بچے برائے فروخت کا پلے کارڈ لے
پریس کلب کے باہر یا کسی مصروف بازار میں کسی ماں باپ کو دیکھ کر ہمارا
میڈیا فورا بریکنگ نیوز کی خبر لے دوڑتا ہے۔ اور پل بھر میں سارے چینل یہ
خبر دیتے ہوئے سیاستدانوں، سوشل ورکرز سے ان کے تاثرات لے رہے ہوتے ہیں۔ تو
کیا مثل یوسف بازار میں بکنے کے لئے بچے ہی ایسی ارزاں جنس رہ گئی ہے۔ جسے
جب چاہے ماں باپ بازار میں بیچنے نکل کھڑے ہوں۔ کیا ہمارا معاشرہ مادیت
پسند ہوگیا ہے؟ کیا ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے؟۔ اور کیا
ہماری حکومتوں اور ارباب اختیار نے واقعی اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیا
ہے؟۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اس دور میں ماں باپ کی محبت اس قدر کم
ہوگئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بازاروں میں فروخت کرنا شروع کردیں؟ یہ ایسے
سوالات ہیں جس پر ہمارے معاشرے میں سنجیدہ بحث ہونی چاہئے۔ ایک جانب معاشرہ
اور حکومت اپنی اس ذمہ داری سے رخ موڑے کھڑے ہیں۔ تو دوسری جانب ہم نے ان
بچوں سے محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کو ہاتھ بٹانے کو حق بھی چھین لیا
ہے۔
گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن رکن عارف مصطفیٰ
جتوئی کے ایک سوال کے جواب میں سندھ کے وزیر محنت امیر نواب نے ایوان کو
بتایا کہ سندھ کے اضلاع تھرپارکر، عمر کوٹ، جامشورو اور دادو سے یکم مئی
2008ءسے 30/ اپریل 2009ءتک 4367/ محنت کش بچوں کو بازیاب کرایا گیا جن سے
مختلف فیکٹریوں اور قالین بافی نے کارخانوں میں جبری مشقت لی جاتی تھی ان
میں 2180/ کم عمر بچیاں بھی شامل ہیں۔ بازیابی کے بعد ان بچوں کو ایک این
جی او ”تھردیپ“ کے حوالے کیا گیا جس نے ان بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا
اور ان کی بحالی کے لئے اقدامات کئے۔ اس رپورٹ پر سندھ اسمبلی میں ایک
بھونچال سا آگیا۔ اس موقع پر متعدد ارکان نے سوالات اٹھائے اور کہا کہ کم
عمر بچیوں کو کہاں رکھا جارہا ہے ؟ کیا ان بچوں کو ان کے والدین سے ملنے
دیا جارہا ہے یا نہیں؟ اور کیا بچوں کو فروخت تو نہیں کردیا گیا؟۔ ارکان کی
اس تشویش پر اور ایوان کے مشورے سے اسپیکر نے یہ معاملہ اسٹینڈنگ کمیٹی
برائے محنت کے حوالے کردیا اور اسے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر محنت
نے کہا کہ میں کمیٹی کے ارکان کے ساتھ خود جاؤں گا اور ان بچوں سے ملوں گا۔
اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو نے ایوان کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے محنت
کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ سندھ کے مختلف اضلاع سے بازیاب کرائے گئے محنت
کش بچوں کے حالات کا جائزہ لے اور اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے۔ تا حال
یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے
کہ قومی معاملات میں ہمارے سیاستدانوں کا رویہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ
والدین اس قدر خود غرض ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ معصوم آمدنی میں اضافے کا
ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہمارے حکمران اتنے سخت دل ہوچکے ہیں
کہ وہ ان نونہالوں کی فلاح و بہبود اور روشن مستقبل کے لئے کسی قسم کی حکمت
عملی تیار نہیں کرتے بلکہ مہنگائی، بے روزگاری میں روز بروز اضافہ کرنے کو
ترقی سمجھتے ہیں۔
ان ملازم پیشہ بچوں کی اکثریت مہنگائی کے سبب ہی عملی زندگی کی جانب آتی
ہے۔لیکن ہم مغرب کے پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہیں کہ ہم اپنے خصوصی حالات
کا تجزیہ نہیں کرتے۔ ہمارے سیاست دانوں نے اس مسئلے پر سوچا ہی نہیں۔ یادش
بخیر پاکستان میں مشقت کرنے والے بچوں یا چائلڈ لیبررز کی تعداد کے بارے
میں درویش صفت عبدالستار افغانی نے ایک سوال پوچھا تھا۔ جس پر ایوان کو
بتایا گیا کہ اس ضمن میں تازہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم محنت و
افرادی قوت کے وزیر کے بقول انیس سو چھیانوے میں کیے گئے سروے کے مطابق ملک
میں محنت کش بچوں کی تعداد تینتیس لاکھ تیرہ ہزار تھی۔ آج ۳۱ سال بعد بھی
کسی کو یہ اعداد شمار نہیں معلوم اور نہ اس مسئلے پر کوئی توجہ ہے۔ اب بھی
وقت ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں
سے ان کا بچپن نہ چھینا جائے بلکہ فطری انداز میں انہیں پھلنے پھولنے کے
مواقع فراہم کئے جائیں۔ بچے ہی قوم کا مستقبل ہیں ان محنت کش بچوں کی طرف
بھرپور توجہ دی جائے اور اپنی قوت و استطاعت کے مطابق ان کے بچپن و مستقبل
کو بہتر بنانے کے لئے عملی جدوجہد کی جائے۔ |