انسانی زندگی میں بچپن بڑی اہمیت
کا حامل ہے، عمر بھر کی خوشیاں ،غم مشکلات و مصیبتیں اور حادثات نظر انداز
کئے جا سکتے ہیں لیکن بچپن ہر پل زہن میں تازہ رہتا ہے چاہ کر بھی بھلایا
نہیں سکتا ۔بچپن کے دوست ،شرارتیں ،ڈانٹ ڈپٹ و پیار ہر زمانے میں ساتھ رہتا
ہے ،کئی ایک واقعات توایسے کہ یاد آئیں تو دل کی دھڑکنا بھول جاتا ہے اور
بعض ایسے کہ یاد آئیں تو دنیا بھر کی پریشانیاں بھلا کر،دل کوانجانا سا
سکون و راحت تفویض کرتی ہیں جسے دنیا کی کسی بھی آسائیش کا بدل کہہ سکتے
ہیں اور یوں انسانی زندگی میں بچپن ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور بلکل اسی
طرح بچپن میں ہی زمانہ طالب علمی میں’’ PLAY DAY‘‘کھیل کا دن کہتے ہیں کی
بھی بہت اہمیت تھی۔۔۔آج جب کہ وقت بہت بدل چکا ہے ،اسکولز و کالجز میں بچوں
کی تفریح و تربیت کے لئے ہزارہا اقسام کے پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں جب
کہ ہمارے دور کا ایک ہی پروگرام ہوا کرتا تھا جسے ہم ’’پلے ڈے‘‘ کہا کرتے
تھے ۔اس کا مقصد تو فٹبال ہاقی اور دیگر کھیل ہوا کرتا تھا لیکن اکثر اس
روز کوآزادی سے گھومنے پھرنے پر ہی اتفاق کیا کرتے تھے جب کئی سال تک تو
یار لوگوں کو پتہ ہی نہ چلاکہ ’’پلے ڈے‘‘کس بلا کا نام ہے اور نہ ہی یہ
جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔۔۔ اس کے علاوہ سکول کے زمانے میں ہی سالانہ بین
الااضلاعی کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے جن میں تمام اضلاع کی ٹیمیں حصہ
لیتیں ۔اس ٹورنا منٹ میں فٹبال،ہاقی،والی بال،لانگ جمپ ،ہائی جمپ ،ہرڈل ریس
،کشتی ،باکسنگ ،چار و پانچ سو میٹر کی دوڑ اورریلے ریس جیسے مقابلے ہوتے ۔پورا
سال بے یارومددگار سکول گراؤنڈ کو بھی صاف ستھرا کر کے اس دوران مرمت کر کے
چونے کی لکیروں سے سجایا جاتا ۔جو کہ بیحد خوبصورت لگتا تھا،میں تو فٹبال
کھیلتا اور پسند کرتا تھا جب کے اس دوران گراونڈ کی خوبصورتی کو دیکھنے
زیادہ وقت یہیں رہتا ۔خاص کر رنگ برنگی یونیفارم میں ملبوس کھلاڑی اور
ٹیموں کے لہراتے جھنڈے اس منظر کو بہت ہی کلاسیکل بنا دیتے کہ وہ منظر
آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتا ۔یوں تو کھیل بس ایک کھیل ہی ہوتا ہے لیکن
جب شعور کی دہلیز پہ قدم رکھا تو جانا کے ان تمام کھیلوں کے انسانی زندگی
کے ساتھ بڑی مماثلت و ربط ہے ،جیسے ہاکی فٹبال و والی بال انسانوں کے باہمی
ربط و تال میل کے ساتھ ساتھ اپنی اجتماعی طاقت کو پھرتی اور سلیقے سے
استعمال کر نے کی مثال ہے۔لانگ جمپ ایک تنہا شخص جو اپنی محنت سے اپنی
زندگی کو کامیابی دلاتا ہے کو ظائر کرتا ہے ،ہائی جمپ جو دوسرے احباب کی
مدد سے کامیابی حاصل کرتے ہیں،کشتی،مشکل ترین ہدف کو پورا کر کے واپس لوٹنا
۔ہرڈل ریس مشکل ترین حالات میں جدوجہد کو کاری رکھنا اور ریلے ریس نسل در
نسل جہد مسلسل کی علامت ہے ۔
مہنگائی و بے روزگاری پوری دنیا کا مسئلہ ہے لیکن ایشائی ممالک میں یہ
آوفغاں زیادہ دیکھنے سننے میں آتی ہے جس کی خاص وجہ رول آف لاء و عدل و
انصاف کا فقدان ہے جس کے باعث ان ممالک میں چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا اور
ہر کسی کا اپنی مرضی ،آزادانہ لوٹ مار و دھوکہ دہی عام بات ہے تو ایسے
حالات میں مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ،جب کہ دوسرے ممالک میں ہر
کام قانوں کے دائرے کے اندر قوائد و ضوابط سے ہوتا ہے تو پھر عوام کو اتنے
مسائل کا سامنا نہیں رہتا ۔۔۔کچھ ممالک جن میں ریاست جموں کشمیر بھی ایک ہے
کے اندر اﷲ رب العزت نے بے پنا ہ وسائل رکھے ہیں ،جو یہاں کی آبادی کے
تناسب سے اتنے زیادہ ہیں کہ اگر انہیں بدستور استعمال میں لایا جا سکے تو
یہ ملک چند عشروں میں اپنے سے کئی گناہ بڑے ممالک کو قرض دینے کے قابل ہو
سکتا ہے لیکن اس دیس کے باسی سات عشروں سے دیار غیر میں در بدر ہیں جن کا
کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔دیس کی اسی فیصد لوگ غیر ممالک کے دہشت و صحرہ میں
اپنی زندگیاں تمام کر رہے ہیں ،جن کے والدین بے اولادوں کے جیسے اور بچے
یتیموں کی طرح جیتے ہیں ،یہ بد نصیب برسوں اپنے گاؤں کودیکھنے کو ترستے ہیں
اور ان کے بچے ان کی شکلیں ہی بھول جاتے ہیں جب کہ پردیسوں میں ان پر کیا
گزرتی ہے یہ ایک طویل داستان ہے ،پہلے یہ لوگ انسانی سمگلروں کی شکل میں
دندناتے ایجنٹوں کے ہاتھوں اپنا سب کچھ لٹا تے ہیں حتی ٰ کے ان کے ظالم پیٹ
بھرنے کے لئے اپنی زمینیں تک فروخت کر دیتے ہیں اور پھر لٹے پٹے جب یہاں
پہنچتے ہیں تو انہیں یہاں کے سرمایہ داروں کے چمچوں کا سامنا ہوتا ہے جو
اپنے آقا کی خوشامد کیلئے انہیں تختہ مشق بناتے ہیں ،انہیں رہایش کھانا اور
تنخواہ یا کوئی بھی سہولت کبھی بھی ملکی قانون کے مطابق نہیں بلکہ کئی کئی
ماہ تک نہیں ملتی اور ان کے خون آشوب مسائل انہیں یہ سب سہنے پرمجبور کرتے
ہیں۔۔۔ یہاں آنیوالا ہر شخص پہلے پہل پانچ سے دس برس بہتر روزگار یا اچھی
کمپنی کی تلاش میں گزار لیتا ہے اور پھر اسے پانچ سے دس سال یہاں پہنچنے
اور حصول روزگار تک چڑھ جانیوالے واجب الاداہ قرض اتارنے میں لگ جاتے ہیں
تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے گھر پر کچھ توجہ دے سکے جب کہ اپنے گھر کے
رنگ روغن اور اپنوں کے چھوٹے چھوٹے خواب پورے کرتے کرتے وہ مزید دس سے
پندرہ سال گزار دیتا ہے اور یوں اپنی انمول زندگی و جوانی کے خوبصورت پل و
اہم حصہ یوں پردیس کی نظر کر دیتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ عمر تو
ڈھل گئی ۔۔۔سورج غروب ہونے کو ہے ۔۔۔تب وہ افسردہ ۔۔۔دل سے اک ہووک اٹھتی
ہے ۔۔۔اف خدایا ۔۔۔ جب چھوٹے تھے تو بڑے ہونیکی بہت چاہت تھی ،پر اب پتہ
چلا ۔۔۔کہ ادھورے احساس اور ٹوٹے سپنوں سے ادھورے ہوم ورک اور ٹوٹے کھلونے
اچھے تھے۔۔۔اور تب اچانک سوچنے لگتا ہے کہ اپنے یہاں سے جانے سے پہلے کسی
طرح وہ اپنے بیٹے کو جسے نا ں گھٹنوں کے بل چلتے دیکھا ناں بڑا ہوتے دیکھا
ناں اس کی تھوتھلی زبان سے تھوتھلی باتیں سنیں اور ناں اسے کندھے پہ اٹھایا
۔۔۔اپنے اس لخت جگر کو کسی طرح یہاں بلا لوں اور یوں ایک نئی سمت میں نئی
کوشش کا آغاز کرتا ہے ۔۔۔یہ کوشش دن رات جاری رہتی ہے ۔۔۔کئی اپنے کسی بیٹے
کو یہاں پہنچا پاتے ہیں اور کئی ایسا کرنے سے پہلے ہی ۔۔۔خود ایک ’’صندوق‘‘
میں بند ہو کر کوچ کر جاتے ہیں۔ اور تب اس کے بیٹے کا سفر وہیں سے شروع
ہوتا ہے جہاں باپ نے چھوڑا تھا ،اور یوں ایک شخص اپنی ساری زندگی قربان کر
کہ بھی اپنے بیٹے کو اس سزا سے نہیں بچا سکتا جو اس نے جھیلی ہے اور اس طرح
ہمارے دیس باسیوں کا ’’ریلے ریس‘‘ ستر برس سے جاری ہے اور ریلے ریس کی سٹک
باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے ۔۔۔ ریس مسلسل
جاری ہے فرق صرف اتنا ہے کہ سکول کے اس زمانے میں ہونے والی’’ ریلے ریس‘‘
کاآٹھ سو یا ایک ہزار میٹر۔۔۔ کوئی نہ کوئی حد مقرر ہوا کرتی تھی لیکن
ہماری قوم کی یہ ’’ریلے ریس‘‘ ایسی ہے کہ اس کی کوئی حد کوئی انتہا نہیں بس
نسل در نسل دوڑ جاری ہے آج ہماری تو کل ہمارے بچوں کی باری ہے ۔اور ہمارے
پاس دیار غیر میں اپنی پوری پوری جوانیاں گنوانے کا وقت تو ہے لیکن چند پل
ایسے میسر نہیں کہ ہم غور کر سکیں کہ یہ دوڑ کب تک جاری رہے گی ۔۔۔؟ کیوں
کر جاری رہے گی۔۔۔؟ رب نے تو ہمیں ہماری ضرورت سے زیادہ دیا پھر ہم دربدر
کیوں ہیں ۔۔۔؟ کیوں اپنا سب کچھ چند لوگوں کے سپرد کر کے دہشت و صحرہ میں
رسوا ہو رہے ہیں ۔۔؟ ضرور میرے دیس کے جوان سے کوئی بھول ہوئی ہے ورنہ یہ
مسائل ہماری مقدر کا لیکھ نہیں ہیں اگر ہوتے تو اﷲ تعالی ہمارے دیس کو اتنا
خوبصور ت و دولتمند نہ بناتا ۔۔۔ |