پھیپھڑ ے کا قیمہ

لاہورکی فروٹ منڈی کے عقبی بازار میں ایک دکان پر میں ایزی لوڈکے لئے رکا تو عجب منظردیکھا دکاندار نے کلو کلو آٹا تول کرشاپروں کا ڈھیر لگا رکھا تھا میں نے ججھکتے ججھکتے پو چھ ہی لیا یہ آٹا خیرات کرناہے کیا؟ ۔۔اس نے حیرت سے میری جانب یوں دیکھا جیسے میرادماغ چل گیاہو۔۔بولا میں تو خود غریب ہوں مشکل سے گزاراہوتاہے میں نے کیا سخاوت کرنی ہے۔۔میں نے آٹے کے ڈھیرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسارکیا پھر یہ کیاہے؟

’’حالات کے مارے دن بھر مزدوری کرتے ہیں شام کوگھر جاتے اپنے بیوی بچوں کیلئے یہ آٹا لے جاتے ہیں یہ روزانہ کا معمول ہے شاشے چائے کی پتی، پاؤ آدھ پاؤ گھی۔اتنی ہی مقدارمیں چینی۔۔باؤ جی لوگوں کی حالت اتنی قابل ِ رحم ہے کہ کبھی کبھارجی چاہتاہے میں اپنی دکان کا سب کچھ ان میں بانٹ دوں مگر میں۔۔۔وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گیا اسی اثناء میں ایک لڑکا کلو آٹا اور کچھ سامان خریدنے آگیا چیزیں زیادہ پیسے کم۔۔کبھی یہ نہ دو کبھی وہ نہ دو۔۔ بے چارے سے جو بن پڑا خریدا ۔۔سوچ میں گم لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ گھر کی جانب جانے لگا میں بھی سوچ میں گم کہ زندگی ان سے کیوں اتنا بے رحم سلوک کررہی ہے؟

کمال ہے کمپنیوں نے بچوں کیلئے10روپے والا دودھ کا پیکٹ بھی نکال دیاہے۔۔اچھا کیا

’’ لگتاہے آپ بھولے بادشاہ ہیں ۔۔کریانہ فروش کے لہجے میں تلخی تھی۔۔لوگوں کی قوت ِ خرید دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے اسی لئے حکومت بڑے نوٹ اور کمپنیاں اپنی مصنوعات کے چھوٹے پیک متعارف کروارہی ہیں تاکہ کسی نہ کسی انداز سے کاروبار چلتارہے 10روپے والا دودھ کا پیکٹ Tea Whitenerہے۔۔۔وہ بولا تو بولتاہی چلا گیا میرے پاس روزانہ ایک بزرگ10والا دودھ خریدنے آتاہے اس کے چار فیملی ممبرآدھا آدھا کپ چائے پیتے ہیں اس سے زیادہ ان کے پاس ’’عیاشی‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔۔۔سننے والے کی بولتی بند ہوگئی۔

بوڑھی عورت کافی دیر سے بڑے گوشت کی دکان پر بیٹھی ہوئی تھی چہرے پر آڑھی ترچھی لکیریں اور اس کی تہہ میں چھپی کئی کہی ان کہی کہانیاں حالات کی سنگینی کااحساس دلارہی تھیں قصاب نے دو مرتبہ پوچھا بھی اماں جی کیا لیناہے۔۔پہلے گاہک فارغ کرلو مجھے کسی کاانتظارہے کچھ دیر بعدجب رش ختم ہوا بوڑھی عورت اٹھی اس نے لٹکتے ہوئے پھیپھڑے کی طرف اشارہ کرکے ریٹ پو چھااس کی آنکھوں میں آنسو تھے پھر کہا ایک کلو کا قیمہ بنادو
قصاب کی حیرت سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔پھیپھڑے کا قیمہ وہ بڑبڑایا

’’ہاں بھائی ۔۔بوڑھی عورت نے امڈتے آنسو بمشکل روکتے ہوئے جواب دیا کئی دنوں سے بچے قیمہ بھرے کریلے کھانے کی فرمائش کررہے ہیں -

اگر ہم احساس کی دہلیز پر کھڑے ہوکر بغور جائزہ لیں تو ایسی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔۔ایسے ایسے سفید پوش ہیں جن کے حالات کا ہمیں پتہ چلے تو کلیجہ منہ کو آنے لگے لیکن کریں کیا؟ ارباب ِ اختیارکو کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کتنے ہی اسحق ڈار روز واویلہ کررہے ہیں پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہاہے ۔ اپوزیشن بھی سیاست چمکانے کیلئے غریبوں کی بات کرتی ہے حکمران ہیں کہ بلند و بانگ دعوؤں کو ہی اپنی کارکردگی سمجھنے لگے ہیں۔حکومت نے زکوٰۃ دینے کے نام پر غربیوں کو بھکاری بنا کررکھ دیا ہے آج تک کسی حکومت نے بھی غربت ختم کرنے کیلئے حقیقی اقدامات نہیں کئے قرضہ سکیمیں بھی ان کے لئے ہیں جوباوسائل ہیں جن بے چاروں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہ گارنٹر کہاں سے لائیں یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا ۔۔ عام آدمی کے وسائل کم ہورہے ہیں،مہنگائی اوربیروزگاری بڑھنے سے لوگوں کا حشر نشرہوگیاہے۔۔۔کم وسائل جس اذیت۔جس کرب سے گذررہے ہیں وہ جانتے ہیں یا ان کا رب ہی جانتاہے۔۔۔اب کون سوچے بہتری کیسے ممکن ہے۔غربت کو بدنصیبی بننے سے کیسے روکا جائے اس کا یقینا حل بھی ہونا چاہیے پاکستان میں دردِدل رکھنے والے مخیر حضرات کی کوئی کمی نہیں سارا سال بالعموم اور ماہ ِ صیام میں بالخصوص آپ نے کئی گھروں، اداروں یا سماجی تنظیموں کے دفاتر کے آگے مفلوک الحال، غریب اور مستحقین کی لمبی لمبی قطاریں لگی دیکھی ہوں گی زکوٰۃ ،خیرات اور صدقات دینے کیلئے صاحب ِ ثروت اپنی استطاعت کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں اور انکے لواحقین کیلئے لنگر خانے اورغریبوں کیلئے دستر خوان کا رواج بھی فروغ پانے لگاہے۔۔۔ یہ سب اپنے رب کو راضی کرنے کا وسیلہ ہیں کہ اس کی مخلوق کی خدمت کی جائے لیکن یہ سب وقتی ہے اس کے دیرپا اثرات نہیں۔۔مخیر حضرات اور صاحب ِ ثروت سے اتنی گذارش ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہرسال کم ازکم ایک فرد کو روزگارکے وسائل مہیا کریں، کئی لوگ کام تو کررہے ہیں لیکن سرمائے کی کمی کے باعث ترقی نہیں کر پارہے ۔ زیادہ تر بیروز گار ہیں ملک میں با صلاحیت لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابرہیں لاکھ دو لاکھ سے کئی چھوٹے کاروبار شروع کئے جا سکتے ہیں میری خواہش اور التجاہے کہ اس کو لازمی اپنے پروگرام میں شامل کریں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عزت ِ نفس مجروح کئے بغیر یہ لوگ مستقل بنیادوں پر اپنے خاندان کی کفالت کے قابل ہو جائیں گے کسی کا کچن چلتا رہے یہ بہت بڑی نیکی ہے ۔جو طالبعلم ہونہارہیں لیکن کالجزکی فیس افورڈ نہ کرنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے وہ بھی آپ کی توجہ کے حقدار ہیں دنیا میں بہت سے کام بڑی بڑی حکومتیں نہیں کر پاتیں لیکن سماجی شخصیات ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں بس تھوڑی سی توجہ، کوشش اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے ملک سے غربت اور بیروزگاری ختم کرنے کے لئے ایسے ہی انقلابی اقدامات کی اشد ضرورت ہے صرف آغاز میں ہی مشکلات ہوتی ہیں پھر دئیے سے دیا جلتا جاتاہے ہم دل کی آنکھوں سے دیکھیں تو بیسیوں ایسے افرادنظر آئیں گے جو تھوڑی سی توجہ سے معاشرے میں با عزت مقام پا سکتے ہیں آئیے!آج صدق ِ دل سے ایک نئے مشن کا آغاز کریں ہر سال ایک فردکو روزگار اور ایک غریب طالبعلم کی فیس کااہتمام کرنے کا عزم کریں۔ یہ قوم کے درخشاں اور روشن مستقبل کی علامت ثابت ہوگا ۔۔پھر دیکھئے غربت کیسے ختم ہوتی ہے اور جہالت کے اندھیرے کب اور کہاں غائب ہو جائیں گے۔۔۔یہ سوچ ہے آپ کی۔۔۔ اس نیکی کے طفیل ہو سکتاہے کسی کو کلو کلو آٹایاپھیپھڑے کا قیمہ خریدنے سے نجات مل جائے۔۔۔شاید یہی عمل آپ کے لئے نجات کا سبب بن جائے۔
M. Sarwar Siddiqui
About the Author: M. Sarwar Siddiqui Read More Articles by M. Sarwar Siddiqui: 218 Articles with 176248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.