رمضان اور ہم

مبارک ہو، اﷲ نے ہمیں پھر ماہِ صیام دیکھنا نصیب فرمایا، شیطان اینڈ کو کے علاوہ سبھی اس کی آمد پر خوش ہیں، لوگ کئی روز پہلے سے اس مہمان کے استقبال کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں، خواتین گھروں کی صفائی ستھرائی میں جت جاتی ہیں، یوں تو ہر ماہ ہی گھر کا راشن لایا جاتا ہے، مگر اس ماہ کے لیے خصوصی فہرستیں تیار ہورہی ہوتی ہیں، ’’سالانہ نمازیوں‘‘ کی آمد کے پیش نظر مساجد میں بھی معمول سے ہٹ کر انتظامات کیے جاتے ہیں، ہر طرف چہل پہل ہوتی ہے اور اس چہل پہل سے آدمی ناگواری کی بجائے روحانی خوشی محسوس کرتا ہے۔ عام دنوں میں سوداسلف لاتے ہوئے عجیب سا بوجھل پن ہوتا ہے مگر نامعلوم رمضان کے سودا سلف میں ایسا کیا ہوجاتا ہے کہ ہر آدمی اسے اٹھائے خوشی خوشی آرہا ہوتا ہے۔

رمضان کی آمد پر خوش ہونے والوں کے دو بڑے طبقات ہیں، آج انہی پر کچھ لکھنا مقصود ہے۔ پہلا طبقہ تو وہ ہے جو رمضان کو اپنے رب کو راضی کرنے کا مہینہ سمجھتا ہے، اس طبقے میں شامل لوگوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، جب دیگر لوگ سحر وافطاری کے کھانوں کا شیڈول بنانے میں مگن ہوتے ہیں، اس وقت یہ لوگ ماہِ صیام میں عبادت کا شیڈول بنانے کی فکر میں ہوتے ہیں، روزانہ کتنے پارے تلاوت کرنے ہیں، کب سے کب تک تلاوت کرنی ہے، تسبیحات اور نوافل کی کیا ترتیب ہوگی؟ رات کو کس وقت اٹھ کر اپنے رب کے حضور کھڑا ہونا اور طویل رکوع اور لمبے سجود میں گڑگڑانا ہے؟ اشراق، چاشت اور اوابین کی پابندی کس طرح کی جاسکتی ہے؟ گناہوں سے بچنے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟

یہ خوش نصیب لوگ اس طرح کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں، بلاشبہ یہی لوگ رمضان کا حق ادا کرنے والے ہیں، یہ وہ لوگ نہیں ہوتے جو روزہ رکھ کر بھی ٹی وی کے سامنے سے نہ اٹھتے ہوں، جن کی نگاہیں، زبان اور کان اس ماہ میں بھی حلال وحرام کی تمیز نہ کرسکیں۔ یہ وہ لوگ نہیں، جو رمضان کی رحمت بھری راتیں مصلے کی بجائے نائٹ ٹورنامنٹ کھیل کر گزارتے ہوں، ان کا روزہ محض بھوکا ہونے کے لیے ہوتا ہے اور نہ ان کی راتیں محض خراٹے لینے یا کھیل کود میں گزر جاتی ہیں، یہ لوگ دن میں بھی تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کی راتیں بھی قیام اللیل کا اصل نظارہ پیش کرتی ہیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں یہ لوگ، رمضان تو ایسے ہی لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ یہی لوگ رمضان میں جھولیاں بھر بھر کر برکتیں اور رحمتیں سمیٹتے ہیں اور باقی لوگ؟ وہ تو محض رمضان کو گزارتے ہیں۔ آج رمضان کا پہلا دن ہے، ہمیں آج اور اسی وقت فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم رمضان کو صرف گزارنا چاہتے ہیں یا پھر اپنے رب کو منانا ہے؟ جلدی فیصلہ کرلیجیے۔

رمضان کی آمد پر خوشیاں منانے والا دوسرا طبقہ تاجروں کا ہے، یہ اس لیے خوش نہیں ہیں کہ عوام کو ریلیف دے کر نیکیاں سمیٹیں گے، یہ لوگ اس لیے خوش ہیں کہ ان کا لوٹ مار سیزن آگیا، لوگ بکرے ذبح کرنے کے لیے عید سے دو چار روز پہلے چھریاں تیز کراتے ہیں، مگر ہمارے عزت مآب تاجر صاحبان رمضان سے ہفتوں پہلے چھریاں تیز کرلیتے ہیں، رمضان کے آتے ہی ہر چیز کی قیمتیں آسمان پر پہنچادی جاتی ہیں، کسی چیز کو ہاتھ لگاکر دیکھ لیں، ایسا کرنٹ دے گی کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ پھل، سبزیاں، روزمرہ استعمال کی دیگر عام اشیاء راتوں رات ’’سونے‘‘ کی بن جاتی ہیں۔ اس آلو کو دیکھیں، یہی ہمارے لیے ’’آلو شریف‘‘ بنا ہوا ہے، چند روپے کلو بکنے والا آلو اب گوشت کا مقابلہ کرنے کو ہے۔

رمضان میں مہنگائی کے ذمہ دار تاجر بھی ہیں اور حکومت کو بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی، آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر ایسا کیا ہوجاتا ہے جو تاجر چیزیں مہنگی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں؟ حکومت کی طرف سے کوئی رمضان ٹیکس بھی نہیں لگایا جاتا، پھر تاجر عوام کا رمضان کیوں کر کرا کرتے ہیں؟ جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے اس مصنوعی مہنگائی کے پیچھے صرف مال کماؤ ذہن ہے، تاجر برادری رمضان کو ناجائز منافع خوری کا بہترین موقع سمجھتی ہے اور پھر اس موقع سے پورا فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود اچھے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔

اکثر کالم نگار حضرات یہ بات لکھتے رہتے ہیں کہ مغرب کا سب سے بڑا مذہبی تہوار کرسمس ہے، اس موقع پر وہاں کے تاجر ناقابل یقین حد تک چیزوں کو سستا کردیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے چیزیں سستی نہ کیں تو بہت سے لوگ کرسمس نہیں مناپائیں گے۔ اسلام جو انسانیت کا درد رکھنے کا سب سے بڑا داعی ہے، اس کو ماننے والے تاجر اس سبق کو کیسے بھول گئے؟

ہر سال رمضان میں ہم حکومت کی طرف سے دو دعوے ضرو رسنتے ہیں، ناجائز منافع خوری برداشت نہیں کریں گے اور یہ کہ سحر وافطار میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔ خیر سے دونوں دعوے کبھی سچے ثابت نہیں ہوئے۔ حکومت نے قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنارکھی ہیں، رمضان میں اس طرح کی کمیٹیوں کی تعداد بڑھادی جاتی ہے، مگر اس کا نتیجہ صفر ہی نکلتا ہے۔ یہ کمیٹیاں اصل میں پرائس کنٹرول کے لیے نہیں، بلکہ بھتا کمیٹیاں ہوتی ہیں، ان کا کام تاجروں کی مختلف یونینوں سے بھتا جمع کرکے آگے پہنچانا ہوتا ہے، جس میں سے ان کو بھی اپنا حصہ مل جاتا ہے، رمضان تو ان کی کمائی کا سیزن ہے، بھلا یہ کوئی پاگل ہیں جو کمائی چھوڑکر قانون کی پابندی کرانے میں لگ جائیں۔ کمشنر کراچی نے مہنگائی پر کنٹرول کا نیا فارمولا متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے تبلیغی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مساجد سے نکل کر گلی محلوں میں نکلیں اور تاجروں کو قیمتیں نہ بڑھانے کی تلقین کریں، بات تو پتے کی ہے لیکن اگر یہ کام تبلیغی جماعتوں کو ہی کرنا ہے تو پھر آپ کی یہ کمیٹیاں کس مرض کی دوا ہیں؟

کمشنر صاحب کی یہ بات ٹھیک ہے کہ تاجروں کو خوف خدا دلانا چاہیے مگر یہ معاملہ صرف ترغیب کا نہیں رہا، ہر سال رمضان میں تاجروں کے بارے میں کیا کچھ نہیں لکھا جاتا، ناجائز منافع خوری کے موضوع پر مستقل کتابیں موجود ہیں، اس سب کے باوجود تاجر لوٹ مار سے باز نہیں آتے، اصل مسئلہ حکومتی رٹ کا ہے، بازاروں میں حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی، تاجر قیمتوں کے تعین اور معیار کے معاملے میں مکمل آزاد ہیں، وہ چاہیں باسی اور گلی سڑی چیزیں بیچیں یا قیمتوں میں کئی کئی گنا اضافہ کردیں، ان کی من مانی کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں دو نمبر چیزوں کی فروخت مستقل مسئلہ ہے، کوئی چیز مہنگے داموں خریدنے کے بعد بھی دل میں کھٹکا رہتا ہے کہ نہ جانے یہ ایک نمبر ہے یا دو نمبر۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ بچھیا کے نام پر گدھے تک کا گوشت ہماری مارکیٹوں میں بیچ دیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں میں مٹن کڑاہی کے نام پر ڈوگ کڑاہی کے قصے بھی اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔

جس ملک کا تاجر خوف خدا سے عاری ہو، حکومت اندھی، گونگی اور بہری ہو، عوام بے حس ہوں، وہاں کے بازاروں میں دو نمبری ہی کا راج ہوگا۔ ایسے معاشروں میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ذبح کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے اور پھر اس چوربازاری سے اس ملک وقوم کا جو حال ہوتا ہے وہ صبح وشام ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 101982 views i am a working journalist ,.. View More