اج قلم بیواؤں کے عالمی دن کے لیے وقف کرتے ہیں

لاھور میں ایک دوست کی وفات سے انکا ایک بچہ اور بیوی رھ گئی جو پہلے بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھی اب دوسرے دوست نے بتایا اس خاتون کی حالت بہت بری ہے، بے چاری زندگی کے دن پوری کررہی ہے۔ ہمارے مرحوم دوست نے اسے جس ناز ونخرے سے رکھا تھا، اب اس کے حالات سنا تو صدمہ ہوا۔

مجھے اسی وقت پشتون معاشرہ یاد آیا،ھمارے معاشرے میں تشدد اور جنگی حالات کی وجہ سے لاکھو ں عورتیں بیوہ ہوگئی اور اس وقت دنیا میں بیوؤں کی سب سے بڑی تعداد پشتون قوم میں موجود ہے اور وہ کلچر اور روایات کی وجہ سے خوشحال زندگی سے دور اور زندگی کے تلخ راتیں گزار راہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بیواؤں کے معاملے میں بہت سی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بیواؤں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ جوانی میں عورتوں سے ایسا واقعہ پیش ہوجائے تو معاشرے کی خاص توجہ کی مستحق ہے۔

صورت حال کے گہرے جائزے اور تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ بیوہ کے بیشتر مسائل کا حل نکاح میں ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس حل میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بیوائیں ہیں۔ جوانی میں شوہر کا انتقال بلاشبہ عورت کو اندر سے توڑکر رکھ دیتا ہے۔ وہ مدتوں اس صدمے سے نکل نہیں پاتی۔ ہمارے معاشرے میں جہاں بیوی اپنے آپ کو شوہر کی ذات میں فنا کردیتی ہے، وہ ایام بیوگی بھی اسی محبت کے سہارے گزارنا چاہتی ہے۔ زندگی کی بعض حقیقتیں بہت تلخ ہیں، زندگی کو محض محبت کی بنیاد پر گزارا نہیں جاسکتا۔ عورت کو قدم قدم پر مرد کی ضرورت پڑتی ہے، ایسی بیوائیں جن کے بچے ہوں وہ بھی محض بچوں کے بڑے ہونے کی امید پر تنہا زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں، یہ بھی محض جذباتی سوچ ہے۔ بچوں کے تحفظ اور اچھی پرورش کے لیے نکاح زحمت نہیں رحمت ہے۔ بیواؤں کو پہلے شوہر کی محبت اور بچوں کے نام پر دوسرے نکاح سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جو گزرچکا وہ ایک خواب تھا، جو مسائل سامنے منہ کھولے بیٹھے ہیں، ان سے نمٹنے کی فکر کرنا ہی عقل مندی ہے۔ جذبات اپنی جگہ مگر حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

بیواؤں کے نکاح میں ایک بڑی رکاوٹ ان کے گھر والے بھی ہوتے ہیں۔ وہ بے چاری شرم وحیا کی وجہ سے نکاح کی خواہش کا اظہار نہیں کرپاتیں اور دوسری طرف گھر والے بھی آنکھیں موڑ لیتے ہیں۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے، کسی گھر میں جوان بیوہ ہو اور گھر والے سکون کی نیند سوتے ہوں۔ اگر بیوہ نکاح پر مائل نہ ہورہی ہو تب بھی سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے مناسب طریقے سے راضی کریں۔ اسی سلسلے میں ایک افسوس ناک بلکہ قابل مذمت معاشرتی رویے کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بیواؤں کو ’’عیبی‘‘ تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ اگر کسی کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس میں اس بے چاری کا کیا قصور ہے۔ بیواؤں کے لیے عموماً ایسے رشتے تلاش کیے جاتے ہیں جو معروف معنوں میں ’’عیبی‘‘ ہوں۔ بوڑھے، جسمانی طور پر معذور یا ایسے لوگ جن کی کسی وجہ سے شادی نہ ہورہی ہو، ان کو بیواؤں کے لیے فیورٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ سراسر جاہلانہ ہے۔ بیوہ بھی عورت ہے، اس کے لیے بھی ایسے رشتے تلاش کیے جانے چاہئیں جو اس کی دوسری ہم عمر خواتین کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بہت سی بیوائیں نکاح کی خواہش کے باوجود محض اس لیے نکاح نہیں کرتیں کہ ان کے لیے بے جوڑ رشتے ڈھونڈے جاتے ہیں، نوجوان لڑکی کسی بوڑھے ٹھیٹرے یا شرابی کی بجائے تنہا رہنے میں ہی بہتری سمجھتی ہے۔

Hizbullah
About the Author: Hizbullah Read More Articles by Hizbullah: 5 Articles with 4493 views student of journalism department in FCCU lahore... View More