بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہ رمضان کے بارے میں اللہ عزوجل نے قرآن میں فرمایا ہے،مفہوم:
"تم میں جو شخص اس مہینے کو پاۓ اسے روزہ رکھنا چاہیے، ہاں جو بیمار ہو یا
مسافر اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے، اللہ تعالی کا ارادہ
تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو
اور اللہ تعالی کی دی ہوئ ہدایت کے مطابق اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا
شکر ادا کرو."
(حوالہ: سورۃ البقرہ آیت 185.)
ماہ رمضان کے روزے رکھنا اس پر فرض ہے جو: 1. مسلمان، 2. مکلف، 3. روزہ
رکھنے پر قادر ، 4. مقیم، 5. اور روزہ رکھنے میں کوئ مانع نہ ہو. مجمل
تفصیل: 1. یعنی کافر نہ ہو. 2. یعنی وہ عاقل اور بالغ ہو مجنون نہ ہو. 3.
وہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور وہ جو روزہ رکھنے سے عاجز ہو اس پر
روزہ کی قضا ہے. 4. مسافر پر روزہ واجب نہیں. 5. یہ حائضہ اور نفاس والی
عورت پر خاص ہے وہ بعد میں قضا کرے گی، واللہ اعلم
رمضان کےروزے کی نیت: رمضان المبارک کے روزے کی نیت اخلاص کے ساتھ فجر سے
قبل رات کو کرنی واجب ہے بغیر نیت کے دن کو روزہ کفایت نہیں کرے گا. سیدنا
ابن عمر رضی اللہ عنہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
"جس نے فجر سے قبل روزے کی نیت نہ کی تو اس کا روزہ نہیں ہے."
اسے امام احمد اور اصحاب سنن اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے مرفوعا صحیح
سند کے ساتھ روایت کیا ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ماہ رمضان میں طریقہ یہ تھا کہ آپ مختلف
قسم کی عبادات میں کثرت سے مشغول رہتے تھے. رات کو جبرائیل علیہ السلام سے
قرآن کا دور کرتے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام
سے ملتے تو آپ خیر اور بھلائ کرنے میں سخاوت میں آندھی سے بھی زیادہ بڑھ
جاتے.آپ رمضان میں زیادہ سے زیادہ سخاوت،صدقہ، خیرات،احسان،تلاوت
قرآن،نماز،ذکراذکار،اور اعتکاف کا اہتمام فرماتے.
(حوالہ: کتاب الجواب الصحیح من احکام صلاۃ الیل والتراویح)
روزہ افطار کی دعا:
"ذھب الظما وابتلت العروق وثبت الاجر،ان شاء اللہ"
اس دعا کا مفہوم:
"پیاس ختم ہوگئ،رگیں تر ہوگیں اور اجر ثابت ہو گیا،ان شاء اللہ"
(حوالہ:سنن ابی داؤد 2357 وسندہ حسن وصححہ الحاکم جلد 1 صفحہ 422،یہ روایت
حسن درجہ کی ہے اور امام حاکم نے اسکو صحیح کہا)
zahab athamu waba tallatil urooqu sabat al ajaru, in sha Allaah.
اسی طرح روزہ افطار کروانے والے کو بھی اتنا ثواب ملتا ہے جتنا روزہ دار
کو،اور روزہ دار کے ثواب میں کمی نہیں ہوتی
(حوالہ:سنن الترمذی 807 وقال:ھذا حدیث حسن صحیح،یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ
کے نزدیک یہ روایت ایک سند سے حسن اور دوسری سند سے صحیح درجہ کی ہے
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا،مفہوم:
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے
بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے
(حوالہ:بخاری ومسلم)
اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے شیطانوں کو جکڑنے کی وجہ سے گناہ کم ہوجاتے ہیں
مگر جس نفس کو گناہ کی عادت ہوتی ہے وہ پھر بھی گناہ ہی میں رہتا ہے جیسا
کہ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے مگر وہ کہ جس پر اللہ عز وجل رحم
کرے،واللہ اعلم
تراویح بھی رمضان کا وہ نفل عبادت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ
رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے اور اسکا احتمام کرنا چاہیے.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابیہ بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی
اللہ عنھما کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں.
(حوالہ:موطا امام مالک جلد 1 صفحہ 114 حدیث نمبر 249، و سندہ صحیح)
اسی طرح سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا عمر رضی
اللہ عنہ کے زمانے میں 11 رکعات پڑھتے تھے
(حوالہ: سنن سعید بن منصوربحوالہ الحاوی للفتاوی جلد 1 صفحہ 349 صحیح سند
کے ساتھ)
بعض احباب اس موضوع پر تکرار کرتے ہیں کہ تراویح 11 ہے یا 20 اور سارا
رمضان اس میں لگے رہتے ہیں.اس سلسلہ میں عرض ہے کہ تراویح ایک نفل عبادت ہے
اور نفل کی کوئ حد نہیں اگر نفل کو نفل کی نیت سے پڑھو جیسا کہ صحیح مسلم
749 اور صحیح بخاری 990 کی روایت کا ایک حصہ ہے "صلاۃ الیل مثنی مثنی..."
مفہوم:"رات کی ( نفل) نماز دو دو ہے." اس روایت میں نفل کی تعداد کو مکید
نہیں کیا گیا یعنی دو دو رکعتوں میں جتنا مرضی پڑھو 8 یا 10 یا 20 یا 36.
سلف الصالحین نے اسکو پسند کیا کہ لمبی قرآءت اور کم رکوع. اگر نفل کو سنت
کی نیت سے پڑھا جاۓ تو پھر 8 رکعت تراویح اور 3 وتر پڑھنا چاہیے،اسی طرح
صحیح مسلم کی ایک صحیح روایت میں سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا سے 11 رکعت اور
سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا ہی سے بخاری 1170 کی ایک صحیح روایت میں 13 رکعت
بھی ثابت ہے کیونکہ یہ ہی سنت سے ثابت ہے
جو لوگ اس موضوع کی مناسبت کو سمجھنے کی بجاۓ چند ایک روایت 20 کے حق میں
پیش کرتے ہیں ان میں ایک اہم روایت یہ ہے، مفہوم:
"سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان میں 23 رکعتیں (20 تراویح
اور 3 وتر) پڑھتے تھے"
(حوالہ:موطاء امام مالک، کتاب الصلاۃ فی رمضان، رقم الحدیث 248)
یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے. کیونکہ اس روایت کے راوی یزید بن رومان
نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا
(حوالہ:نصب الرایۃ للزیلعی 163/3)
لہذا یہ روایت منقطع ہوئ اسی طرح اس روایت کو علامہ نیموی حنفی رحمہ اللہ
نے بھی آثار سنن میں منقطع کہا.
جب کہ موطاء امام مالک میں اس روایت سے متصل روایت نمبر 249 میں صحیح سند
کے ساتھ 11 رکعت ثابت ہے. جو میں نے پہلے ہی اوپر ذکر کر دی ہے اور انور
شاہ کشمیری دیوبندی کے بقول متصل کو منقطع پر ترجیع حاصل ھوتی ھے
(حوالہ: العرف الشذی، 11)،واللہ اعلم
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،مفہوم:
(اللہ فرماتا ھے) بندھا اپنا کھانا، پینا اور اپنی شہوت میرے لۓ چھوڑتا ہے،
روزہ میرے لۓ ھے اور میں ہی اسکا بدلا دونگا
(حوالہ:صحیح بخاری،کتاب الصوم)
ایک روایت ہے،مفہوم:
"بلاشبہ رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے یا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر
ہے."
(حوالہ:صحیح بخاری، كتاب جزاء الصید، باب حَجِّ النِّسَاءِ
رقم الحدیث 1863)
اسی وجہ سے رمضان المبارک میں عمرہ کرنے والوں کی تعداد غالبا حجاج کرام کے
برابر ہوجاتی ہے،واللہ اعلم.اللہ تمام مسلمانوں کو صحیح عقیدہ پر اور حج
مبرور و عمرہ اور رمضان میں عمرہ کی سعادت سے بہراہ مند فرماۓ،آمین
روزے کی حالت میں مسواک کے بارے میں سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے
فرمایا،مفہوم:
روزے کی حالت میں مسواک کرنے میں کوئ حرج نہیں،چاہے مسواک خشک ہو یا تر
(حوالہ:مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 37 حدیث 9173،یہ روایت صحیح سند کے
ساتھ ہے)
امام زہری رحمہ اللہ (المتوفی 124ھ) نے فرمایا،مفہوم:
روزے کی حالت میں سرمہ ڈالنے میں کوئ حرج نہیں
(حوالہ:مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 47 حدیث 9275،یہ روایت صحیح سند کے
ساتھ ہے
اگر (روزے میں) وضو وغیرہ کرتے ہوۓ کلی کرتے ہوۓ حلق میں پانی چلا جاۓ تو
عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ (المتوفی 114 ہجری) تابعی کے نزدیک کوئ حرج
نہیں.
(حوالہ:مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 70 حدیث 9486، سندہ قوی، روایتہ ابن
جریج عن عطاء محمولۃ علی السماع)
اس روایت کی سند قوی ہے کیونکہ، مفہوم:
یہ روایت امام ابن جریج کی امام عطاء ابن ابی رباح سے سماع پر محمول ہے اور
انکا سماع (انکی ملاقات) ثابت ہے،واللہ اعلم
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوعا فرمایا،مفہوم:
"جس پر قییء غالب آ جاۓ (یعنی خود آۓ) اس پر قضاء نہیں، اورجو جان بوجھ کر
عمدا قییء کرے اسے قضاء کرنا ہوگی.
(حوالہ: "سنن ترمذی حدیث نمبر 720) محدث کبیر الشیخ البانی رحمہ اللہ نے
اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے. اس میں مقدار کا تعین نہیں یعنی قییء
کی مقدارجتنی بھی ہو مگر وہ خود بہ خود آۓ، واللہ اعلم.
جس شخص کو روزے کی حالت میں خود بخود قیء آجاۓ تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا
اور اگر کوئ جان بوجھ کر قیء کرے تو اسکا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یہ مسئلہ سیدنا
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح سند سے ثابت ہے
(حواله:مصنف ابن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 38 حدیث 9188،يه اثر صحیح سند کے
ساتھ)
اس بارے میں اوپر درج کی گئ مرفوع حدیث محدث حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ کے
نزدیک ہشام بن حسان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے
(حوالہ: انوار الصحیفہ فی الاحدیث الضعیفہ میں السنن الاربعۃ، کتاب الصیام
صفحہ 88 رقم 2380) واللہ اعلم
مگر یاد رہے کہ اگرچہ مرفوع روایت ضعیف ہے مگر پھر بھی یہ مسئلہ صحیح ہے
کیونکہ موقوفا صحابی کے صحیح سند کے قول سے ثابت ہے، واللہ اعلم
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ
هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ،
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا،مفہوم:
جسم میں اگر کوئ چیز (مرضی سے) داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کوئ
چیز(مثلا خون)باہر نکلے تو روزہ نہیں ٹوٹتا
(حوالہ: الاوسط لابن المنذر جلد 1 صفحہ 185 ث 81 وسندہ صحیح)
اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئ محدث شیخ زبیر علی زئ حفظہ اللہ کی راۓ میں
رمضان میں انجکشن اور ڈرپ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور شیخ ابن باز اور شیخ
محمد بن صالح عثیمین رحمہما اللہ کے بقول اگر انجکشن رگ میں بغیر غذا کے ہو
تو روزہ فاسد نہیں، اس حدیث کی رو سے شیخ زبیر حفظہ اللہ کی راۓ زیادہ بہتر
معلوم ہوتی ہے، واللہ اعلم
روزے میں اگر مکھی وغیرہ خود بخود منہ میں چلی جاۓ تو اس سے روزہ فاسد نہیں
ہوتا کیونکہ ایسی حالت میں انسان مجبور ہے اسکی ایک دلیل قرآن کریم کی آیت
بھی ہے (دیکھۓ سورۃ البقرہ سورۃ نمبر 2 آیت 173) روزے کی حالت میں ناک، کان
میں دوا ڈالنے کا ثبوت نہیں ہے، آکسیجن کا پمپ (جس میں دوائ ہو) کے استعمال
کا ثبوت بھی نہیں اس لۓ روزے کے دوران (دن میں) ان اعمال سے اجتناب کرنا
چاہیے، دائمی مریض جو روزے نہ رکھ سکھتا ہو،اسے روزے کا کفارہ دینا چاہیے،
بچوں کو روزے کی عادت ڈلوانا اچھا کام ہے، واللہ اعلم
)یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت اور درمیان مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے
آزادی ہے ۔۔۔ الحدیث ) ۔
اسے ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ ( 3 / 191 ) حدیث نمبر ( 1887 ) انہیں
الفاظ کے ساتھ روایت کرنے کے بعد یہ کہا کہ (ان صح الخبر ) کہ اگر یہ خبر
صحیح ہو ۔
توبعض کتب مراجع سے ان کا لفظ ساقط ہوگيا ہے مثلا منذری کی الترغیب
والترھیب ( 2 / 95 ) میں تو لوگوں نے یہ خیال کرلیاہے کہ ابن خزیمہ نے اسے
صحیح کہا ہے یعنی ان صح الخبر کی جگہ صح الخبر ہوگیا ہے حالانکہ ابن حزم
رحمہ اللہ تعالی نے بالجزم نہیں کہا کہ صحیح ہے ۔
اورالمحاملی نے امالیہ ( 293 ) میں اور بیھقی نے شعب الایمان ( 7 / 216
)اورفضائل الاوقاف ( ص 146 ) نمبر ( 37 ) اور ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب "
الثواب " میں اور الساعاتی نے فتح الربانی ( 9 / 233 ) میں ابن حبان کی طرف
منسوب کی ہے ، اور سیوطی نے اسے الدرالمنثور میں ذکرکیا اور یہ کہا ہے کہ
اسے عقیلی نے روایت کیا اور اسے ضعیف کہا ہے اور الاصبھانی نے الترغیب میں
نقل کیا ہے ، اور المنقی نے کنزالعمال ( 8 / 477 ) میں ان سب نے ایک ہی
طریق سعید بن المسیب عن سلمان فارسی سے بیان کیا ہے ۔
تویہ حدیث دوعلتوں کی بنا پر ضعیف ہے اوروہ علتیں یہ ہیں :
1 - اس کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ سعید بن مسیب کا سلمان فارسی رضی اللہ
تعالی عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔
2 - سند میں علی بن جدعان ہے جس کے بارہ میں ابن سعد کا کہنا ہے کہ فیہ ضعف
ولا یحتج بہ ، یعنی ضعیف ہے اسے حجت نہیں بنایا جاسکتا ۔
اور اسی طرح امام احمد ، ابن معین ، امام نسائ ، ابن خزیمہ اور جوزجانی
وغیرہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ دیکھیں سیراعلام النبلاء ( 5 / 207 )
۔
اس حدیث پرابوحاتم رازي نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورعینی نے " عمدۃ
القاری ( 9 / 20 ) " میں بھی یہی حکم لگایا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ
تعالی نے بھی " سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ( 2 / 262 ) حدیث نمبر (
871 ) میں ایسا ہی حکم لگایا ہے ۔
تواس طرح اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور اسی طرح اس کی سب کی سب متابعات بھی
ضعیف ہیں جس پرمحدثين نے منکر کا حکم لگایا ہے
افطارکے وقت عام طور پر پڑھےجانے والی دعا:
"اللھم لک صمت و علی رزقک افطرت" اسکی تحقیق:
اس روایت کی سند ہے:حدثنا مسدد حدثنا ھشیم عن حصین،عن معاذ بن
زہرۃ(تابعی):أنه بلغه أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا أفطر قال:
(حوالہ: دار السلام کی چھپی سنن ابو داود جلد 2 صفحہ 800 روایت نمبر 2358،
مشکوۃ المصابیح مع الإکمال فی أسماء الرجال،طبعه اسلامیه جلد 1، صفحہ 651
روایت نمبر 1994،بیہقی جلد 4 صفحہ 235)
سنن ابوداؤد میں یہ روایت مرسل سند سے ھے یعنی صحابی کے فورا بعد والا راوی
مجہول (نا معلوم) ہے،واللہ اعلم اور امام ابی داود نے مراسیل میں روایت نمب
نمبر 99 میں درج کیا
اورمعجم الکبیر و دارقطنی کی سند میں عبدالملک بن ھارون ضعیف ھے
(دیکھیں امام ہیثمی رحمہ اللہ کی مجمع الزوائد جلد 3 صفحہ 156)
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب،طبع دارالیسر میں
صفحہ 565 میں رقم 6731 میں اس روایت کے راوی معاذ بن زھرۃ کے بارے میں أرسل
کہا،واللہ اعلم
اسی طرح حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب انوار الصحیفہ فی
الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ میں صفحہ 87 اور روایت نمبر 2358 کے تحت
ضعیف میں درج کیا،الشیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسکو ضعیف کہا.
لھذا یہ دعا پڑھنا بہتر ھے،کیونکہ اس روایت کی سند حسن ہے
"ذھب الظما وابتلت العروق و ثبت الاجر ان شاء اللہ"
(حوالہ: صحیح ابو داود رقم: 2357،مشکاۃ المصابیح 1934،ارواء الغلیل:920
والنسائی فی عمل الیوم واللیلۃ حدیث 299)
اس روایت کو الشیخ البانی نے ارواء الغلیل رقم 920 میں حسن کہا،امام
دارقطنی نے جلد 2 صفحہ 182 پر حسن کہا،امام حاکم نے جلد 1 صفحہ 422 پر صحیح
کہا اور امام الذھبی نے موافقت کی)
یہ تحقیق امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ الشیخ البانی رحمہ اللہ شیخ زبیر
علی زئ رحمہ اللہکی کتب و تصانیف سے لی
سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، مفہوم:
"جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس
لیتے اور راتوں کو خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے
تھے.
(حوالہ: صحیح بخاری، کتاب لیلۃ القدر، حدیث نمبر: 2024)
ایک اور روایت میں ہے، سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ، مفہوم:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت میں) اتنی
محنت کرتے جتنی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے."
(مسلم کتاب الاعتکاف، حدیث 1175)
حدیث ہے، مفہوم:
جس نے شب قدر میں حالت ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اسکے پچھلے گناہ
معاف کر دیے جائیں گے
(حوالہ:صحیح بخاری، کتاب الایمان، حدیث 35)
شب قدرکو تاک راتوں میں تلاش کرنا چاہیے اسکی علامات یہ ہیں:
اس دن سورج جب طلوع ہوتا ہےتو شعاعیں نہیں ہوتیں(مسلم)
خشگوار رات ہے نہ زیادہ گرمی نہ زیادہ سردی،طلوع سورج کی سرخی مدہم ہوتی
ہیں(ابن خزیمہ - حسن)
چاند کا نکلنا تھال کے کنارہ کی مانند ہے - (مسلم)
شب قدر میں صدق دل سے کوئ بھی دعا مانگی جاسکتی ہے مگر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم سے یہ دعا ثابت ہے
"اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی" ،
allahuma innaka affuwun kareemun tuhhibbul af'wa fa'fu anni.
معنی: اے اللہ آپ معاف کرنے والے، کرم فرمانے والے ہیں، معافی کو پسند
فرمانے والے ھیں، لہذا مجھے معاف فرما دیں
(حوالہ:ترمذی،3513، اس روایت کی سند امام ترمذی کے نزدیک حسن صحیح ہے)
اس روایت کو اور اسکے شوائد کو محدث حافظ زبیر علی زئ حفظہ اللہ نے سفیان
الثوری اور حمید الطویل کے مدلس و معنعن ہونے کی وجہ سے اپنی کتاب انوار
الصحیفہ میں صفحہ 297 رقم 3513 میں ضعیف کہا
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں 46 اقوال درج کر کے کہا
کہ شب قدر ہر سال بدلتی ہے
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے، لیکن یہ فرضں یا واجب نہیں ہے،
اعتکاف کی سنیت کے لیے دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر 2026 اور صحیح مسلم
1172/5. اعتکاف ہر مسجد میں جاہز ہے اور جس حدیث میں ہے آیا ہے کہ، مفہوم:
"مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں ہے...الخ 3
اس کی سند امام سفیان بن عیینہ کی تدلیس (عن سے روایت ہو اور سماع ثابت نہ
ہو) کی وجہ سے ضعیف ہے اور بعض علماء کا اسے صحیح قرار دینا غلط ہے،واللہ
اعلم. نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے
حتی کہ اللہ تعالی نے آپ کو فوت کردیا،پھر آپ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی تھیں
(حوالہ: صحیح بخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف..رقم الحدیث 2026)
جو بھی اعتکاف کرنا چاہے، مرد ہو یا عورت، دونوں کا اعتکاف صرف مساجد میں
ہوسکتا ہے البقرۃ آیت 187.امام قرطبی رحمہ اللہ نے الجامع لاحکام القرآن
میں لکھا ہے کہ اجماع ہےکہ اعتکاف صرف مساجد میں ہو سکتا ہے، واللہ اعلم.
اللہ عز وجل نے فرمایا، مفہوم:
"اور تم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت
میں ہو."
(حوالہ:البقرۃ 187)
اس آیت کی رو سے مردوں کے بارے میں علماء اس پر متفق ہیں کہ مسجد کے علاوہ
ان کا اعتکاف نہیں، عورتوں کے بارے میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ان کا
اعتکاف بھی مسجد کے علاوہ صحیح نہیں دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی جلد
4 صفحہ 464 اور امام نووی کی المجموع النووی جلد 6 صفحہ 505، واللہ اعلم |