انسانی علم کی بے بسی
(Ghulam Shabbir, Shorkot)
آج بلا شبہ انسان علم کے ہر شعبے
میں کمال درجے کی مہارت حاصل کر چکا ہے۔ ماحول کو مسخر کر چکا ہے۔ زمین کی
گہرائی میں چھپے رازوں سے پردے اٹھا چکا، فضائے بسیط کی بلندیاں میں قدم
رکھ چکا، مگر باوجود اس کے انسان ابتدائے افرینش سے جو قدرت حاصل کرنا
چاہتا ہے وہ آج تک حاصل نہیں کر سکا اور نہ ہی شاید کبھی حاصل کر سکے گا۔
اور وہ ہے موت سے بچاؤ اور دائمی زندگی کی خواہش ، وہی خواہش جس پہ شیطان
نے آدم کو بہکایا تھا اور آج بھی اولاد آدم اسی خواہش کے حصول میں کہاں سے
کہاں تک پہنچ چکی ہےمگر موت سے بچاؤ تو ایک طرف ایک معمولی اور عام آنکھ سے
نظرنہ آنے والا جراثومہ بھی لا علاج امراض کا موجب بن جاتا ہے اور اس وقت
انسان کا سارا علم بے بس و بے کار دکھائی دیتا ہے، جب انسان کو اپنی موت
سامنے واضح دکھائی دینے لگتی ہے اور انسان بے بہا علمی ، سائنسی اور طبی
ترقی کے باوجود موت کے فرشتے کے سامنے ہاتھ باندھے موت کا مزہ چکھنے کے لئے
تیار نظر آتا ہے۔ اس وقت انسان کا اپنے علم پہ غرور اور تکبر خاک میں مل
جاتا ہے۔ انسانی علم کی بے چارگی عیاں ہو جاتی ہے اورا س وقت انسان کی
نظریں صرف اور صرف اللہ کی ذات کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ پس اللہ نے انسان کو
کائنات کی بعض طاقتوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت اس لئے نہیں بخشی کہ وہ غرور
و تکبر کرے اور اللہ کی عبادت سے نکل جائے۔ بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ
کی ودیت کردہ ان تمام صلاحیتوں کو طے شدہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرے
اور اپنی دنیا و آخرت سنوارے۔
دعا : یا اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔ یا اللہ ہمیں شیطان کے وسوسوں سے بچا لے
، یا اللہ ہمارے علم میں اضافہ فرما اور ایسا علم عطا فرما جو نفع بخش ہو،
یا اللہ ہمیں غرور و تکبر جیسے اخلاق رزیلہ سے محفوظ فرما ۔ آمین ثم آمین |
|