مجرم ہوں
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
گزشتہ تحریر میں یہ اقرار کیا
تھا کہ میں مجرم ہوں ،آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں جرم شوق سے نہیں کر
بلکہ جرم کرنا میری مجبوری ہے ۔مجھے پیدائشی ماحول ہی ایسا ملا ہے جو جرم
کرنے پر مجبور کرتا ہے ،میرے حصے میں ایسا معاشرہ آیا جس میں جرم کیے بغیر
زندہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا ،میرے جرائم کی لسٹ میں سب بڑاجرم یہ ہے کہ میں
ظلم سہتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ اپنے مجرم ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود
جرم کرتا رہوں گا،کیونکہ مجھے کسی قاتل کے خلاف گواہی دے کر خود کو خطرے
میں ڈالنا منظور نہیں .سرعام قتل ہونا منظورہے ،جانتا ہوں کہ میری سچی
گواہی کے باجودمظلوم کو انصاف نہیں ملے گا ،وہ اس لیے کہ جہاں ظلم کی حکومت
ہو وہاں عدل وقانون طاقتور کے گھر کی لونڈی ہوا کرتے ہیں اور کمزور کے پاس
ظلم برادشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ظلم کی حکمرانی میں حرام عام
اور حلال نایاب ہوجاتا ہے ،میرے نزدیک ظالم حکمران کی بڑی نشانی یہ ہے کہ
عوام کی حکمران تک رسائی ممکن نہ ہو،جس کے دور اقتدار میں عوام حالات سے
تنگ آکر خود کشی اور اپنے بچوں تک کو فروخت کرنے پر مجبور ہوں اور حکمران
کے گھر میں دنیا جہان کی تمام نعمتیں میسر ہوں ،حاکم اپنی آنے والی
100نسلوں کے لیے رزق اپنے گھر میں ذخیرہ کرلے اور محکوم کے گھر میں فاکے
رہیں ،محکوم دن را ت محنت مزدوری کرے اور حاکم اپنے محل میں آرام و سکون کی
زندگی بسر کرے ،محکوم سفر کرنے نکلے تو شیدیدسردی،گرمی کے باوجود گھنٹوں بس
کا انتظار کرنا پڑے ۔ اور جب حاکم گھر سے نکلے تو شہر کی تمام سڑکیں بند
کرکے قیمتی گاڑیوں کاقافلہ ساتھ چلے ۔ان حالات میں حاکم محکوموں کے مسائل
کس طرح سمجھ سکتا ہے۔ سمجھ ہی نہ پایا تو حل کیسے کر ے گا؟ جبکہ حکمران کا
فرض بنتا ہے کہ اپنی ریاست کے ہر مظلوم اور کمزور کی اس کے گھرجاکر داد رسی
کرے اور جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوجاے امداد جاری رکھے ۔ مظلوم کے
گھر پہنچنا تو درکنار، داد رسی تو دور کی بات اگر کوئی مظلوم آج کے
حکمرانوں کے گھر یا دفتر جا کر فریاد سناناچاہے تو اس کی فریاد تک نہیں
سنتے ،پہلے تو ان کے محافظ اندر نہیں کھسنے دیتے اور اگر کسی طرح کوئی غریب
اندر داخل ہوبھی جائے تو دھکے دے کرباہر نکال دیاجاتا ۔افسوس کہ جب الیکشن
ہوتے ہیں تو یہی ظلم سہتے ہوئے عام عوام ماضی اور مستقبل کے حکمرانوں کو
اپنے گھروں سے باہر نکل کر خوش آمدید کہتی ہے ،اُن کے گلے میں پھولوں کے
ہار پہناتے ہیں اورپھر انھی کو ووٹ دیتے ہیں۔نااہل لوگوں کو اپنا حکمران
منتخب کرنا بھی تو بڑا جرم ہے جو میں بار بار کرتا ہوں اور کرتا رہوں
گا،وجہ آپ بھی جانتے ہیں ،میرے خیال میں وجہ یہ ہے کہ اہل لوگ الیکشن میں
حصہ ہی نہیں لیتے ان کو گندی سیاست سے نفر ت ہے ۔گندی مطلب جو ہمارے ہاں
پائی جاتی ہے ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی ہواس کا ورکراپنے پارٹی لیڈر کو بھگوان
سمجھتا ہے اورہرموقع پر اپنے لیڈرکو محب وطن، قابل،سچا،محنتی ،ایماندار،انصاف
پسند،غریب پرور،امن پسند،مختصر کہ ساری دنیا سے بہتر اور کرشماتی صفات کا
مالک ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔حتٰی کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے
پارٹی لیڈر میں ان میں سے کوئی ایک خوبی بھی موجود نہیں ہے۔ افسوس کہ سیاسی
کارکن عوام کو باشعور کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی
کوشش میں نااہل لوگوں کو بھگوان بنا کر پیش کرتے ہیں ۔جو ایون اقتدار پہنچ
کر سچ مچ بھگوان بن جاتے ہیں ،یعنی پتھر کے بت نہ تو ان کو عوام الناس کے
گرتے ہوئے لاشے نظر آتے ہیں اور نہ ہی مظلوموں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں،وہ
اپنے اقتدار کے نشے میں ایسا گم ہوتے کہ سوائے لوٹ مار کے کچھ یاد نہیں
رہتا ۔بات گھوم پھر کے پھر وہیں آپہنچی ہے کہ لوٹ مار کرنے والوں کو لوٹ
مار کا موقع کون فراہم کرتا ہے ؟عوام (یعنی میں) توایک بارپھرثابت ہواکہ
میں مجرم ہوں :مجرم ہوں اپنے وطن کی مٹی کا،مجرم ہوں ہم وطنوں کااور مجرم
ہوں اپنے ہی ضمیر کا |
|