کچھ موجودہ حکمرانوں کی چندغلطیاں ہیں۔ انہیں
غلطیوں کی وجہ سے آج ہم آگ و خون میں لت پت ہیں۔ انہیں دہشت گرد تنظیموں کی
پشت پناہی کے الزامات کچھ بیرونی اسلام دشمن ممالک پر بھی لگائے جاتے رہے
ہیں۔ جو کہ ایسی تنظیموں کی باقاعدہ فنڈنگ کرتے ہیں جو کہ وطن عزیز میں
خانہ جنگی اور انادگی پھیلانا چاہتے ہیں۔
ایسی تنظیموں کا سب سے بڑا حدف یا تو سیکورٹی ادارے ہوتے ہیں یا پھر مذہبی
تنظیمیں یا مذہبی ادارے اور ان کو ایسے شرپسند مقاصد کے طور استعمال کرنے
کے لئے وہ نوجوان مل جاتے ہیں جن کا تعلق کسی ایسے ادارے سے رہا ہوتا ہے
اور وہ ادارے یا تنظیم کی غلط پالیسی کی بنیاد پر اپنے ادارے یا تنظیم سے
متنفر ہوچکا ہوتا ہے۔ جو نہی ایسے جوشیلے نوجوان ان کے ہتھے چڑھتے ہیں تو
وہ فوری طور پر انہیں الٹے سیدھے اسلام سے مخالف غلط عقائد کے بیانات سنا
کر اور کچھ ویڈیوز دیکھا کر اپنے مذموم مقاصد کے لئے تیار کرلیتے ہیں۔ اس
کے لئے وہ انہیں بھاری معاوضے اور ہر طرح کی سہولیات دیتے ہیں تاکہ یہ دل و
جان سے ان کے کام کرنے پر راضی ہوجائے۔
آج ہمیں سوچنا ہوگا، غور کرنا ہوگا کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ کہیں ہم اپنے وطن
کے لئے خود اپنے ہاتھوں سے کرمنل تو تیار نہیں کررہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ
ایک اچھے بھلے کام کرتے شخص پر الزام لگا کر اس پر بے جا تشدد کر کے اپنا
مخالف تو نہیں بنا رہے، یا اپنے مخالفین کا آلہ کار بننے کے لئے تو نہیں
اکسا رہے۔ اگر ایسا ہے تو خدارا کچھ خیال کریں۔ اسلام نے ایک مسلمان کی عزت
کو مکہ کی حرمت سے بھی زیادہ بلند کہا ہے۔ اس کی عزت اور مال کو خراب کرنے
والوں کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں سخت پکڑ ہے۔ اس لئے کسی کو مجرم قرار دینے سے
پہلے ہزار ہا بار سوچا جائے اور ہر طرح کی تحقیق کے بعد کوئی فیصلہ کیا
جائے ورنہ ممکن ہوتو ایسے معاملے کو اﷲ پر چھوڑ دیا جائے اﷲ ہمیشہ بہتر
فیصلہ کرنے والی ذات ہے وہ جو فیصلہ کرے گا وہ ہی اچھا قابل قبول فیصلہ
ہوگا۔ اﷲ ہمیں دوسروں کی عزت کا محافظ بنائے ، آمین |