ہم انسان کتنے لاپرواہ یا بےحس ہیں؟ اس کا اندازہ آپ اس
بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں مجموعی طور پر پیدا ہونے والی
خوراک کا ایک تہائی یا تینتیس فیصد حصہ ضائع ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ انسان
بنتے ہیں-
یہ انکشاف اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن نے اپنی ایک
رپورٹ میں کیا ہے۔
|
|
رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو کم
خوراکی اور فاقوں کا شکار ہیں جبکہ دوسری جانب دنیا بھر کے انسان ایک سال
میں 750 ارب ڈالرز مالیت کی خوراک ضائع کردیتے ہیں۔
اگر ذرا سی بھی سمجھ بوجھ کے ساتھ خوراک کا استعمال کریں تو دنیا میں کئی
افراد کم خوراکی اور فاقوں سے بچ سکتے ہیں-
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کاشتکاری سے جو پیداوار حاصل کی جاتی ہے اس کا
28 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے، جبکہ یہ ضائع شدہ خوراک زہریلی گرین ہاﺅس
گیسوں کی شکل میں ڈھل کر ماحولیاتی نقصانات میں اضافہ کردیتی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 39 فیصد گھرانے سب سے
زیادہ خوراک ضائع کرتے ہیں جو کہ پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سالانہ 40 فیصد ایسی خوراک ضائع ہوتی ہے جسے
چکھنا تک گوارا نہیں کیا جاتا اور یورپ میں لوگ سو ملین ٹن کھانا ہر سال
پھینک دیتے ہیں٬ جبک دوسری جانب دیکھا جائے تو دنیا میں اس وقت ایک ارب سے
زائد افراد بھوکے ہیں۔
|
|
چاہے ہمارا ملک پاکستان ہو یا اس جیسے دیگر گرم ممالک٬ ان میں پھل اور
سبزیوں زیادہ عرصے تک تازہ نہیں رہ پاتیں اور ان ممالک کی بیشتر منڈیوں میں
سرد خانوں کی سہولت بھی موجود نہیں،جس کے باعث سبزیوں اور پھلوں کی ایک بڑی
مقدار ضائع ہوجاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے جو ہر ایک فرد
کے لیے کافی ہے مگر اس کی فراہمی اور دیگر مسائل خوراک کے ضیاع کا باعث
بنتے ہیں۔ |