ضلع آوارا ن کے زلزلہ زدگان بحالی و امداد کے منتظر اور
’’ آواران گریجو ایٹ فورم ‘‘ کا مطالبہ
صاحبان اقتدار و اختیار کی ذمہ داری ہے کہ اپنے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں
ان کے بنیادی مسائل حل کریں ۔ اپنے شہریوں کو معیاری تعلیم ، صحت ، پانی،
رہائش، تحفظ، معلومات تک رسائی، آزادی اظہار اور قانون تک رسائی جیسی
سہولیات مہیا کرنا ان کی ڈیوٹی ہے ۔ ان فرائض سے آنکھیں چرانے والے حکمران
نہیں چوروں کے زمرے میں آتے ہیں ۔ یہ چور اقتدار میں آکر ملک کو نا قابل
تلافی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ یہی حال وطن عزیز پاکستان کا ہے ۔ پاکستان میں
معدنیات کی بھر مار ہے یہ ملک زراعت کا حامل ہے ۔ دریا ہیں ، نہری نظام ہے
۔ ایٹمی قوت کا بھی حامل ہے ۔ حتیٰ کہ بیشمار وسائل ہیں ۔ جن کی بدولت
پاکستان دولت مند ہے ۔ مگر ان مسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے ۔اور ان مسائل
کا استعمال غلط ہے ۔ہم نے تو آج تک یہ سوچا بھی نہیں کہ ہم اخلاقی سطح پر
تنزلی کا شکار کیوں ہیں ۔۔۔؟ اگر اس نہج پر ہماری سوچ چل نکلتی تو یقینا
کوئی حل کی صور ت نکل آتی سیاہ و سفید ہمارے سامنے آ جاتے ۔
قدرتی آفات مثلاً زلزلے اور سیلاب کے دوران ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے ہر
طرح کے فوری انتظامات و اقدامات کرنا سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ مگر
پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سیلاب
سے ہونے والے متاثرین کی تا حال بحالی نہیں ہوئی ۔ اگرچہ اس مد میں بیرونی
دنیا سے پاکستان کو بڑی مقدار میں عطیات ملے ۔ ابتک سیلاب زدگان بے گھر ہیں
۔ ان کی بحالی نہیں ہوئی ۔
ہر ایک جانتا ہے کہ معدنیات کے حوالے سے بلوچستان امیر ہے جبکہ دیگر تمام
میدانوں میں اس صوبے کو غریب اور پسماندہ رکھا گیا ہے ۔ یہی وہ حقائق ہیں
کہ جن کی بنا ٔ پر بلوچستان میں ا حساس محرومی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔
جب شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا جائیگا تو شہری قانون سے بغاوت پر
اتر آئیں گے ۔ ان صورتوں میں محروم طبقات کو دہشت گر د، شر پسند اور شدت
پسند کہنے میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔ 2013کو ضلع آواران میں شدید زلزلہ
آیا جس سے بیشما ر قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ عمارتیں کھنڈر بن گئیں ۔ مویشی
مر گئے ۔ شہر ویران ہوئے لیکن سرکار کی طرف سے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہ
ہوئے ۔ محض واویلا کیا گیا تھا ۔ کہ حکومت انتظامات کر رہی ہے ۔ اس وقت بھی
آواران کے حالات دیکھنے کے قابل ہیں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ۔ضلعی
انتظامیہ کی خاموشی واضح کر رہی ہے اہل آواران پاکستان کے شہری نہیں ۔ اس
لئے انہیں ہر سزادی جارہی ہے ۔ زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے سرکار ی سطح
پرانتظامات کا نہ ہونا افسوسناک امر ہے ۔ ان کو تاہیوں سے شکوک و شبہات جنم
لے رہے ہیں کہ کیاہم ایک ایٹمی طاقت کے شہری ہیں جہاں کے عوام سسک سسک کر
مر رہے ہیں ۔ اب جبکہ آواران میں متاثرین زلزلہ کی بحالی اور شہر کی تعمیر
کیلئے کام شروع کر دیا گیا ہے یا شروع ہونے والا ہے ۔ تو اس کیلئے آواران
ضلع سے باہر سے افرادی قوت کو ان مقاصد کیلئے کام پر لگایا جا رہا ہے ۔ اہل
آواران کو اس سلسلے میں محروم رکھا رجا رہا ہے ۔ مناسب تو یہ ہے کہ مقامی
افراد کو اگر ان مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو یقینا وہاں بیروزگاری ختم
ہو جائیگی ۔ اور مقامی وسائل مقامی افراد کی تعمیر و ترقی کیلئے کام آئیں
گے ۔ آواران کے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ’’آواران گریجویٹ فورم
‘‘متحرک ہے ۔ جس میں رجسٹرڈ نوجوان ضلع آواران میں مثبت اور تعمیری
سرگرمیوں کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے کے مشن کیلئے سر گرم عمل ہیں ۔ اس
ضمن میں ’’ آواران گریجویٹ فورم ‘‘ کی یہ بھی کوشش ہے کہ اگر آوران کی
افرادی قوت کو مقامی سطح پر ذرائع روزگار مل جائیں تو اس سے ضلع کے تعلیم
یافتہ نوجوان اپنے اور اپنے اہل و عیال کیلئے با عزت روزگار کما سکیں گے ۔
اور اپنے وطن کی ترقی کیلئے مناسب طریقے سے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا
سکیں گے ۔ اس تناظر میں ’’ آواران گریجویٹ فورم ‘‘ ایک مثبت سر گرمی ہے جو
اہا لیان بلوچستان و آواران کو مبارک ہو اگر آواران کی تعمیر و ترقی اور
بحالی ٔ زلزلہ زدگان کیلئے منصوبوں میں بیرونی شہروں کے افراد کی بجائے
مقامی اور ضلع آواران کے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد ( نوجوانوں ) کو
ملازمتیں دی جائیں تو ضلع آواران کی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے ۔ اور ضلع
ترقی یافتہ ضلعوں میں شمار ہوگا ۔ اسی طرح آوارا ن کے تعلیم یافتہ نوجوانوں
کو ’’NTS‘‘ ٹیسٹ کے ذریعے منتخب کر کے حق معیار کو مدنظر رکھنا عین انصاف
ہے ۔ اگر مقامی افراد کو ان منصوبوں میں بھرتی کیا گیا تو مقامی لوگوں کا
احساس محرومی ختم ہو جائیگا ۔ ان نیک مقاصد کی تکمیل کیلئے وزیر اعلیٰ
بلوچستان اور ڈپٹی کمشنر آواران عزیز احمد جمالی میری سفارشات اور رائے پر
عمل کر کے آواران کو ترقی یافتہ ضلع بنانے میں اہم کر دار ادا کریں گے ۔ |