ماڈلنگ، یعنی لباس کی زیورات کی
‘میک اپ‘ کے سامان اور دیگر اسی قسم کی مصنوعات آرائش و زیبائش کی نمائشی
مشہوری ۔۔۔ جو کہ مصنوعات کی کم اور ان لڑکیوں یا خواتین کے حسن و جمال کی
نمائش بلکہ عورت کے حسن و ادا کی سودے بازی زیادہ دکھائی دیتی ہے کہ ان
مصنوعات کی مشہوری کے لئے خود کو بنا سجا کر ادائے دلبری کے ساتھ ‘کیٹ واک
کرتے ہوئے جو ‘ماڈلز‘ لوگوں کو مصنوعات سے زیادہ لباس کے نام پر بےنام سے
لباس اوڑھ پہن کر اپنے اعضاء کو نمایاں کرتی ہوئی جس انداز سے لوگوں کو
اپنی طرف سے ان مصنوعات کی جانب متوجہ کروانے کی کوشش کرتی ہیں دکھائی دیتی
ہیں اپنی اس کوشش میں شاذو نادر ہی کامیاب ہو پاتی ہیں کہ مصنوعات پر نظر
کیسے پڑے جب قدرتی حسن یعنی نسوانی حسن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھنے
والوں کو کھلے عام دعوت نظارہ فراہم کرتا ہے تو پھر ان مصنوعی مصنوعات پر
نظر کا ٹکنا چہ معنی دارد جب ایسے دلفریب نظاروں پر نظر ٹھہرتی اور گڑتی
چلی جائے تو مصنوعات کی نمائش کا کیا مقصد رہ جاتا ہے
اس قدر قیمتی یہ مصنوعات نہیں ہوتیں جس قدر قیمت ان مصنوعات کی نمائش کی آڑ
میں اپنے حسن کی نمائش کرنے والی ماڈلز وصول کر لیتی ہیں جبکہ وہ خواتین جو
اپنی سادگی اور شرم و حیا کی چادر میں لپٹی جلتی دھوپ کے سائے میں دن بھر
مشقت کرنے کے بعد بھی بہ مشکل اپنے بال بچوں کے لئے دو وقت کے کھانے کا
انتظام کر پاتی ہیں ان کا کیا قصور ہے۔۔۔؟ کہ انہیں اپنی محنت کی پوری قیمت
وصول کرنے کا بھی حق نہیں جبکہ دوسری طرف صورتحال بالکل ہی متضاد ہے معاشرے
کی یہی ناہمواریاں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں کہ حقدار کو اپنا حق نہ
ملے جبکہ جو حق دار نہیں محنت کر کے کمانے کی بجائے معاشرے میں بے حیائی و
فحاشی پھیلانے والے کام کرکے لاکھوں کی مالک بن بیٹھتی ہیں
ماڈلنگ ایک ایسا شعبہ جو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے وطن پاکستان میں
بھی برس ہا برس سے خوب فروغ پا رہا ہے بلکہ اس شعبے میں پاکستان دن دوگنی
رات چوگنی ترقی کر رہا کیوں ۔۔۔؟ جبکہ دیگر بہت سے شعبے ایسے ہیں کہ جن میں
ترقی کی رفتار میں اضافہ اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے اس کی مشہوری
کروانا بری بات نہیں لیکن ہر چیز اپنی حد میں رہے اور جائز طریقے سے کی
جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں
کہا جاتا ہے کہ ماڈلنگ کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستانی مصنوعات کی نمائش کا
مقصد یہ ہے کہ دنیا کو پاکستان کی ثقافت سے روشناس کروایا جائے جی ہاں اپنی
ثقافت اور اپنے رسم و رواج سے دنیا کو ضرور متعارف کروانا چاہیے لیکن کیا
واقعی ماڈلنگ کے ذریعے جو پاکستان کا جو تاثر عام کیا جا رہا ہے وہ پاکستان
ایک اسلامی مملکت ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تاکہ اس خطے کے
تمام مسلمان آزادی کے خالصتاً اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی تہذیب و
ثقافت اور رسوم و رواج کے مطابق خالصتاً قرآنی تعلیمات کی ہدایت و روشنی کے
مطابق پوری آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کر سکیں
لیکن آج ماڈلنگ کے ذریعے جس قسم کی تہذیب و ثقافت کو پاکستانی ثقافت کا نام
دیکر دنیا بھر میں متعارف کروایا جا رہا ہے کیا وہ عین مشرقی پاکستانی یا
اسلامی تہذیب و ثقافت کے عین مطابق ہے ۔۔۔؟ نہیں بلکہ ہماری قوم کے یہ
باشندے اقوام مغرب کی اور غیر مسلموں کی تہذیب و ثقافت کی اوڑھنی اوڑھ کر
اسے اپنی تہذیب کا نام دے کر خود کو ان اقوام کے زیر نگیں ہونے کا ثبوت پیش
کر رہی ہیں کہ ہم ذہنی طور پر آج بھی غلام ہیں آزاد نہیں ہوئے یہ اپنا
کاروبار چمکانے کے لئے ماڈلنگ کا یہ انداز کہیں سے بھی نہ مشرقی ہے نہ
پاکستانی ہے اور نہ ہی اسلامی طریقہ ہے
اگر نیک نیتی سے اسلام کے عین مطابق اپنے کاروبار کا آغاز کیا جائے تو
یقیناً اللہ تعالیٰ اس کاروبار میں برکت دیتا ہے ہاں اگر کاروبار کی آڑ میں
کچھ اور مقصود ہو تا پھر کیا کہا جا سکتا ہے پاکستان کی ایک انتہائی مصروف
اور مشہور ڈریس ڈیزائنر جن کے ملبوسات کی تکمیل نامکمل لباس تیار کے بغیر
مکمل نہیں ہوتی ان سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو موصوفہ نے یہ جواب
دیا تو کیا ہم اپنے بچوں کو بھوکا مار دیں۔۔۔ اس سے ان کی سوچ اور اپنے
پیدا کرنے والے پر ایمان کی حد ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ ہر ذی روح کا رازق ہے
جب کوئی بھی فرد اللہ کے حکم کے مطابق اپنے بال بچوں کی کفالت کی نیت سے
روزی کمانے نکلتا ہے تو اللہ کوئی نہ کوئی سبب ضرور پیدا کرتا ہے جائز اور
حلال کمائی میں اپنی رحمت کے طفیل برکت بھی دیتا ہے اب اگر زیادہ سے زیادہ
کا لالچ اور حرص ہی انسان کی بھوک ہو تو کیا کیا جائے موصوفہ کا کہنا ہے کہ
لوگ ہم سے جیسا لباس ڈیمانڈ کرتے ہیں پھر ہم اس کے مطابق ہی لباس تیار کرتے
ہیں ہم ایسا نہ کریں تو کوئی خریدار نہ ملے
انسان کو لباس تو پہننا ہی ہے کیوں نہ ایسا لباس تیار کیا جائے جو دیدہ زیب
بھی ہو اور مکمل بھی کہ لباس کا مقصد ہی ستر پوشی ہے نہ کہ خواتین کو عریاں
چیتھڑے مہیا کرنا جو عورت کہ جس کا حسن جس کی شان اور جس کا مقام ہی اس کی
سادگی حیا اور حجاب ہے اسے یوں دنیا کہ سامنے بے حجاب کرنے کا کیا مقصد اور
یہ کونسی ثقافت کا فروغ ہے
بناؤ سنگھار عورت کا حق سہی لیکن عورت کا بناؤ سنگھار صرف اپنے شوہر کے لئے
ہونا چاہئیے نہ کہ پوری دنیا میں نمائش کے لئے ۔۔۔ ہماری ثقافت کا تو یہ
رنگ نہیں جسے ماڈلنگ کی آڑ میں پاکستانی ثقافت کی حیثیت سے ہم پر مسلط کیا
جا رہا ہے
ذرا سوچیے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے کیوں ہوتا ہے ہمیں کس سمت جانا
چاہیے اور ہم کس سمت جا رہے ہیں کس طرح اپنی ہی قوم کو بہکا رہے ہیں اگر ہم
اسی رو میں بہتے رہے تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا ۔۔۔ ہم پر خدا مہربان کیونکر
ہوگا ہمارا بیڑہ کیسے پار ہوگا ہمارا پروردگار کیسے ہمارا مددگار ہوگا۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی اور خالصتاً اسلامی و قرآنی
تعلیمات کے مطابق اپنی اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
اللہ نگہبان |