آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور ایک
بار پھر لاکھوں پاکستانی اپنا گھر بار چھوڑ نے پر مجبور ہوئے۔ دہشت گردی نے
جس طرح پوری قومی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس سے مقابلہ کرنا کچھ آسان
نہیں لیکن قوم جیسے تیسے اس مصیبت سے نبرد آزما ہے۔یہ دہشت گرد ہر محاذ پر
پاکستان کے خلاف مصروف کار ہیں اور ان کے مدد گار مسلسل ان کی مدد پر کمر
بستہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک حکومت اور ایک فوج کے خلاف دس پندرہ سال
سے مسلسل لڑ رہے ہیں۔ لیکن اگر اب ان کے خلاف آپریشن شروع ہو چکا ہے تو قوم
بجا طور قوی اُمید رکھتی ہے کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف آخری معرکہ ہوگا اور
اس کے بعد کبھی پھر یوں لاکھوں پاکستانی اپنا گھر بار چھوڑ کر شدید ترین
موسم میں ننگے سر اور بھوکے پیٹ رہنے پر مجبور نہ ہونگے اور نہ ہی رمضان کا
مقدس مہینہ یوں در بدر گزرے گا۔ شمالی وزیرستان سے بنوں اور پاکستان کے
دیگر شہروں میں ہجرت کرکے آنے والے یہ آئی ڈی پیز دراصل پورے پاکستان کی
خاطر بے گھر ہوئے ہیں اور اِن کی مدد کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ یہ ایک
تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے مخیر حضرات فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتے ہیں اور ایک عام آدمی بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر ضرورت مند کی مدد کرتا
ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم بڑے حادثات اور مشکلات سے اپنی مدد آپ کے تحت ہی
گزر جاتے ہیں۔ اب بھی آئی ڈی پیز کے لیے امدادی سامان کے ڈھیر اس بات کا
ثبوت ہیں، لیکن یہ لوگ لاکھوں میں ہیں اور اب تک تقریباََ پانچ لاکھ اپنا
گھر بار چھوڑ چکے ہیں جن میں سے بہت سے تو کرایے کے گھروں میں رہ رہے ہیں
لیکن ایک بڑی اکثریت کیمپوں میں بھی موجود ہے جو اس شدید گرمی کے موسم کا
مقابلہ کر رہے ہیں۔ فوج مسلسل ان کے راشن اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے
لیے کوشاں ہے جس میں دوسرے ادارے اور افراد بھی شامل ہیں، ان میں ایک
نمایاں نام بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا ہے جنہوں نے ایک خطیر رقم کے
عطیے کے ساتھ ماڈل آئی ڈی پی کیمپ بنانے کی بھی پیشکش کی ہے اور ان کے
کھانے کے لیے مفت دسترخوان پروگرام بھی چلا رہے ہیں اسی طرح ہر ایک اپنی
اپنی بساط کے مطابق لگا ہوا ہے تاہم اصل ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں
کی ہے کہ وہ اِن لوگوں کی اس طرح سے دیکھ بھال کر لے کہ ان میں سے اگر کسی
کے دل میں حکومت کے خلاف اور طالبان کے حق میں کوئی معمولی جذبات بھی ہوں
تو ان کو ختم کیا جا سکے اور انہیں یہ احساس تحفظ حاصل ہو کہ ان کی حکومت
ان کی حفاظت کر سکتی ہے اور اُن کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہے۔ یہ وقت سیاسی
پوائینٹ سکورنگ کا نہیں ہے بلکہ عملی کام کرنے کا ہے لیکن حیرت ہے کہ ایک
انتہائی اہم آپریشن جاری ہے لاکھوں لوگ بے گھر ہیں پھر بھی ہمارے سیاست دان
آپس میں جھگڑ رہے ہیں اور کہیں کہیں سے تو یہ آواز بھی آتی ہے کہ آپریشن
ضرب عضب کے لیے ہمیں پہلے مطلع نہیں کیا گیا اگر چہ ابھی تک کسی نے اس
آپریشن کے ہونے پر اعتراض نہیں کیا ہے تا ہم اس طرح کی باتوں سے غلط فہمیاں
ضرور پھیلتی ہیں اور حیرت ہے کہ ملک میں ملکی سلامتی سے متعلق ایک بہت اہم
معاملہ چل رہا ہے لیکن ہمارا میڈیا بھی سیاست دانوں کی آپس کی چپقلشوں کو
زیادہ وقت دے رہاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپریشن میں پاک فوج کی
کامیابیوں کو زیادہ وقت دیا جائے تاکہ قوم کا مورال بلند ہو ۔مجھے اس بات
سے بھی اختلاف ہے کہ آپریشن کی ہر تفصیل بیان کی جائے لیکن ایسے وقت میں
ترجیحات کا تعین ضروری ہے اور خاص کر ہمارے سیاستدانوں کے لیے کہ وہ یہ سوچ
لیں کہ زیادہ اہم حکومت کا حصول ہے یا ملک کی سلامتی اور دہشت گردی کی
عفریت سے نجات اور ساتھ ہی آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال ۔ اس وقت جس چیز کی اشد
ضرورت ہے وہ ان کی مدد ہے اور حکومت کو اپنی زیادہ تر توانائی ادھر لگانے
کی ضرورت ہے جس کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مدد لی جائے اور فنڈز
اکھٹے کیے جائیں ۔حکومت نے جو بارہ ہزار روپے فی خاندان دینے کا اعلان کیا
ہے ان کی درست تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور یہ بھی سوچا جائے کہ کیا اس
موسم میں کیمپوں میں رہنا ممکن ہے ،اگر نہیں تو پھر کیا اِن پیسوں میں
کرایہ کا گھر لینا ممکن ہے اور اس کیساتھ ہی کا روبار زندگی بھی چلایا جائے
اور یہ بھی یاد رہے کہ اس علاقے میں، خاندان ماں باپ سمیت پچیس تیس لوگوں
پر مشتمل ہوتا ہے تو کیا بارہ ہزار روپے اس کے لیے کافی ہیں ۔ ہماری حکومت
اگر اپنے اخراجات میں کٹوتی کرے تو وہ اپنے اِن مہمانوں کی زیادہ بہتر خاطر
تواضع کر سکتی ہے لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ حکومت نہ تو حکومتی حیثیت میں
اور نہ ہی حکومتی عہدے دار اپنی ذاتی حیثیت میں کسی فکر میں مبتلا نظر آرہے
ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم جو پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں
سے ہیں نے اپنے پورے خاندان کی طرف سے ایک کروڑ کی رقم دی ایک عام پاکستانی
کے لیے تو یہ واقعتا ایک بہت بڑی رقم ہے اکثریت نے تو کبھی اتنی بڑی رقم
دیکھی بھی نہیں لیکن جناب وزیراعظم صاحب آپ تو۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے کوئی اور
عظیم صنعت کار حکومتی رکن تو کہیں نظر ہی نہیں آرہے۔ چلئے یہ تو ذاتی حیثیت
میں بات ہوئی حکومتی حیثیت میں بھی فوٹوسیشن ہو تو ہو لیکن انتظام اور
بندوبست بھی ہونا چاہیے کوئی ماڈل قسم کے کیمپ بنائے جائیں جن میں اِن
لوگوں کو کم از کم گرمی کی شدت سے ہی بچایا جائے۔ ان پانچ لاکھوں لوگوں میں
ایک دو لاکھ بلکہ اس سے زیادہ ہی بچے ہوں گے کیا وہ موسم کی شدت کا مقابلہ
کر سکیں گے کیا اِن دنوں گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے بند سکول اس مقصد کے لیے
استعمال نہیں ہو سکتے جہاں کم از کم بجلی کے پنکھے تو میسر ہوں۔ حکومت اس
وقت اگر آپریشن اور آئی ڈی پیز کو اپنی پہلی تر جیح قرار دے دے تو زیادہ
بہتر ہوگا اور خدارا ان کے لیے وصول ہونے والے عطیات کو شفاف طریقے سے انہی
تک پہنچایا جائے اسے کہیں اور نہیں جانا چاہیے اور یہاں ایک اور ضروری عرض
یہ بھی ہے کہ غیر ملکی این جی اوز پر بھی نظر رکھیے یاتو ان کی امداد حکومت
یا فوج کے حوالے کی جائے اور یا فوج کی نگرانی میں یہ لوگ امداد تقسیم کریں
تاکہ کوئی اور مسئلہ سر نہ اٹھا سکے اور امداد کی آڑ میں یہ این جی اوز کسی
اور یجنڈے کی تکمیل نہ کر سکیں۔ حکومت اور سیاست دان اپنے اُن مسائل کو جو
اگر تاخیر سے بھی حل ہوں تو ملکی سلامتی پر کوئی اثر نہیں پڑتا کو پیچھے
ڈال کر اس فوری مسئلے کو اہمیت دیں تو عوام ان کے مشکور ہوں گے کیونکہ یہ
آپریشن ملکی سلامتی کے لیے ہو رہا ہے اور یہ آئی ڈی پیز ملکی بقا ء کے لیے
اپنے گھر چھوڑ کر نکلے ہیں اس لیے انہیں یہ احساس دلانابہت ضروری ہے کہ وہ
تنہا نہیں ہیں اس ملک کا ہر فرد ان کی تکلیف محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہے
اور یہ دعا کر رہا ہے کہ یہ لوگ واپس اپنے گھروں میں جلد از جلد آباد ہوں۔
اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اور ہمیں اس کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے،
آمین ۔ |