دنیا کی سبھی قوموں کا قیمتی
سرمایہ "بچے‘‘ ہوا کرتے ہیں۔ اگر اس وقت وہ گود کا کھلونا ہیں تو آگے چل کر
وہی مستقبل کے معمار بنیں گے۔ ماں کی گود بچے کی درسگاہ اول ہے۔ اسی عظیم
درسگاہ سے وہ اخلاق حسنہ، اطاعت و فرمانبرداری اور دنیا میں زندگی گزارنے
کے سلیقے، ڈھنگ اور طور طریقے لے کر معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔بچوں کو کامیاب
اور اچھا انسان بنانے کے حوالے سے ہم اپنے بڑے بوڑھوں سے یہ مشہورضرب المثل
سنتے آئے ہیں کہ ’’دو سونے کا نوالہ اور دیکھ شیر کی نگاہ سے‘‘ لیکن سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کیا یہ
قدیم محاورے آج بھی ویسے ہی پْراثر اور سچے ہیں جیسے صدیوں سے سمجھے جاتے
رہے ہیں؟ کیا بچوں میں ہماری اقدار‘ روایات اور قواعد و ضوابط کی پابندی
زیادہ نمایاں نظر آنی چاہیے؟ یا پھر کمپیوٹر اور دیگر شعبہ جات زندگی میں
مہارت ہمارے بچوں کی امتیازی خصوصیات ہونی چاہئیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے
میں شاید ہمارے اپنے ذہنوں میں کوئی واضح خانہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم
اپنے بچوں کو غیرواضح‘ غیرمتوازن اور بے مقصد مستقبل کی طرف دھکیل رہے
ہیں۔آج کے جدید باپ کی عام تصویر یہ ہے کہ اس کے پاس ایک اچھی اور مضبوط
ملازمت ہے۔ وہ اپنے خاندان کو زیادہ سے زیادہ مالی طور پر آسودہ حال دیکھنا
چاہتا ہے اور اس نے دن رات ایک کررکھا ہے لیکن بچوں کیلئے اس کے پاس وقت
نہیں ہے جبکہ ملازمت پیشہ ماں کایہ حال ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کے بچوں کو
جدید دور کی تمام سہولتیں حاصل ہوں۔ معیار زندگی زیادہ سے زیادہ بلند ہو
اور اس کے بچے اچھے اور مہنگے ا سکولوں میں تعلیم حاصل کریں چنانچہ اس دوڑ
دھوپ میں اس کا بھی زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں
کہ بچوں کو اچھے سکولوں میں تعلیم دلانے اور ان کی مادی ضروریات کی تکمیل
کیلئے مالی اور معاشی استحکام ضروری چیز ہے لیکن کیا والدین کی ذمہ داریاں
اور فرائض صرف یہاں تک ہی محدود ہیں؟ کیا اس بات کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ
مہنگی تعلیم دلانے سے وہ ہمیشہ کامیاب اور اچھے انسان بنیں گے؟ افسوس کی
بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت کے پاس سوچنے کیلئے اتنا بھی وقت نہیں
رہا۔بچوں کے بعض ماہرین نفسیات کی رائے میں وہ بچے جو عام ا سکولوں میں
پڑھتے ہیں لیکن انہیں والدین کی خصوصی توجہ حاصل رہتی ہے وہ مہنگے اسکولوں
میں پڑھنے والے بچوں کے مقابلے میں (جنہیں والدین کا وقت نہیں ملتا) کہیں
زیادہ بہتر نتائج حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ سائنسی دور میں جب بچوں کی دلچسپی
کیلئے سینکڑوں تفریحی مشاغل اور ان کے کیریئر کیلئے کئی شعبے موجود ہیں
انہیں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے‘ ایسے حالات میں انہیں والدین کی خصوصی
توجہ کی ضرورت پہلے دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے اور وقت نے
ثابت کردیا ہے کہ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور انہیں نظم و ضبط اور
قواعد وضوابط سکھانے کیلئے مناسب سرزنش یا ڈانٹ ڈپٹ بھی ضروری ہے۔ انہیں
اچھائی اور برائی کی تمیز سکھانی پڑتی ہے اور اس کیلئے کچھ اصولوں کا تعین
کرنا اور انہیں خصوصی وقت دینا پڑتا ہے۔ صرف مہنگے یا اچھے ا سکولوں میں
داخلے دلوا کر یا ان کی دیگر مادی ضروریات کی تکمیل کرکے والدین ان کی تمام
ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار نہیں دئیے جاسکتے۔
ہمیں اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ اس روش سے کہیں ہم اپنے بچوں کو زندگی
کے اصل مقصد سے دور تو نہیں لے جارہے؟ اور کیا اس طریق کار سے بچوں کی بہتر
شخصیت سازی ہونا اور انہیں ایک اچھا انسان بنانا ممکن ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ
موجودہ وقت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جس قدر ہوسکے والدین نہ صرف بچوں کو
اپنا وقت دیں بلکہ ان کی رہنمائی میں ہر طرح سے ان کی مدد کریں تاکہ ان کی
شعوری اور فکری صلاحیتیں زیادہ نکھر کر سامنے آسکیں۔بچوں کی ایک معروف
سائیکاٹرسٹ کا کہنا ہے کہ ’’مادی خوشیوں کی اس چوہا دوڑ میں والدین کی
اکثریت ذہنی اور جسمانی طور پر اس قدر مصروف رہتی ہے کہ وہی بچے ان کی توجہ
سے محروم رہتے ہیں جن کیلئے وہ ساری محنت اور جدوجہد کررہے ہوتے ہیں۔ ان کے
پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ وہ اپنے بچوں کی مصروفیات‘ مسائل اور
دلچسپیوں اور مشاغل وغیرہ کے بارے میں جان سکیں۔ چنانچہ لازمی طور پر بچے
نہ صرف اچھائی اور برائی کے تصور سے آگہی حاصل نہیں کرپاتے بلکہ کامیاب
شخصیت کی تعمیر کیلئے دیگر کئی بنیادی اور انتہائی ضروری چیزوں سے بھی
ناواقف رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی ماں اپنے بچے کو صحت کے بنیادی اصول‘ معاشرتی ادب
و آداب‘ لحاظ و مروت‘ بڑوں کی عزت و تکریم‘ چھوٹوں سے محبت جیسی بنیادی
باتیں نہیں سکھاتی تو اس کا بچہ کبھی بھی ایک اچھا انسان نہیں بن سکتا۔
ایسا بچہ جسے اس کے ماں باپ نے یہ ساری باتیں سکھائی ہوں وہ اختلافی
معاملات میں بڑوں سے ناراضگی اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ تو کرسکتا ہے لیکن وہ
گستاخی کی حد تک نہیں اترتا۔ ایک عام گلی کے بچے اور شرفاء کے بچوں میں یہی
اصل فرق ہوتا ہے یہی وہ اہم نکتہ ہے جسے والدین کو اچھی طرح ذہن نشین
کرلینا چاہیے۔بہت چھوٹی عمر ہی سے بچوں کو ان کے کیریئر کے بارے میں اعتماد
میں لیں انہیں بتائیے کہ اگر کوئی ڈاکٹر انجینئر جج‘ پروفیسر وغیرہ بننا
چاہتا ہے تو اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں اس طرح
فیصلے کیا کریں کہ بچوں کو فیصلے میں شرکت کے ساتھ اپنے بااختیار ہونے کا
بھی احساس ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان سے بھی بڑوں جیسا سلوک اور رویہ اختیار
کیا جائے۔ آپ کا کمال یہ ہے کہ ان سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت آپ
انہیں محسوس نہ ہونے دیں کہ کوئی فیصلہ ان پر مسلط کیا جارہا ہے ورنہ بچوں
میں غصہ‘ ناراضگی‘ اور اعتماد کی کمی جیسی چیزیں پیدا ہونے لگتی ہیں جو بہت
زیادہ بڑھ جائیں تو بچوں میں کئی نفسیاتی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی
ہیں۔والدین کا کام ہے کہ بچوں کی سرگرمیوں پر ہمیشہ نظر رکھیں اور اگر ان
میں کوئی ایسی منفی سرگرمی کو پروان چڑھتا دیکھیں تو فوراً اس کی روک تھام
کریں۔ بچوں کی تربیت اس نہج پر ہونی چاہیے کہ ان کی دلچسپیوں کا محور
تعمیری اور مثبت سرگرمیاں ہوں یہ بات والدین کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ
’’شیرخوار بچے کے مقابلے میں چھ سات برس کے بچے پر کہیں زیادہ توجہ دینے
اور نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس عمر کا بچہ سوچنے اور محسوس کرنے
کی واضح صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ |