عدل کا کرشمہ

اس واقعہ کوشام کے مشہور مولف اورمصنف الشیخ علی الطنطاوی کی کتاب ”قصص من التاریخ “سے اختصار اورمعمولی تصرف کے بعد لیاگیا ہے ۔سمرقند کی ایک گہری سرد رات میں ایک شخص اپنے گھر سے نکلتا ہے ،چاروں طرف گھپ اندھیرا ،اس کارخ شاہی محل کی طرف ہے ،وہ آہستہ قدم اٹھاتا اندھیرے میں راستہ تلاش کرتا بالآخر محل کے قریب جاپہنچتا ہے ،اس کے ایک جانب معبد ہے، ا س کے دروازے پرایک بہت بھاری پتھر رکھا ہوا ہے، جس پرمورتیاں رکھی ہوئی ہیں،اس پررعب طاری ہے، وہ زندگی میں پہلی مرتبہ معبد میں داخل ہونے والا ہے،اس سے پہلے اس کوکبھی یہ موقع میسر نہیں آیا ۔

یہ بھاری بھرکم نوجوان بزدل نہیں بلکہ نہایت بہادر شخص ہے،اس کاقد خاصا لمبا ہے،نہایت ذہن وفطین ہے ،سوچ فکر بلند ہے، وہ نہایت مدبر ہے ،مقامی زبان تواس کی مادری ہے مگراس میں ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ اس کوعربی زبان پرعبور حاصل ہے اوروہ فرفرعربی زبان بولتا ہے، اسے معبد کے سب سے بڑے عہدیدار نے ملاقات کے لیے بلوارکھا ہے، اس ملاقات کے شوق اورخوف نے اسے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کررکھا ہے، اس کاجسم کانپ رہا ہے ،اس معبد میں بہت کم لوگ داخل ہوسکتے ہیں اورجواس کے ذمہ داران ہیں وہ بس ایک مرتبہ اندرداخل ہوتے ہیں اورپھر ساری زندگی ا ن کوسورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی ۔

وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا۔اس کے لیے دروازہ کھول دیا گیا ۔اگلے کمرے کے وسط میں اس نے ایک عظیم الجثہ شخص کودیکھا ۔اس کی سفید لمبی داڑھی تھی۔اس نے اس کواس کے نام سے پکارا اوراپنے پیچھے آنے کااشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ معبدکا چوکیدار ہے ۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ کئی غلام گردشوں سے گزرنے کے بعد کاہنوں کے سردار کے سامنے جاپہنچا ۔ان کوکسی نے نہیں دیکھا ۔وہ معبد سے نہیں نکلتے تھے بہت کم ہی لوگ ملاقات کرپاتے ۔ا س ملک کے حقیقی حکمران یہی کاہن تھے ۔ کوئی بھی ان کی مخالفت کی جرات نہ کرسکتا تھا ۔ لوگوں میں یہ بات معروف تھی ان کی حکم عدولی دراصل خداﺅ ں کی نافرمانی کے مترداف ہے اورایسے لوگ لعنت کے مستحق ہوں گے۔

اس نوجوان کی نگاہیں دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔اس نے دائیں بائیں دیکھا ۔کاہن ایک صف میں کھڑے تھے ۔اس نے بڑے کاہن کی طرف اپنے کان لگادئیے ،جوآہستہ آہستہ گفتگوکررہا تھا۔پہلے تواسے کچھ سمجھ نہ آئی مگر بتدریج اس کومفہوم سمجھ آنے لگا کہ وہ سمر قند کی تاریخ اوراس کاماضی بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ کس طرح مسلمانوں نے اس ملک پرقبضہ کرلیا ہے ۔ ہم نے اس قبضے کے خلاف کتنی ہی ناکام کوششیں کیں۔مگر ان کااقتدار بتدریج پکاہوتا جارہا ہے، اب ہم ترپ کاپتہ پھینکنا چاہتے ہیں اوروہ یہ کہ ہم نے سنا ہے کہ اس قوم کابادشاہ نہایت عادل شخص ہے ،وہ دمشق میں رہتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے پاس اپنا ایلچی بھیجا جائے ، جس کے ہاتھ ہم اپنی شکایت ارسال کریں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیاکرتا ہے۔چونکہ تم عربی زبان سے واقف ہو ، لہذا ہم نے تمہیں منتخب کیاہے۔تم نہایت ذہن اوردلیر بھی ہو،گفتگور کافن جانتے ہو،کیاتم اس کام کے لیے آمادہ ہو ؟نوجوان نے اثبات میں سرہلادیا۔

بڑا کاہن کہنے لگا کہ پھرفوری طورپر اپنے سفر پرروانہ ہوجاﺅ ،تمہیں زادِراہ وافرمقدارمیں مہیا کردیاجائے گا۔نوجوان وہاں سے نکلا توخوشی اورمسرت اس کے چہرے پرعیاں تھی ۔آج سب سے بڑے کاہن نے مجھے شرفِ باریابی بخشا ہے، مجھے ایک عظیم مشن کے لیے منتخب کیا ہے، اب وقت ہے کہ میں اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کرسکوں ،سمرقندکوآزادی دلانے میں میرا بھی حصہ ہوگا ۔وہ گھر واپس آیا اورسفرکی تیاری کرنے لگا ۔معبدکی طرف سے اس کوزادِراہ وافر مقدار میں مہیا کردیاگیا ۔ا س کاتیز رفتار گھوڑااس کے ہمراہ تھا ۔وہ اس پرسوار ہوا ۔اس کارخ بخاراکی طرف تھا۔وہ مہینوں کاسفرہفتوں میں طے کرتا حلب پہنچ گیا۔ دمشق اس کی آخری منزل تھی ،جواب بالکل قریب تھی اوروہ دن بھی آیا جب وہ دمشق جارہا تھا۔وہ ایک سرائے میں اترا اوراس کے مالک سے پوچھا کہ امیر المومنین سے ملنے کاکیاطریقہ ہے؟

سرائے کے مالک نے کہا کہ ہمارے امیرالمومنین سے ملنا نہایت آسان ہے،تم مسجد اموی کی طرف جاﺅ ،وہاں کسی بھی شخص سے ان کے گھر کاراستہ پوچھ لینا ، وہاں کوئی پہریدار نہیں ہے، نہ ملاقات پرکوئی پابندی ہے۔

وہ مسجد ِاموی میں داخل ہوا۔ ایسی خوب صورت عمارت اس نے آج تک نہیں دیکھی تھی ۔ا س نے خیال کیاکہ یہی شاہی محل ہوسکتا ہے، چنانچہ اس نے ایک شخص سے پوچھا ہی لیا ۔اس کے لہجے اورشکل سے معلوم ہورہاتھا کہ وہ اس شہر میں اجنبی ہے۔اس شخص نے کہا ۔کیا تم قصر خلافت کے بارے جاننا چاہتے ہو؟

مگر کیا یہ قصر خلافت نہیں ہے؟اس نے تعجب سے پوچھا ۔اس شخص نے مسکراہٹ بھر ے لہجے میں کہا :نہیں !اجنبی دوست !یہ تواللہ تعالی کاگھر ہے، یہ مسجد ہے ، کیاتم نے نمازپڑھ لی ہے؟

نماز....میں کیسے نماز اداکرسکتا ہوں ؟میں توسمرقند کے کاہنوں کے دین پرہوں۔اس دین کاہوں۔اس دین کو کاہنوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اوروہ سرائے سے بھرا ہواہے!

آدمی نے سمر قندی سے دوبارہ سوال کیا، تواس نے کہا میں نماز کیسے پڑھوں ؟مجھے نماز کاطریقہ ہی معلوم نہیں۔

اس نے پوچھا :تمہارا دین کیاہے؟
ج ملا :مجھے معلوم نہیں۔
س :پھر تمہارا رب کون ؟
اس نے جواب دیا:معبد کاخدا
اب اس نے اگلا سوال کیا:اگرتم اُس سے مانگوتوکیا تمہیں عطاکرتا ہے اوراگرتم بیمار ہوتو تمہیں شفادیتاہے؟
کہنے لگا:مجھے معلوم نہیں ۔

اس شخص نے موقع غنیمت جاناکہ ایک شخص شکل وصورت سے ذہین وفطین ہے، اجنبی ہے، اس کاکوئی دین اورمذہب نہیں ، اس کودین کے اصول بتائے جائیں ،چنانچہ اس نے اسلام کی خوبیاں کیں اورپھر چند لمحوں کی بات تھی ،اس سمر قندی کے دل کاغبارچھٹ گیا اوراس نے کلمہ توحید پڑھ لیا اوردین اسلام میں داخل ہوگیا ۔ اب اس شخص نے اپنے اس نومسلم بھائی سے کہا:
چلو ہم امیر المومنین سے ملنے کے لیے چلتے ہیں۔ہرچند کہ یہ وقت انہوں نے گھروالوں کے لیے مختص کیاہوا ہے، پھر بھی وہ بڑے متواضع ہیں مسجد سے نکل کروہ گلی میں آئے ۔نہایت ہی سادہ سے دروازے کی طرف اشارہ کرکے اس نے بتایا کہ یہ امیر المومنین کاگھر ہے۔اس کوتعجب ہوا۔اس کاخیال تھا کہ بڑا عالی شان محل ہوگا ،مگر معمولی گھر ہے۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیزفرمانے لگے :اللہ کے نبی نے ہمیں ظلم کرنے کاحکم نہیں دیا، ہمیں عدل وانصاف کرنے کی تلقین کی ہے ۔ اس میں مسلم اورغیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ آوازدی :اے غلام ! کاغذاور قلم لایاجائے ۔غلام کاغذ کاایک چھوٹا ساٹکڑا لے کرحاضر ہوگیا۔ اس پردوسطرح لکھیں ،اس پرمہر لگائی ،پھر اس کوسربمہر کرکے سمرقندی سے کہا اسے اپنے شہر کے حاکم کے پاس لے جاﺅ ۔

سمرقندی واپس ہوا ۔اب اس کاسینہ توحید کے نورسے بھرا ہواتھا ۔جہاں جاتا وہاں سیدھا مسجد میں داخل ہوتا نماز پڑھتا اوراپنے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کرکے اپنی منزل کوروانہ ہوجاتا ہے۔سفر کی ایک عجیب لذت تھی ،اب اس کے لیے کوئی شخص اجنبی نہیں تھا ،نہ دوسروں کے لیے اجنبی ۔وہ جس مسجد میں نماز ادا کرتا لوگ اس طرف دیکھتے ۔اس شکل وشباہت سے پتہ چل جاتا کہ وہ مسافرہے ، اس علاقہ کارہنے والا نہیں ہے اورپھر نمازیوں میں اس مہمان نوازی کے لیے بازی لے جانے کی کوشش ہوتی ، ہرکوئی اسے اپنے گھر میں لے جاتے اوراس کی ضیافت کرنے کے لیے اصرار کرتا ۔ اب اس پرمسجد کی اہمیت اوراس دین حنیف کی بے شمار خوبیوں کاادراک ہوچلاتھا۔ پھر ایک دن آیا جب وہ سمرقند میں داخل ہورہا تھا ، وہ سیدھا معبد کی طرف گیا۔ اس کوکاہنوں کورپورٹ دینی تھی۔ ان کوخلیفہ المسلمین کے جواب سے مطلع کرناتھا۔ و ہ معبد میں داخل ہوا۔ اب وہ اس کی تاریک گلیوں اورغلام گردشوں سے خائف نہیں تھا ۔

پتھروں سے بنے ہوئے بت جوکبھی اس کے لیے معمہ سے کم نہ تھے ، اب ان کی حقیقت سے واقف ہوگیا تھا۔ یہ بت توہاتھوں کے بنائے ہوئے تھے،کسی کاریگر کے ہاتھوں کاکمال ، نہ نفع ونقصان کے مالک اورنہ اپنے آپ کوکلہاڑے کی ضرب سے بچاسکنے والے ۔وہ ان پرایک حقارت کی نظر ڈالتا ہوابڑے دروازے پرجاپہنچا ۔دربان اس کاخوف پہچانتا تھا، اورپھر اس کے لیے دروازے کھلتے چلے گئے اورچند منٹوں کے بعد بڑے کاہن کے سامنے کھڑا تھا۔ کاہن کواسے دیکھ کراعتبار نہ آیا اس کاخیال تھاکہ اس کوقتل کردیا گیا ہوگا ،مگر ان کاایلچی ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ان کے سامنے تفصیل سے سفر کے حالات بیان کیے کیسے گیا؟کہاں کہاں سے گزرا؟۔کاہنوں کے ہونٹوں پرمسکراہٹ چھاگئی ۔بشاشت ان کے چہروں سے عیاں تھی ۔ہماری آزادی کاوقت آگیا ہے، خلیفہ کی طرف سے واضح حکم ہے کہ قاضی کے سامنے اس مقدمہ کوپیش کیا جائے ،کاہنوں کومکمل آزادی ہوگی کہ وہ اپنے دلائل دیں ، مدعاعلیہ قتبیہ بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا اورپھر قاضی جوفیصلہ دے اسے نافذ کیاجائے ۔

اورپھر و ہ دن آگیا جس کااہل سمر قند کوانتظار تھا۔بے شمارلوگ اس تاریخی مقدمے کی کاروائی سننے کے لیے چلے آئے ۔عدالت مسجد میں لگی ہوئی ہے ،وہ کاہن جن کوکبھی کسی شخص نے نہ دیکھا تھا مقدمہ کی پیروی کے لیے حاضر ہیں ، مسلمانوں کاسپہ سالار ،امیر اورفاتح قتبیہ بھی حاضر ہے۔ سب کے سب قاضی کے منتظر ہیں۔

کاہن کس بات کی امید اورمقدمے لے آئے ہیں ؟ذراغورکیجئے ،یہ کہ ایک فاتح قوم مفتوح علاقوں سے نکل جائے ،مقدمہ جس شخصیت پردائر کیاگیاہے وہ عظیم قائداور سپہ سالار ہے ،نگاہیں مسجد کے دروازے کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ کب قاضی داخل ہوتاہے، حاضرین کوبہت زیادہ انتظار نہیں کرناپڑتا، ایک چھوٹے قداورنحیف جسم والاشخص ،معمولی لباس پہنے ،سرپرعمامہ رکھے ہوئے دروازے سے داخل ہوتا ہے، اس کے پیچھے اس کاغلام ہے، لوگوں میں سناٹا چھاگیا ہے، بعض نے اپنی انگلیاں منہ میں دبالی ہیں ۔ اچھا یہ ہے مسلمانوں کاقاضی ،یہ خلیفہ اورسپہ سالار قتبیہ بن مسلم کے خلاف فیصلہ دے گا۔

قاضی مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشت سنبھالتا ہے، اس کاغلام اس کے سرپر کھڑا ہے ،بغیر کسی لقب کے امیر کا نام لے کراسے بلایا جارہا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے حاضر ہو،امیر شہر حاضر ہوا ،عدالت نے اسے بیٹھنے کااشارہ کیا اوراب غلام کاہنوں کے سردار کوبلوایا گیاہے،جوامیر کے ایک طرف بیٹھ گیا ہے اوراب عدالت کی کاروائی شروع ہوتی ہے۔

قاضی اپنی نہائت پست آواز میں کا ہن سے مخاطب ہے: بتاﺅ تم کیا کہتے ہو ؟
اس نے کہا:قائد عصر قتبیہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوئے ،اعلان جنگ نہیں کیا اور ہمیں اسلام کی دعوت بھی نہیں دی گئی۔“

قاضی نے اب امیر کی طرف دیکھا کہ تم کیا کہتے ہو ؟ اس نے قاضی کو دیکھا ور گویا ہوا :”لڑائی تو دھوکا ہوتی ہے، یہ ملک بہت بڑا ہے ،اس کے باشندوں کواللہ تعالٰی نے ہماری وجہ سے کفر وشرک سے محفوظ فرمایا ہے اوراسے مسلمانوں کی ملکیت اوروراثت میں دے دیاہے۔“

قاضی :کیاتم نے حملے سے پہلے اہل سمر قند کواسلام کی دعوت دی تھی ،جزیہ دینے پرآمادہ کیاتھا یادونوں صورتوں میں انکار پرلڑائی کی دعوت دی تھی ؟
سپہ سالار :نہیں ایسا تونہیں ہوا۔
”توگویا آپ نے اپنے قصور کااعترا ف کرلیا؟“
اب آگے قاضی کے الفاظ پر غور کریں:
”اللہ رب العزت نے اس امت کی مدد اس لیے کی ہے کہ اس نے دین کی اتباع کی اوردھوکادہی سے اجتناب کیا۔“
”اللہ کی قسم !ہم اپنے گھر وں سے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلے ہیں،ہمارا مقصود زمین پرقبضہ جمانا نہیں ہے۔“
”اورنہ حق کے بغیر وہاں حکومت کرناہمارا مقصد ہے ۔ میں یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں۔“
”اورشہر اس کے اصل باشندوں کوواپس کریں،پھر ان کودعوت دیں ، جنگ کاچیلنج دیں اوران سے لڑائی کااعلان کریں ۔“

اہل سمر قند اورکاہنوں نے اس کافیصلہ سنا ،ان کے کانوں اورآنکھوں نے جوسنا اوردیکھا اس پریقین نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے سوچا ہم کہیں خواب تونہیں دیکھ رہے۔قاضی نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ بہت سوں کوتوپتہ ہی نہ چلاکہ عدالت برخواست ہوچکی ہے اورقاضی اورامیر روانہ بھی ہوچکے ہیں۔

ہمارا سمر قند ی (مسلم )سفیر بڑی حیرت سے بڑے کاہن کی طرف دیکھ رہا ہے ۔اس کے چہرے کے تاثرات کوخوب غور سے دیکھتا ہے ۔چہرے کے رنگ بدل رہے ہیں، وہ گہری سوچ میں مبتلاہے، بڑے کاہن نے اپنے دماغ پرزوردیناشروع کیاہے ، اس کی آنکھیں بند ہوگئی ہیں، اس نے اپنی سابقہ زندگی پر غور کرناشروع کیاہے، اپنے عقیدے اورمنہج کے بارے میںسوچتا ہے:کتناعجیب وغریب عقیدہ ہے ،اس کادائرہ کتنا مختصر اورچھوٹا ہے، جوصرف کاہنوں کے درمیان گھومتا ہے؟اوراب اس کاذہن دین اسلام کے حوالے سے سوچ رہاہے ، اس کادائرہ کتنا وسیع اوربڑا ہے، خیر سے بھر پور،عدل وانصاف کرنے والا دین ، جس کی بلندیوں کوسورج کی شعاعیں اور چاند کی روشنی بھی چھونے سے قاصر ہیں، وہ آنکھیں بند کرکے کتنی ہی دیر بیٹھا سوچتا رہتا ہے ، اس کا ذہن اورفکر مسلسل بدل رہا ہے ،اس نے سوچامیں کب تک اندھیروں میںرہوں گا؟روشنی توبڑی واضح ہے، یقینا اسلام عدل وانصاف کادین ہے اس میںچھوٹا بڑاسب برابر ہیں، آج عدالت میںسب لوگوںنے دیکھا قاضی کے سامنے حاکم کس طرح سرنگوں ہوکر بیٹھا تھا، کیاہمارابادشاہ اس طرح عدالت کے سامنے پیش ہوسکتا ہے ؟ وہ ابھی اسی غوروفکر میںتھا کہ اسے گھوڑوں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں، لوگ بازاروں سے گزررہے تھے ،شوربرپا تھا، اس نے آنکھیں کھولیں ،آوازوں کی طرف کان لگائے اورپھر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شورکیسا ہے؟

اسے بتایا گیا قاضی کے فیصلے پرعمل درآمد شروع ہوچکا ہے اورفوجیں واپس جارہی ہیں، وہاں وہ عظیم افواج جن کے سامنے یثرب سے لے کر سمرقند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی ،جنہوں نے قیصر وکسٰری اورخاقان کی قوتوں کوپاش پاش کرکے رکھ دیا ،جوطاقت بھی مسلمانو ں کے راستے میں آئی دست بردار ہوگئی۔ آج صبح کی بات ہے ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام تھا، اس نے مقدمہ کی سماعت کی ،چند منٹو ں کی سماعت، عدالت میں دوطرفہ بیانات سنے ،سپہ سالار کااقرار اورپھر تین فقروں پرمشتمل فیصلہ ،مسلمانوں کے امیر کوعدالت نے شہر خالی کرنے کاحکم دے دیا، عدالت کے حکم کے مطابق وہ باقاعدہ چیلنج دیں گے اورپھر دوبارہ لڑائی کریں گے ۔کاہن اپنے ساتھیوں کی باتیں سنتاجارہا ہے اورپھر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا: کیا اہل سمر قند اس سیل رواں کے سامنے ڈٹ سکیں گے ؟کیا وہ نور اسلام کامقابلہ کرپائے گا؟

نہیں ،ہر گز نہیں !رب کا فیصلہ آچکا ہے کہ ظلم وستم کی رات کو ختم ہونا ہے ،دنیا پر نئی فجر طلوع ہو رہی ہے،اس نور کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا ۔اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پوچھا : تمہاری کیا رائے ہے؟ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟کیا ہم ان کا مقابلہ کر سکیں گے ؟ ارے جواب کیوں نہیں دیتے ؟اس نے پکارا !سمر قندی مسلم ایلچی زور سے چلّایا :ساتھیو!میرا فیصلہ اور مشورہ سنو۔کان اس کی طرف لگ گئے ۔اس نے کہا:
”میں گواہی دے چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔“

اب بڑے کاہن کی یہ کہنے کی باری تھی: اورمیںبھی ”گواہی دیتاہوں اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اورمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اس کے بندے اوررسول ہیں“اورپھر چشم فلک نے دیکھا کہ سمرقند کی گلیاں اورچوک اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہے ہیں،جولوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں، انہوں نے گھوڑوں کی باگیں پکڑلی ہیں، اس ملک سے واپس مت جائیں ہمیں اسلامی عدل و انصاف کی ضرورت ہے، ہم نے اپنوں کاراج دیکھا، ان کے ظلم وستم سے ہم واقف ہیں ،آپ سب لوٹ آئیں ،ہم نے بھی تمہارے دین کوقبول کرلیا ہے اورپھر تھوڑی دیر کے بعد دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوج واپس ایک مفتوح شہر میںداخل ہورہی ہے۔
”کوئی حاکم ومحکوم باقی نہیںرہا ،کوئی غالب اومغلوب نہیںرہا ،تما م کے تمام اسلامی بھائی بن گئے ہیں۔“

کسی عربی کوکسی عجمی پرفضلیت نہیں ،کوئی طاقتور کمزور پربھاری نہیں،ہاں فرق کرنے والی چیز صرف تقویٰ ہے۔اس طرح سمرقند کی سرزمین میں اسلام کی دولت داخل ہوگئی اورپھر اس میںسے یہ دولت کبھی نہیں نکل سکی ۔
sabeel
About the Author: sabeel Read More Articles by sabeel: 32 Articles with 53413 views میرا تعلق صحافت کی دنیا سے ہے 1990 سے ایک ماہنامہ ّّسبیل ہدایت ّّکے نام سے شائع کر رہا ہوں اس کے علاوہ ایک روزنامہ نیوز میل لاہور روزنامہ الجزائر لاہو.. View More