سستے رمضان بازار ! موثر اقدام کی ضرورت ہے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
ماہ مقدس آ پہنچا۔ خوش نصیب اور
خوش قسمت مسلمان سحر و افطار کا اہتمام کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ نماز
تلاوت و تراویح بھی ادا کی جائیگی۔ ماہ مبارک میں ہر نیکی کو ستر سے ضرب دے
دی جاتی ہے یعنی ایک نیکی پر ستر گنا ثواب باری تعالی عطا فرماتے ہیں۔ اسی
طرح ایک نماز کا ستر نمازوں، نفل نماز کا فرض نماز کے برابر اجر و ثواب
ودیعت کیا جاتا ہے اور جو لوگ خشوع و خضوع کے ساتھ اس کا اہتمام کرتے ہیں
یقینا وہ بھی ستر گنا یا اس سے بھی زیادہ کا مستحق قرار پاتے ہونگے۔ واﷲ
علم باالصواب کہ کس کو کتنا،کیوں اور کیسے ثواب عطا فرماتا ہے۔ لیکن ایک
طبقہ اور بھی ہے جوکہ دو کے چار اور چار کے سولہ کرنے کے چکر میں سرگرداں
ہوتا ہے۔یعنی کے تاجر طبقہ ۔ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی یہ طبقہ متحرک ہو
جاتا ہے۔ اشیائے خوردونوش سبزی و پھل وغیرہ کی قیمتیں آسمان پر چڑھادیتا ہے
اور پاکستانی غریب عوام سحر وافطار کیلئے اشیائے ضروریہ بھی خرید نہیں
سکتی۔اب جبکہ گورنمنٹ نے سستا بازاروں کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ جو کہ پچھلے
سال بھی لگایا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سستا رمضان بازار ایک قابل
تحسین اور شاندار منصوبہ ہے جس کی بدولت روزہ داروں کو تمام اشیائے ضروریہ
ایک ہی مقام سے مل جاتی ہیں جونسبتاسستی بھی ہوتی ہیں تاہم سابقہ سال کی
طرح اس سال بھی سستا رمضان بازار کے ثمرات اور فوائد عوام الناس کو پہنچتے
دکھائی نہیں دیتے جہاں مہنگا ئی نے عوام کی قوت خرید سلب کرتی ہے وہاں بعد
بھی کچھ ایسے مسائل ہیں جن کو ذہن نشین کرنا اور کرانا بھی ضروری ہے اگر ان
مسائل پر حکومت قابو پا لیتی ہے اور نگرانی پر موجود 14 وزراء اور متعلقہ
عملہ ایمانداری اورتندہی سے اپنا فرائض انجا م دیتا ہے تو پھر امید کی
جاسکتی ہے کہ یہ بازار عام آدمی کو فائدہ بھی دیں گے اور رمضان کریم کی
خوشی بھی ماند نہیں پڑے گی رمضان بازاروں کے دوران اکثر یہ بات مشاہدے میں
آئی ہے کہ ان بازاروں میں ناقص اشیاء اور سامان فروخت کیا جاتا ہے اور نرخ
بھی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی بنا پرمن مرضی کے مقرر کیے جاتے ہیں بعض
دکانداروں نے اپنی کیٹاگری بنا رکھی ہوتی ہے ناقص اور غیر معیاری اشیاء کے
نرخ حکومت کے مہیا کردہ ہوتے ہیں جبکہ معیاری اور بہترکوالٹی کی اشیائے کے
نرخ تقریبا دو گنا ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر اوقات دکاندار اور گاہک کے
مابین تلخ کلامی اور جھگڑے تک کی نوبت آجاتی ہے -
یوٹیلٹی سٹور پر بھی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 5 سے10 فیصد تک کمی کا
اعلان کیاگیا ہے 23 جون سے ان پرعمل درآمد کا عندیہ بھی دیا گیا ہے ہوتا یہ
ہے کہ ان دنوں میں چونکہ کھپت اور استعمال زیادہ ہوتا ہے اور کچھ قیمتوں کی
کمی بھی ہوتا ہے تو یوٹیلٹی سٹور زپر اکثر عام استعمال کی اشیائے خوردونوش
مثلا چینی گھی آئل آٹا وغیرہ غائب ہوتی ہے یا انہیں دوسری اشیاء کے ساتھ
مشروط فروخت کیا جاتا ہے اب جوشخص چینی آٹا خریدنے کیلئے ترلے کر تا ہو وہ
شیمپو ،کولڈڈرنکس، دالیں وغیرہ کیسے خرید سکتا ہے لہذا اس پرکٹس کو ختم
ہونا چاہیے مذکورہ اشیاء کے غائب ہونے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر بڑے
دکاندار سٹور انچارج سے سازباز اور ملی بھگت کرکے آف ٹائم میں ان اشیاء کو
بلک(bulk) میں فروخت کر دیتے ہیں جس بنا پر یوٹیلٹی سٹورز پر یہ اشیاء
ناپید ہوجاتی ہیں اور دکاندار ان کو رٹین کے ریٹ میں بیچ کر کئی گنا منافع
سمیٹ لیتے ہیں۔لہذا یوٹیلٹی سٹور زپر چیک اینڈ بیلنس کا انتظام نافذ ہونا
چاہیے تمام افراد کو بلا تفریق و تمیز تمام اشیاء ملنی چاہیے اور گڑبڑ کرنے
والے سٹور انچارج کے خلاف ضابطہ کاروائی ہونی چاہیے جبکہ وہ دکاندار جوکہ
یوٹیلٹی سٹورز کی اشیاء کے پرائیویٹ طور پر فروخت کر رہے ہیں اور ان کو بھی
قانون کی گرفت میں آنا چاہیے مصنوئی قلت اور خود ساختہ مہنگائی کا سبب بننے
والے افراد سے آہنی ہاتھوں سے نمٹاجانا چاہیے اب یہ انتظامیہ اور سٹاف پر
منحصر ہے کہ وہ کب اور کیسے حرکت میں آتی ہے لیکن اب توکب کا سوال بھی چہ
معنی دارد۔ کیونکہ اس وقت بھی اگر انتظامیہ متحرک نہیں ہوتی تو پھر یہ
سلسلہ روزافزوں بڑھتا ہی چلا جائے گا انتظامیہ کو چاہیے کہ تمام دکانداروں
سٹالز،ریڑھی، پھٹے، ٹھیلے وغیرہ پر فروخت ہونے والی اشیاء کے نرخ نامے واضع
انداز میں آویزاں کیے جانے چاہیے شکایت سیل کو موثر انداز میں فعال ہونا
چاہیے س ٹال فری نمبر ز کے بینرز آویزاں کیے جانے چاہیں ،ذخیرہ انداذوں پر
چھاپے مارنے چاہیے اور ذخیرہ شدہ اشیاء قبضے میں لے کر روٹین ریٹس پر فروخت
کی جانی چاہئیں۔ بازاروں میں صفائی کے مناسب انتظام سیکورٹی کے موثر
انتظامات کے ساتھ ساتھ ٹریفک کو بھی کنٹرول کیا جانا ضروری ہے اور جن وزراء
کی ڈیوٹیز لگائی گئی ہے ان کی نگرانی بھی ہونی چاہیے کیونکہ سابقہ تلخ
تجربات کی روشنی میں یہ ڈیوٹیاں کاغذات کی حدتک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے
ضروری ہے کہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے اور ان تمام مسائل کا حل کیا
جائے تاکہ ایک عوام دوست اور غریب دوست اقدام کوپایہ تکمیل تک پہنچایا
جاسکے اور کم از کم رمضان المبارک توسکون سے گزارا جاسکے- |
|