چین میں مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی ،مسلم امہ کیلئے لمحہ فکریہ
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
پاکستان میں اکثراوقات چین کی
دوستی کی بات کی جاتی ہیں۔لیکن یہ تصویرکاایک رخ ہے جبکہ دوسری جانب چین کی
حکمران کمیونسٹ پارٹی نے سنکیانگ صوبے میں مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع
کر دیا ہے۔ سرکاری ملازمین ، استادوں اور طالب علموں کو حکم دیا گیا ہے کہ
وہ روزہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ
تصویرکا دوسرارخ ہے ۔حیرت انگیز طور پر عالم اسلام کی طرف سے ا س جبر پر
کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔عام طور سے مسلمان ملکوں میں حکومتیں
اور عوام دوسرے ملکوں میں رونما ہونے والے حالات اور مسلمانوں کی صورتحال
پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے متعدد ملکوں میں مذہبی اور
سیاسی گروہ مغربی ممالک میں آباد مسلمان اقلیت کے حقوق اور صورتحال کے بارے
میں بے چین اور مضطرب رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان ملکوں ، اداروں یا
تنظیموں کی جانب سے چین میں ایک آمرانہ فیصلہ کے خلاف کوئی آواز سننے میں
نہیں آئی۔
میڈیارپورٹس کے مطابق سنکیانگ میں یغور مسلمان آباد ہیں۔ یہ لوگ اپنا تعلق
وسطی ایشیا سے جوڑتے ہیں۔ اگرچہ اس علاقے میں مشرقی ترکستان کے نام سے
علیحدگی کی تحریک بھی چلائی جا رہی ہے لیکن اس صوبے میں آباد یغور نسل کے
بیشتر مسلمان پرامن ہیں۔ البتہ وہ اپنی ثقافت اور تہذیب کی حفاظت کے بارے
میں بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔ چینی انقلاب کے بعد اس علاقے کو چین کا حصہ
بنایا گیا تھا۔ اس وقت سے اب تک اس علاقے کی آبادی میں اپنی ثقافت کے خلاف
مرکزی حکومت کے اقدامات اور محرومیوں کی وجہ سے مسلسل تناؤ اور بے چینی
پیدا ہوتی رہتی ہے۔ چین کی مرکزی حکومت نے کبھی ان مسائل کو سمجھنے اور ان
کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس سنکیانگ کی یغور آبادی کو
دبانے اور محروم رکھنے کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ان میں سب سے اہم
قدم یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر چینی النسل ہان اور ہوئی لوگوں کو
بڑی تعداد میں سنکیانگ میں منتقل کیا گیا ہے۔ اس طرح اب چینی النسل ہان
آبادی یہاں پر آباد یغور سے بڑھ چکی ہے۔
1950ء میں سنکیانگ میں ہان نسل کے لوگ صرف 6 فیصد تھے جبکہ یغور آبادی کا
80 فیصد تھے۔ اب یہ صورتحال ڈرامائی طور سے تبدیل ہو چکی ہے۔ اس وقت صوبے
کی 22 ملین آبادی میں 45 فیصد کے لگ بھگ ہان لوگ ہیں جبکہ یغور کی آبادی
تقریباً 8 ملین کے قریب ہے۔ چین کی مرکزی حکومت نے یغور لوگوں کو سنکیانگ
کے دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کے لئے بھی مہم جوئی کی ہے۔ حکمران پارٹی
کا خیال ہے کہ اس طرح یغور کی ثقافتی شناخت کو ختم کیا جا سکے گا۔ عالمی
اداروں کی طرف سے اس حکمت عملی پر نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔سنکیانگ کی یغور
النسل اکثریت مسلمان ہے۔ وہ اگرچہ انتہا پسند مسلمان نہیں ہیں لیکن ان کے
رہن سہن اور ثقافت پر اسلامی تہذیب کا گہرا اثر ہے۔ اس اثر کو ختم کرنے کے
لئے اب چینی حکام نے پہلی مرتبہ رمضان المبارک کے دوران بیشتر مسلمان آبادی
پر روزہ رکھنے کی پابندی عائد کی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی مقامی شاخ کے حکم کے
علاوہ اس حوالے سے متعدد عملی اقدامات کئے گئے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں
اساتذہ طالب علموں کو زبردستی پانی پینے کا حکم دیتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے
کارکن مسلمان گھرانوں میں مفت کھانا پہنچاتے ہیں اور تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ
روزہ نہ رکھیں۔ اسی طرح سرکاری دفاتر میں مسلمان ملازمین سے یہ حلف لیا جا
رہا ہے کہ وہ روزے نہیں رکھیں گے۔مسلمان آبادی کو زچ کرنے کے لئے مسلمان
والدین پر یہ سخت پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلام کی ترغیب
نہیں دے سکتے، نہ ہی ان کے لئے مذہبی تعلیم و تربیت کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
یہ پابندی صوبے میں آباد ہان اور دیگر نسل کے لوگوں پر نہیں ہے۔ وہ لوگ
زیادہ تر دہریہ ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد بدھ مت یا عیسائیت کو ماننے والی
بھی ہے۔
چینی حکام سنکیانگ کی مسلمان ثقافت کو دہشت گردی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔
اس قسم کے رویہ کا اظہار امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کی طرف سے
دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف مغرب کی جنگ کو عام
طور سے اسلام اور مسلمانوں پر حملہ اور ان کے خلاف سازش کا نام دیا جاتا
ہے۔ چین کی کمیونسٹ حکومت اپنے ایک صوبے میں مسلمانوں کو ختم کرنے ، ان کے
عقیدے کو مٹانے اور اسلام کو دہشت گرد ،ذہب قرار دینے میں کوئی حجاب محسوس
نہیں کرتی لیکن اس رویہ کے خلاف عام طور سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں
ہوتی۔
ایک رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں تصادم کا آغاز نسلی ٹکراؤ کی وجہ سے ہوا
تھا لیکن چینی حکام نے اس کا متوازن راستہ تلاش کرنے کی بجائے یغور نسل کو
فنا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اسی لئے ان لوگوں کے عقیدہ کو بھی
نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس صوبے میں موجود بے چینی کا آغاز جولائی 2009ء
میں صوبائی دارالحکومت اورومکی میں ہؤا تھا۔ اس موقع پر پولیس نے ہان نسل
کے لوگوں کی طرف سے یغور آبادی پر حملوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی اس طرح
فسادات پھیل گئے۔ اس تصادم میں 200 سے زائد یغور لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت
سے چینی حکومت نے مفاہمت اور مصالحت کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے
یغور کی ثقافتی تطہیر کی پالیسی اختیار کی ہے۔مرکزی حکومت اور کمیونسٹ
پارٹی کے اس یکطرفہ رویہ کی وجہ سے یغور آبادی میں بعض انتہا پسند گروہ بھی
پیدا ہوئے ہیں۔ اس سال 22 مئی کو صوبائی دارالحکومت کی سبزی منڈی میں
دھماکہ سے 43 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ جبکہ گزشتہ ماہ کاشغر میں ایک شدت پسند
نے 13 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ چینی حکام نے انتہا پسندوں کا سراغ لگانے
اور اصل مجرموں کو پکڑ کر سزا دینے کی بجائے یغور آبادی اور ان کے دانشوروں
اور لیڈروں کے خلاف سخت اقدامات کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں بیجنگ یونیورسٹی کے
یغور پروفیسر الہام توہتی کو چند ماہ پہلے گرفتار کر کے انہیں قید تنہائی
میں رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر سے اس گرفتاری کی مذمت کے باوجود نہ تو انہیں
رہا کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا
ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ پروفیسر توہتی دہشت گردوں کی ذہنی تربیت کرتے
تھے۔ جبکہ جلا وطن یغور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کا انتہا پسندی سے کوئی
تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ سنکیانگ کی علیحدگی کے حامی ہیں۔ لیکن وہ حکومت
کی جابرانہ پالیسیوں پر دلیل اور شواہد کے ساتھ نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔اس
پس منظر کے باوجود یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ روئے زمین پر ہر شخص کو اپنے
عقیدے پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی لئے یہ عالمگیر اصول بھی وضع ہوا ہے
کہ سب عقیدوں کا احترام کیا جائے۔ چینی حکام اپنے آمرانہ اور ظالمانہ
ہتھکنڈوں سے اس متفقہ اصول کو مسترد کر رہے ہیں۔ تبت میں بدھ آبادی کے بعد
اب سنکیانگ کی مسلمان آبادی کے خلاف جبر و ستم کا سلسلہ بے حد تشویش کا سبب
ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت تمام مسلمان ملکوں کو چین کے اس رویہ کے
خلاف احتجاج کرنا چاہئے۔ سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ چین کے حکام کا رویہ
تمام عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے اس کے خلاف آواز بلند کرنا، اسے
مسترد کرنا اور چینی حکام کو یہ باور کروانا بے حد ضروری ہے کہ طاقت کے زور
پر کسی عقیدہ کو ختم کرنے کا رویہ ناقابل قبول اور غلط ہے۔ |
|