محنت کرنے کی عادت بنائیں

ہادی میرا جوتا لے کر آؤ، ہادی میرا بیگ اٹھا کر لاؤ، ہادی میری کتاب لے کر آؤ، ہادی یہ پین دینا اٹھا کر، عاقب کبھی کبھی تو پاس پڑی ہوئی چیزوں کو بھی خود اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ سامنے پڑے ہوئے ٹی وی ریموٹ اٹھانے یا سوئچ آن کرنے کیلئے بھی ہادی کو آواز دیتا تھا۔ عاقب کی امی پچھلے کچھ دنوں سے غور کر رہی تھیں کہ عاقب اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کو خود کرنے کی بجائے اپنے چھوٹے بھائی ہادی کو ہر کام کرنے کا حکم دیتا تھا۔ ہادی چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے ہر کام کو پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کھانے، پینے، پڑھنے، غرض روزمرہ کی جتنی ضروریات تھیں، ان چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے اس نے اپنے چھوٹے بھائی پر انحصار کرنا شروع کردیا تھا، ہادی کی امی کا خیال تھا کہ اس طرح عاقب کو کام نہ کرنے کی عادت پڑجائے گی اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے دوسروں کی مدد کا منتظر رہے گا، دوسروں پر بھروسہ کر کے بیٹھے رہنے کی عادت پڑجائیگی، دوسری طرف ہادی کے اندر بھی کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بڑوں کے کام کرنے سے بیزاری پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ جب کوئی ہر وقت صرف دوسرے کو نیچا سمجھ کر کام کرواتا ہے تو اسمیں بھی حکم عدولی کا رویہ پیدا ہونے کا خطر ہوتا ہے جس سے وہ دوسروں کو نظر انداز کرتا ہے اور بڑوں کی کسی بات کو اہمیت دینا چھوڑ دیتا ہے، اور وہ خود بھی دوسروں کے سہارے کی تلاش کرنے شروع کردیتا ہے۔

عاقب کی امی کسی مناسب وقت کے انتظار میں تھیں کہ عاقب کی اس عادت کی اصلاح کرسکیں۔ ہفتہ کو عاقب بہت اچھے موڈ میں تھا آج اس کے پیپرز ختم ہوئے تھے۔ امتحانوں کی وجہ سے کئی دنوں سے اس نے کوئی ٹی وی پروگرام نہیں دیکھا تھا نہ ہی اس نے کمپیوٹر پر کوئی گیم کھیلی تھی۔ آج وہ جی بھر کے کارٹون دیکھنا چاہتا تھا، گیمز کھیلنے کے لئے بھی اس کا من مچل رہا تھا۔ سکول سے واپس آکر عاقب نے سکول یونیفارم تبدیل کر کے کھانا کھایا اورکچھ دیر آرام کیا، پھر اس نے اٹھ کر اپنے من پسند کارٹون Ben10 دیکھے۔ عاقب اور ہادی کو ایک گھنٹہ سے زائد کارٹون دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ عاقب کی امی نے ان کیلئے ہر چیز کا وقت طے کر دیا تھا۔ عاقب عصر کی نماز کے بعد گراؤنڈ میں کھیلنے چلا گیا۔ وہ اپنے کزنز کے ساتھ مل کر کرکٹ کھیلتا تھا۔ آج کل اسے سائیکل چلانے کا شوق سر پر چڑھا ہوا تھا۔ اس لئے وہ کچھ دیر کے لئے گراﺅنڈ میں سائیکل بھی چلاتا تھا، سائیکل سڑک پر لے جانے کی اسے اجازت نہیں ملی تھی۔

کھیل کود سے فارغ ہوکر وہ نماز مغرب ادا کر کے گھر آیا۔ مغرب کے بعد عاقب اور ہادی ہوم ورک کیا کرتے تھے مگر آج پیپرز ختم ہونے کی وجہ سے وہ فارغ تھے۔ اس لئے عاقب، ہادی اور انکی امی اکٹھے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، عاقب اپنے پیپرز کے متعلق بتا رہا تھا۔ اس کی والدہ نے اس وقت کو مناسب سمجھا، عاقب اور ہادی بھی حسب معمول چاہتے تھے کہ انکی امی انہیں کچھ بتلائیں۔ عاقب کی امی نے انہیں سمجھانے کے لئے اپنی بات اس طرح شروع کی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے، ہم سب آدم کی اولاد میں سے ہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو اپنے بڑوں کا ادب نہ کرے اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے۔ ہادی ابھی چھوٹا تھا اسے بات سمجھ نہ آئی فوراً بولا کہ بڑوں کے ادب کا کیا مطلب؟ امی نے بتلایا کہ بڑوں کے ادب سے مراد ہے کہ آپ ان کا کہا مانیں، ان کا احترام کریں، ان کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہ کریں، ان کے سامنے نگاہیں نیچی رکھیں۔ ان کو تکلیف نہ دیں، ان کی خدمت کریں اگر وہ زیادہ بوڑھے ہوں تو انکے کاموں میں مدد کریں۔ امی نے پوچھا آپ کو معلوم ہے بڑوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ ہمارے والدین، دادا، دادی، چچا، چچی اور اس طرح کے دوسرے رشتے، محلہ میں رہنے والے بڑے بزرگ، ہمارے سکول کے تمام اساتذہ، بڑے کہیں بھی ہوں ہمیں ان سب کا احترام کرنا چاہیے۔

عاقب نے پوچھا کہ چھوٹوں پر شفقت سے کیا مراد ہے؟چھوٹے، بڑوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں، عاقب کی امی نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، اس لئے ان پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ ان کے ساتھ پیار و محبت اور نرمی کا سلوک کرنا چاہیے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بڑے ان پر اپنا حکم چلاتے رہیں اور حکم نہ ماننے پر ان سے مار پیٹ کریں، ان کی تربیت کرنی چاہیے، انہیں پیار و محبت سے کام کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ عاقب کی امی نے ایک واقعہ سنایا کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سات برس آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہا۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہیں کیا۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجنا چاہا، میں نے کہا نہیں جاؤں گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم چپ رہے اور حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو کچھ نہیں کہا۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور میری گردن پکڑلی میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہنس رہے تھے۔ پھر پیارسے فرمایا کہ انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ! جس کام کے لئے کہا تھا اب تو جاؤ، میں نے عرض کیا میں جاتا ہوں، امی نے عاقب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ شفقت ہے۔
عاقب کی امی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بڑوں کے ادب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے استاد، بزرگوں اور معاشرے کے بڑے لوگوں کا احترام کریں اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستوں کے مطابق جس چیز کا حکم دیں، اسے پورا کریں اسی طرح چھوٹوں سے ایک مراد معاشرے کے کمزور لوگ بھی ہیں جیسے مزدور، کسان، خادم اور مظلوم لوگ۔ ہمیں چاہیے کہ ان سے اچھا سلوک کریں، ان کی مدد کریں ۔حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا“۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تو جانوروں پر بھی سختی برداشت نہ کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو راستہ میں ایک اونٹ نظر آیا جس کا پیٹ اور پیٹھ ایک دوسرے کے قریب ہوگئے تھے یعنی سخت مشقت کے کام لینے کی وجہ سے اونٹ دبلا اور کمزور ہو گیا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”ان بے زبانوں کے متعلق اللہ سے ڈرو“ ذراسوچو کہ جب جانوروں پر ظلم جائز نہیں تو انسانوں پر ظلم کیسے قابل برداشت ہوسکتا ہے۔

عاقب کی امی نے اسے بتلایا کہ جو قومیں اپنے کام خود کرنے کی عادت نہیں بناتیں، وہ دوسروں کے سہارے جینا شروع کردیتی ہیں، انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے دوسروں کے سہارے اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ وہ خود کام کرنے کے عادی نہیں ہوتے اس لئے وہ ترقی سے محروم رہتے ہیں۔ عام طرح کی مشینیں بھی وہ دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں، دوسروں کے پیسوں سے بیٹھ کر کھانے کی عادت بنا لیتے ہیں۔ ایسی قوم آہستہ آہستہ غلام بن جاتی ہے پھر اس پر تمام لوگ اپنا حکم چلاتے ہیں۔ انسان کو کام کرنے، کوشش کرنے، محنت کرنے کا عادی ہونا چاہیے، محنت بھی ان تھک ہو، یہ نہیں کہ تھوڑی سے محنت کر کے تھک کر بیٹھ جاﺅ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت محنت کرنے والی بنائی ہے، اس لئے دنیا میں وہ قومیں کامیاب ہیں، جو محنت کرتی ہیں، جو قومیں نکمی ہیں اور بیٹھ کر کھانا چاہتی ہیں وہ غلام بنالی جاتی ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہے کہ ہم اپنے کام خود کریں، جہاں ضرورت ہو وہاں دوسروں کی مدد لیں ، بالخصوص اپنے ذاتی کام ہمیں خود کرنے چاہیے۔ عاقب نے پوچھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کام کون کرتا تھا؟ کیاآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خادم رکھے ہوئے تھے؟ عاقب کی امی نے بتلایا کہ تمام صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے جاں نثار خادم تھے۔ اگر کوئی غلام یا لونڈی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں آتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسے آزاد فرما دیتے اور اپنے ذاتی اور گھر کے کام خود فرماتے بلکہ دوسروں کے گھروں کا کام بھی خود کر دیتے تھے۔ کپڑے پھٹ جاتے تو خود پیوند لگا لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دے لیتے تھے، بکریوں کا دودھ دوہ لیتے تھے، بازار سے سودا سلف خود لاتے تھے، جوتی پھٹ جاتی تو خود گانٹھ لیتے تھے، اونٹ کو خود اپنے ہاتھ سے باندھتے اور چارہ ڈالتے، خادم کے ساتھ مل کر آٹا گوندھ لیتے تھے، گھر کی مرمت کے کام بھی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے کرلیتے تھے۔

عاقب کی امی نے کہا کہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اپنے کام خود کرتے بلکہ دوسروں کے کاموں میں بھی انکی مدد کرتے تھے، خباب بن ارت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر انسانیت دشمن لوگوں کے خلاف محاذ جنگ پر تھے تو ان کے گھر کے کام کاج کرنے کیلئے کوئی مرد نہ تھا، ان کی عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود ان کے گھر تشریف لے جاتے اور انکی بکریوں کا دودھ دوہتے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کام خود کریں۔ دوسرے کے سہارے جینے کی عادت انسان کو تباہ کردیتی ہے۔ اس میں سستی، کاہلی اور نکما پن پیدا ہوجاتا ہے۔ آہستہ پوری قوم اسکی عادی ہوکر تباہ ہوجاتی ہے۔ دنیا میں کوئی اس قوم کی عزت نہیں کرتا آؤ وعدہ کریں کہ ہم جدوجہد (یعنی کوشش) کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کیلئے وہ کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جدوجہد کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
rasheed ahmad
About the Author: rasheed ahmad Read More Articles by rasheed ahmad: 11 Articles with 17288 views Ph.D Scholar
Department of Islamic Studies
Bahauddin Zakariyya University, Multan
.. View More