وقت وقت کی بات ہے، ایک زمانہ تھا جب ہم گھر سے دور
ہو کر اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور عزیزوں سے بات کرنے کے لئے ترستے رہتے
تھے لیکن آج میڈیا کے ماہرین نے نے ایسے ایسے طریقے ایجا د کر رکھے ہیں جس
کے ذریعے اپنے ، پرائے سب سے ہزاروں میل دور ہی سہی، بات کرنا،تبادلہ خیال
کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ذرائع ابلاغ کے ان ذرائع میں انٹر نیٹ کا
کردارسب سے نمایاں ہے اور اسی نیٹ کے ذریعے فیس بک کا استعمال اب اتنا
زیادہ ہو نے لگا ہے کہ اس وقت صرف پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد فیس بک
استعمال کرتے ہیں ، فیس بک دوستوں اور رشتہ داروں سے مِلنے کا ایک بہترین
ذریعہ ہے۔فیس بک کے ذریعے رابطہ کرنا، اپنے خیالات اور پیغامات دوسروں کے
ساتھ شیئر کرنا ، نئے نئے دوست بنا نا ، گھپ شپ لگانا کسی بھی جگہ ،کسی بھی
خطے میں موجود کسی بھی شخص سے اب انتہائی آسان ہو چکا ہے۔ فیس بک کو بزنس
اور ایڈ ور ٹا ئز منٹ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ فیس بک آج
کے دور میں سماجی اور کا روباری روابط کا عالمگیر ذریعہ بن چکا ہے ۔
ہم فیس بک کی افادیّت سے انکار نہیں کر سکتے اگر ایک طرف ہمیں دنیا کے ہر
خطہ کے لو گوں سے تبا دلہ خیال کا مو قعہ نصیب ہو تا ہے تو دوسری طرف ہمیں
فیس بک کے ذریعے مخلص اور اچھے دوست ( اگر چہ ایسا بہت کم ہو تا ہے ) بھی
مِل جا تے ہیں ۔ مجھے حال ہی فیس بک کے ذریعے ہی دیارِ غیر میں مقیم ایک
ایسا دردِ دل رکھنے والاپاکستانی دوست ، اقبال خان ، مِلا ہے جسے میں اپنے
لئے ایک نعمتِ خداوندی سمجھتا ہوں ۔ گویا مجھے فیس بک کے مثبت استعمال پر
کو ئی اعتراض نہیں مگر جو بات اس کالم کے ذریعے میں اپنے قارئین کو پہنچانا
چا ہتا ہوں ، وہ یہ ہے، کہ فیس بک کے کچھ نقصانات ہیں ،جس سے بچنا ضروری ہے
کیونکہ فیس بک کی عادت کچھ لوگوں کو ایسی لگ جاتی ہے کہ جب تک، کچھ دیر کے
لئے ہی سہی، فیس بک استعمال نہ کریں ،انہیں چین نہیں ملتا۔ فیس بک کا نشہ
انسان کی زندگی میں اس طرح داخل ہو تا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہو تا اور یہ
چپکے سے ذہن و دِل پر حاوی ہو جا تا ہے ۔ اور جب تک اس کا احساس ہوتا ہے تو
وقت بہت آگے نکل جا تا ہے ۔آ ئے دن یہ خبریں پڑ ھنے کو ملتی ہیں کہ دو
نوجوانوں کا فیس بک پر رابطہ ہوا، پہلے فیس بک پر دوستی ہو گئی ، بات چیت
ہو تی رہی ،آخر معاملہ پیار و محبت تک جا پہنچا اور انجام پھرناقابلِ بیان
نکلا۔
فیس بک پر کئی لوگ (خصوصا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ) فیک آئی ڈی بنا کر دھو
کہ دہی اور ناپسندیدہ حرکتوں کے مرتکب بھی ہوتے ہیں ۔میں ایک ذاتی مثال
دینا چا ہو نگا، میں عمو ما ایسے لو گوں کو فیس بک پر دوست نہیں بناتا ،جسے
میں جانتا نہیں ، مگر ایک دفعہ میرے ایک اخباری دوست نے مجھے کہا کہ آپ ایک
کالم نگا ر ہیں ،اس لئے جب کو ئی فیس بک پر آپ کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجتا ہے
تو اسے Acceptکیا کریں تاکہ آپ کی تحریر زیادہ لو گوں تک پہنچے، میں نے اس
دن ایسے بیس پچیس افراد کی طرف سے بھیجی گئی فرینڈ requestکو acceptکیا جسے
میں نہیں جانتا تھا اور اس میں چا ر پانچ خواتین بھی شامل تھیں۔چند دن بعد
ایک خاتون کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ میں آپ سے ملنا چا ہتی ہو۔آپ پلیز
مجھے اپنے دفتر کا ایدریس بتا دیں ،میں نے پوچھا، آپ مجھ سے کیوں ملنا چا
ہتی ہیں اور آپ کہاں سے ہیں ؟ تو اس نے کہا میں پشاور یو نیورسٹی ٹاون سے
ہوں اور ایک ضروری کام کے سلسلے میں ملنا چاہتی ہوں۔
ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ایسا وقت بھی بتا دیں جب آپ دفتر میں اکیلے ہوں ۔میں
نے پو چھا کہ اکیلے میں کیوں ملنا چاتی ہیں تو انہوں نے اس سوال کا جو جواب
مجھے دیا وہ میرے لئے نہ صرف یہ کہ حیران کن تھا بلکہ وہ آپ کو بتانے کے
قابل بھی نہیں، میں نے فیس بک پر فورا اسے unfriendکیا بلکہ تمام انجانے
دوستوں کو ہی unfriendکیا۔اس کہانی کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ فیس بک پر
ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس مفید ذریعہ ابلاغ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے
بھی استعمال کرتے ہیں لہذا فیس بک کا استعمال نہایت سوچ سمجھ کر کرنا
چاہئیے۔بے شک دنیا کی زیاد ہ تر ایجادات انسان کی آسانی اور فا یدے کے لئے
بنائی گئی ہیں مگر ہر ایک ایجاد کا کا ایک منفی پہلو بھی ضرور ہو تا ہے۔
لہذا فیس بک کا چسکا ضرور لیجئے مگر اس کے منفی پہلو سے بچ کر اسے استعمال
کیجئے۔ |