دنیا میں ہر سال 26جون یوم انسداد منشیات کے طورپر منایا
جاتا ہے۔ اس دن شعور اور بیداری کے لیے سمیناروغیرہ منعقد کئے جاتے ہیں اور
اس حوالے سے اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی قانون نافذ کرنے
والے ادارے جن میں اینٹی نارکوٹکس فورس شامل ہیں، منشیات کی روک تھام میں
موثر کردار ادا کررہے ہیں۔ہم ہر روز منشیات کو پکڑنے، منشیات سازی کے اڈوں
پر چھاپوں، منشیات کی تلافی، نقل و حمل کو روکنے وغیرہ کے حوالے سے خبریں
سنتے ہیں جو ان اداروں کی اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ ان اقدامات
سے یقینا منشیات کے استعمال میں کمی آتی ہے۔ تاہم ان اقدامات کے ساتھ ساتھ
معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی اور اجتماعیت کو فروغ دے کر ہم اپنی نوجوان
نسل بلکہ پورے معاشرے کو نشہ اور ایسی دیگر برائیوں سے چھٹکارا دلا سکتے
ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نشہ ایک ایسی سماجی برائی بلکہ بیماری ہے جس
نے گھروں کے گھر اجاڑ دیئے۔ ویسے تو یہ بیماری ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے
تاہم پاکستان سمیت تیسری دنیا میں نوجوان نسل کو یہ دیمک تیزی سے چاٹ رہی
ہے۔ نشہ کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں معاشرتی ناہمواری، ناانصافی، مایوسی،
غربت، نفسیاتی وغیرہ تاہم اس کے رجحان میں کمی لانے کے اقدامات ناکافی ہیں۔
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ منشیات فروشی کے اڈے بند ہوجائیں اور ان
کی نقل وحرکت پر قابو پالیا جائے [یعنی تصویر کا ایک رخ] تو نشہ کرنے والوں
کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ان کی یہ سوچ ایک حد تک درست ہے تاہم
منشیات سے مکمل نجات کے لیے کثیر جہتی پالیسی اپنانا پڑتی ہے ۔ لوگوں کی
زیادہ تر تعداد اس زہر کی طرف زیادہ تر اس وقت مائل ہوتی ہے جب وہ ایک خاص
منفی کیفیت سے گزر رہے ہوں۔ اس صورتحال میں قریبی رشتہ دار خاص طور پر
والدین پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اور توجہ میں کوئی
کسر نہ چھوڑیں۔ کسی بھی مایوسی اور منفی صورتحال میں پیار اور توجہ اسے نشے
کی دلدل میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔
اسی طرح ایک نئی اور خطرناک تبدیلی جسے ’’اپنی اپنی فکر‘‘ کہہ سکتے ہیں
ہمارے معاشرے کی اجتماعی بنت کو شدید متاثر کررہی ہے۔ہم اجتماعی ، سماجی
اور معاشرتی بندھنوں اور رویوں سے آزاد ہوکرخودپر انفرادی خول چڑھا چکے
ہیں۔ ہمارے اردگرد لوگوں کے ساتھ کیا بیت رہی ہے، ہمیں اس کی کوئی فکر
نہیں۔ ہر کسی کا حال احوال پوچھنے نہیں جاتے، کسی کی خیر خبر لینے نہیں
جاتے۔ دہشت گردی نے ہمارے معاشرے کو جس طرح تباہ و برباد کیا ہے، اس سے بھی
ہمارے معاشرے میں ’بے اعتباری، بے یقینی‘ کا عنصر بڑھا ہے۔ کون پرامن شہری
ہے اور کون دہشت گرد․․․ہمیں اندازہ نہیں ہوتا جس کے پیش نظر ہم احتیاط
برتنے ہیں اور کسی بھی شخص کی مدد میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے لگے ہیں۔اس طرح
دہشت گردی نے ملکی معیشت اور سلامتی کوجس طرح براہ راست خطرات سے دوچار کیا
ہی ہے، اسی طرح اس نے ہمارے معاشرے میں بے اعتباری اور عدم اعتماد کے
خطرناک بیج بھی بوئے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گرد ایک ہی دھماکے میں
سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کی جان تو لے لیتے ہیں لیکن اس کے بعد ہمیں
اپنی اپنی پڑ جاتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ چلیں ہم اور ہمارے خاندان کے افراد
بچ گئے اور جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کی پروا کئے بغیر بے حسی اور
لاپروائی کے عالم میں اپنے گھر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ان لواحقین کی فکر
نہیں ہوتی کہ جن کے پیارے اس دنیا سے چلے گئے۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی
کہ کسی کا بیٹا یا بچی یتیم ہوگئی اور اب وہ کس طرح اس خود غرض دنیا میں
زندگی بسر کریں گے۔ یعنی ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔ ہر کوئی اگر خود
کو محفوظ سمجھے یا وہ محفوظ ہونے کا بندوبست کرلے تو اس کے نزدیک پوری دنیا
محفوظ ہے۔ اگر کوئی کھانا پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ پوری
دنیا نے کھانا کھا لیا۔ کسی کو فکر نہیں ہوتی کہ بہت سے غریب لوگ اور ان کے
معصوم بچے کئی دن سے فاقے کی حالت میں ہیں۔ بے حسی کا یہ عالم بھی نشے کی
طرح ہماری رگوں میں رچ بس گیا ہے۔ معاشرے کا یہی رویہ نوجوانوں میں مایوسی
پیدا کرکے انہیں نشہ اور منشیات کا عادی بنا رہا ہے۔ اس لت میں غریب
خاندانوں کے افراد ہی مبتلا نہیں ہوتے بلکہ بہت سے امیر زادے بھی اس کا
شکار ہوکر بے کار ہوچکے ہیں۔ انہیں یہ شکایت ہوتی ہے کہ ماں باپ نے انہیں
پیار نہیں دیا، توجہ نہیں دیا۔ انہیں دنیا کی ہر آسائش تو مل گئی تاہم ماں
اور باپ کی توجہ نہ مل سکی۔ بہرحال اجتماعی رویوں اور معاشرتی میل جول کو
فروغ دے کر ہم منشیات کے استعمال میں کمی لاسکتے ہیں۔ حکومت کو بھی ایسے
اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے شہری آپس میں مل بیٹھ کر تبادلہ خیالات
کرسکیں۔ کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہماری قومی ٹیمیں
بھی پاکستان میں یکجہتی کو فروغ دینے کا باعث ہیں۔ جب یہ کھیل رہی ہوتی ہیں
تو پوری قوم یک زبان ہوکر ان کی جیت کے لیے دعا گو ہوتی ہے۔ مگر افسوس دہشت
گردی نے ہمارے اس اجتماعی رنگ کو بھی زنگ آلود کردیا ہے۔ بات ذرا طویل
ہوگئی مگر اس کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اجتماعی رویوں کو فروغ
دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہمارے رویے تبدیل ہوگئے، ہم نے ایک دوسرے کا
خیال رکھنا شروع کردیا، ہم نے ق، گ، ل، م، ن میں تقسیم ہونے کی روش چھوڑ دی
تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ بات شروع ہوئی تھی انسداد منشیات کے
عالمی دن سے تو ہمیں چاہئیں کہ ہم اس حوالے سے سمینار اور تقریبات تک محدود
نہ ہوں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں بحیثیت شہری ہر اک کا فرض ہے کہ وہ اس
زہر کے تدارک کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ |