’’عشقِ پاکستان‘‘ کنونشن

 تحریر: عمر سلیم

چوراہوں پر سجنے والے میلوں سے لے کر ’’شاہ ‘‘ کے دربار میں ہونے والی تقریبات تک کا حال میڈیا کی پلکوں پر رقص کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ان لاحاصل ’’شوز‘‘ کے شور میں کچھ بامقصد تقریبات کہیں کھو جاتی ہیں ۔ ۳ جون کو منعقد ہونے والی ایسی ہی ایک تقریب کا ذکر نہ کرنا میرے لئے صحافتی بے ایمانی سے کم نہ ہوگا۔شہیر سیالوی ناظم انجمن طلباء اسلام آباد سے میری یا د اِﷲ پچھلے دو سال سے ہے ۔ ۳ جون کو انجمن طلباء اسلام فیڈرل اُردو یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام ہونے والے عشق ِ پاکستان کنونشن کی دعوت وہ مجھے دے چکا تو ساتھ ہی کہنے لگا ۔ عمر بھائی کنونشن میں ہاسٹنگ کے فرائض آپ نے ادا کرنے ہیں ۔ میں نے حامی بھر لی توشہیر مجھے اہم مہمانوں کے نام بتانے لگا جن میں سید زید حامد زمان کا نام بھی شامل تھا۔شہیر جانتا تھا کہ چند باتوں پر میرا زید حامد صاحب کے نقطہ نظر سے اختلاف ہے ۔آخر میں وہ مجھے کہنے لگا ’’ عمر بھائی َ ایک ریکوسٹ ہے ، وہاں پاکستانی بن کے آنا ہے ۳ جون کو، صحافی بن کے نہیں ‘‘۔ اسکی اس بات نے مجھے کافی حد تک متاثر کیا ۔کنونشن سے ایک دن پہلے ملک عزیز الرحمان جو کہ ناظم انجمن طلباء اسلام فیڈرل اُردو یونیورسٹی ہیں کہ کہنے پر میں یونیورسٹی جا پہنچا ۔ فیڈرل اُردو یونیورسٹی اسلام آباد میں یہ میر ا پہلا وزٹ تھا۔انجمن کے دیگر ساتھیوں سے اچھی ملاقات رہی۔کنونشن کے روز آڈیٹوریم کو انجمن کے دوستوں نے انتہائی خوبصورتی سے سجا رکھا تھا۔مہمانوں میں سب سے پہلے محترمہ ایمان ملک جو کہ لیفٹیننٹ فیض سلطان شہید کی بہن اور انجمن طلباء اسلام کے وومن ونگ کی ناظمہ ہیں اپنے والد کے ہمراہ تشریف لا چکی تھیں۔ان کے بعد سیدہ قدسیہ مشہدی آئیں ۔ سیدہ قدسیہ کا تعلق youth forum for kashmir سے ہے۔اس کے علاوہ وہ ایک ماہنامہ میگزین voice of east کی ایڈیٹر بھی ہیں۔فلسطین کے ایمبسڈر ’’ولید ابو علی‘‘ کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ہوم منسٹر بلوچستان جناب سرفراز بگٹی ، بلوچ رہنما عطاء اﷲ بگٹی اور شہیر سیالوی کے آڈیٹوریم میں داخل ہوتے ہی فضا انجمن طلباء اسلام کے نعروں سے گونجے لگی۔سٹیج پہ سب سے پہلے فلسطین کے ایمبسڈر ’ولید ابو علی‘ کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ۔ انہیں بلانے سے پہلے میں نے فیضؔ صاحب کی نظم ’’شہدائے فلسطین ‘‘ کے یہ اشعار پڑھے۔
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہا تا ہے وہا ں ارضِ فلسطین کا عَلم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد

ایک پاکستانی شاعرکے قلم سے فلسطینوں کے لئے لکھے گئے یہ اشعار سننے کے بعد اُن کی آنکھوں میں پاکستان کی عقیدت کے لئے ایک عجیب سی چمک دیکھی۔اس کے بعد وہ سٹیج پر آئے اور خیالات کا اظہار کیا۔ اور آخر میں کہہ گئے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان اور فلسطین کے مسلمان ایک ساتھ مسجدِ اقصی میں نماز ادا کریں گے۔ایمان ملک جب سٹیج پر آئیں تو اپنے شہید بھائی کی یادوں سے کئی آنکھوں کو نم کر گئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایمان ملک نے گستاخی ِ اہلِ بیت ؑ اور آئی آیس آئی کے خلاف بولنے پر جیو نیوز پر پابندی کی قرارداد پیش کی جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔سٹیج چھوڑنے سے چند لمحے پہلے ایمان ملک نے اپنے شہید بھائی کی نصیحت بیان کی جو شہید نے شہادت سے پہلے اپنی بہنوں کو کی تھی ۔ ’’اب اپنے لئے دُعا کرنا چھوڑ دو ۔ سب سے پہلے پاکستان کے لئے دعا مانگا کرو نہ کہ اپنے لیے ۔ اگر یہ رہا تو سب کچھ مل جائے گا۔‘‘ ایمان ملک کا شکریہ کہ انہوں نے مجھے ’’ آخری دس دن : ایک پاکستانی فوجی کی زبانی ‘‘ عنایت کی ۔ یہ لیفٹیننٹ فیض سلطان شہید کی ذاتی ڈائری اور شہادت سے چند دن پہلے کی یاداشتیں درج ہیں اور اسے ایک کتابچے کی شکل دی گئی ہے ۔نوجوانوں کی نمائندگی کے لئے نیشنل یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان کے صدر اور اسد عمر کے ایڈوائزر توصیف عباسی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔وائس چیئر مین سُنی اتحاد کونسل سید جواد الحسن کاظمی کو جب اس عہدے سے سٹیج پر بلایا گیا تو کہنے لگے چاہے کوئی بھی بڑی سے بڑی جماعت ہو جب انجمن کی بات ہو تو میر ا تعارف ہمیشہ انجمن طلباء اسلام ہوتا ہے ۔ہوم منسٹر بلوچستان جناب سرفراز بگٹی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے حالات کا ذمہ دار بھارت ہے جو آئے دن ملک کے غدّاروں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے لیکن بلوچستان کی عوام کل بھی پاکستان سے پیار کرتی تھی اور آج بھی اپنی جان کا نذرانہ دینے کو تیار ہیں۔شہیر نے ڈائز سنبھالا تو کہنے لگا وزیر ِ اعظم پاکستان کو نریندر مودی کو دورہ ِ پاکستان کی دعوت پہ نظرِ ثانی کر نی چاہیے۔اُس کا کہنا تھا کہ اے ٹی آئی ایک امن پسند تحریک ہے لیکن وطن ِ عزیز کے خلاف کچھ نہیں برداشت کیا جائے گا۔اگر پاک فوج کو ضرورت پڑی تو اے ٹی آئی راولپنڈی اسلام آباد سے ایک لاکھ کارکنان دینے کو تیار ہے۔ اس نے یہ شکوہ بھی کیا کہ جن علماء و مشائخ نے پاکستان کے بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا آج ان کا نام ہمارے نصاب میں شامل نہیں کیا ۔ مہمانوں کے علاوہ APCOMS سے آئے ہوئے اویس فریدی اور ایزاد ہاشمی نے گٹار اور سُر سے عشقِ پاکستان کا خوب رنگ جمایا۔ مجھے اس پورے کنونشن میں انتظار زید حامد صاحب کا تھا جبکہ وہ تہران میں موجودگی کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔پاکستان سے عشق کا پہلا سبق جو ہمیں آنے والی نسلوں کو دینا ہے وہ یہ کہ کسی کے نظریے سے اختلاف بے شک ہو آخر کو ہمارے درمیان ایک ایسااہم رشتہ موجود ہے جو ہمیں محبت اور ایک دوسرے کی بات برداشت کرنا سکھا تا ہے اور وہ رشتہ ہے پاکستانیت کا۔
Shaheer Haider Malik
About the Author: Shaheer Haider Malik Read More Articles by Shaheer Haider Malik: 2 Articles with 1119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.