سیری نالہ بان (حصہ اؤل)

یوں تو کشمیر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے لیکن سیری کو اس میں وہی اہمیت حاصل ہے جو جھومر کو دوسرے زیورات پر ہے۔سیری ضلع کوٹلی کی اس حسین و جمیل وادی کا نام ہے جو قدرتی طور شرقاٗ غرباٗ پہاڑوں کے دامن میں ہے جبکہ جنوب میں مقبوضہ کشمیر اور شمال میں ضلع کوٹلی قلعہ کرجائی اور فتح پور تھکیالہ ہیں۔یہ وادی خوبصورتی میں لاثانی ہے ۔ کوٹلی سے لیکر دھرمسالہ تک کا سلسلہ ایک جسیا ہے ۔آب و ہوا بھی متوسط سی ہے نہ ہی پنجاب جیسی گرم اور نہ ہی بالائی کشمیر کی طرح ٹھنڈی اگر اسے برد'وسلام" کہا جاے تو غلط نہ ہو گا ۔ پانی میں قدرتی شیرنیی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں بھی کافی مٹھاس ملتی ہے، شاید اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا "م ملک چنگا سیری بناہ والا چنگے لوک تے مٹھیاں بولیاں نی" جیسی خوبصورت سیری ہے ایسی ہی اس میں بسنے والی مخلوق بھی ہے اچھے تگڑے لوگ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس وادی میں کیپٹن فیض پہلوان اور لطیف پہلوان جیسے نامور لوگ بھی ہیں تو وکلا۶ کی نصف برادری بھی اسی سیری کی جم پل ہے، حکمت اور ڈاکٹری کے علوم سے اچھی شہرت رکھنے والے اور درس و تدریس جیسے مقدس پیشے سے وابستہ لوگ بھی اسی سیری سے ملتے ہیں۔ ادب کی دنیا کے آزاد خیال لوگ چودھری میاں محمد، زوالفقارعارش،مسعود ساگر اور پروفیسر انوار چشتی جیسی عالیٰ شخصیت کے مالک اسی وادی کا سرمایہ ہیں۔گویا سیاسی سماجی پہلو کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس وادی کے انمول خیزنوں میں سے ہیں ۔ گویا شعبہ ہاے زندگی سے وابستہ لوگوں سے بھری اس وادی کو سیری کہا جاتا ہے۔

اب سیری کی وجہ تسمیہ کیا ہے اس کو سیری کیوں کہا جاتا ہے یہ جاننے کے لیے مصنف کو کافی چھان بین کے بعد بھی کچھ خاص بات پلے نہ پڑی البتہ پرانے لوگ اس کی ایک وجہ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ جب ڈھائی سیرا کال پڑا تو اس وقت جو سرکاری راشن ڈپو تھا وہ اسی جگہ پر تھا اور سب کو یہاں سے ایک سیر راشن ملتا تھا آنے جانے والے لوگ سے جب یہ پوچھا جاتا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں تو وہ سیر کے آگے "ی" کا صغیہ لگا کر سیری کہہ دیتا اور پوچھنے والا سمجھ جاتا کے راشن ڈپو سے آرہا ہے۔ لیکن مصنف اس سے متفق نہیں۔ وہ اس لیے کے جہاں راشن ڈپو تھا آخر اس جگہ کا کوئی نام تو سیری سے پہلے کا ہونا چاہیے تھا جیسا کہ سیر یا ڈھائی سیر کا کال تو بعد میں ہوا کیا یہ جگہ اسی انتظار میں تھی کہ کال کے بعد میرا کوئی نام رکھا جائے گا-

مصنف چونکہ باتوں کا اور وجہ تسمیہ جانے کا شروع سے ہی چسکورہ رہا ہے اس لیے اس نے اپنے ایک درینہ دوست سے بھی رابطہ کیا وہاں سے یہ بات ملی کہ یہ جگہ ریشم کا مرکز تھی اور یہاں ریشم لینے یا کاتنے کےلیے لوگ آتے لیکن کسی مجبوری کے تحت صرف ایک سیر ریشم کاتا جاتا جس کی وجہ سے اس کا نام ہی سیری پڑھ گیا ، لیکن عادتاٗ مصنف کی تشنگی اس جواب کو پا کر بھی نہ بُجھ سکی، پھر دوسرے دوست زوالفقار عارش سے یہ پتہ چلا کے اس کا مطلب ہے خوب پھیلا پولا یا پیٹ کا بھرا ہوا جب کہ ایک تیسرے دوست چودھری وقار نے ریشم کا کہا لیکن مزید معلومات بعد میں دوں گا کہہ کر دو دن کی مہلت لے لی ۔مصنف مزید سے مزید تر کی جستجو میں کوشاں رہا۔آخرکار مصنف نے اپنے تہی تیر چلاتے ہوئے ایک نئی وجہ تلاش کی اس سوچ کہ پیش نظر کہ شاید اس پر پہلے کسی نے غور نہیں کیا اور وہ وجہ یہ اخذ ہوئی کہ اس جگہ بسنے والی چار بڑی قومیں تھی جن کا اثر رُسوخ دوسری قوموں سے زیادہ تھا ،اس لیے مصنف نے اَن چاروں کو ایک ایک پاؤ سے منسلک کیا اور پھر چاروں کو اکھٹا کر کہ ایک کلو(سیر) بنایا اور ساتھ (ی) کا صغیہ لگا کر سیری کر دیا۔ لیکن بات یہ بھی کوئی پکی نہیں کیونکہ ابھی ایک دماغ کی بات ہے جب دو چار سر جوڑیں گئے تب اس بات پر مکمل اتفاق ہو گا ۔سیری سے گذرنے والے اجنبی لوگ اور خاص کر فوج سے وابستہ لوگ آج بھی سیری کو سحری کہتے ہیں ،وہ یوں کیوں کہتے ہیں کسی کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں۔

مصنف نے اپنے تہی س ی ری کے چاروں حروف سے بھی کچھ نہ کچھ کریدنے کی کوشش کی لیکن سعی لاحاصل رہی پڑھے لکھے احباب سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا لیکن تین دوستوں صابر حسین وقار احمد اور ذولفقار عارش کے علاوہ کسی نے جواب دینے کی یا اس مفت کے کام میں شمولیت کی زحمت نہ کی۔ آخر کار مصنف نے انگریزی کے حروف تہجی(English alphabet)پر غور وفکر کرتے ہوئے کچھ نتائج حاصل کیے جن میں سے خود ہی ایک کی سلیکشن کی جو قارئین کی پیش نظر ہے ( society of equally relations inn)جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی سرائے یا ایسا معاشرہ جو لوگوں کے باہمی تعلق سے قائم ہوا ۔اب یہ بھی مصنف کی اپنی سر کھپائی ہے شاید احباب کی نظر میں آئے تو اتفاق رائے سے قبولیت مل جائے۔یوں یہ ایس ای آر آئی کا مجموعہ سیری بن گیا ۔لیکن ابھی تک اس پر باعث جاری ہے ۔
نالہ تو تقریباٗ سب کی سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن بان کا ترجمہ زرا مشکل ہے کیونکہ بان کے جو معانی کہیں سے ملتے ہیں وہ بالکل اس بان سے مختلف ہیں البتہ یہاں اس نالے کو بان کہا جاتا ہے جو سیری کے کنارے کنارے بہتا ہے یعنی سیری اور دوسرے آس پاس کے قصبات کے درمیان حد فاضل کا کام کرتا ہے۔بان مقامی زبان کا لفظ ہے جو نالے کے طور پر استعمال ہورہا ہے ۔یہ بان مقبوضہ کشمیر سے نکل کر چتر کے مقام سے سیری میں داخل ہوتی ہے اور پھر دریا پونچھ سے ملنے تک بان ہی رہتی ہے ۔اس بان کو چناب یا راوی جیسی مقبولیت تو حاصل نہیں لیکن پھر بھی بہت ساری کہانیاں اس کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔اس کے دونوں کناروں پر بسنے والے آمنے سامنے ہونے کے باوجود بھی الگ الگ بولیاں بولتے ہیں الگ رنگ روپ اور الگ رسم و رواج رکھتے ہیں۔ بان کے دونوں کنارے جدا جدا رہ کر ایک جیسی مشابہت رکھتے ہیں جبکہ ان کے باسیوں میں کم کم مماثلت پائی جاتی ہے۔تیرہ چودہ گز کی بان کے کنارے ایسے جدا ہوئے کہ پھر مل نہ پائے۔اس بان سے وابستہ کہانیوں میں سے ایک کہانی منیر حسین اور وزیر حسین کی بھی ہے جو اس کے پانیوں میں ایسے گم ہوئے کہ پھر لوٹ کے نہ آئے۔ستاسیس رمضان کی سحری تھی جب بان کے بھنور میں آئے ، گھر والوں سے اور اس بستی میں بسنے والوں سے یوں ناطہ توڑا کے منانے سے بھی مان نہ پائے، ۔
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56175 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.