بچے کی پہلی اور مستقل درسگاہ…………خاندان

جب ہم خاندان کی بات کرتے ہیں تو فوراً ذہن میں جو تصور آتا ہے وہ یہ کہ ایک باپ ہے، ایک ماں ہے اور کچھ بچے ہیں جو ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں۔ یہی حقیقت میں خاندان کی تعریف ہے یعنی:
A social unit living together is a family.

زیادہ بہتر انداز میں انسانوں کا ایسا گروہ جن کے درمیان خون کا رشتہ ہو اور وہ اکٹھے رہ رہے ہوں، خاندان کہلاتا ہے۔ لوگوں کے رہنے، اُن کی بود و باش، افراد کی تعداد اور تعلق کے حوالے سے خاندان کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایسا خاندان جہاں دو اشخاص بطور میاں بیوی رہ رہے ہوں اور بقیہ تمام لوگ ان کی اولاد ہوں مرکز ائی خاندان (Congagal or Nuclear Family) کہلاتا ہے۔

ایسا خاندان جس کی تین نسلیں ایک مکان یا ایک احاطے میں رہ رہی ہوں مشترکہ خاندان (Joint family) کہلاتا ہے۔ عام طور پر اس خاندان میں دادا، دادی، ماں، باپ اور بیٹا، بیٹی شامل ہوتے ہیں۔ ایسا خاندان جس کی بہت سی نسلیں ایک مکان یا ایک ہی احاطے میں مقیم ہوں اورمشترکہ طور پر رہ رہی ہوں (Extended family) کہلاتا ہے۔ اس خاندان کے افراد میں دادا، دادی، ماں، باپ، چچا، چچی یا اسی طرح کے دوسرے رشتہ دار اور اُن سب کے بچے شامل ہوتے ہیں۔

اینتھروپو لو جسٹ (Anthropologist)کہتے ہیں کہ ایک روایتی سوسائٹی میں خاندان سب سے پہلی معاشی اکائی (Economic Unit) ہے۔ ہر ادارے کی ایک خاص بات ہوتی ہے اور کسی ادارے کی بنیادیں اور بناوٹ جتنے اچھے ہونگے ادارہ اتنا ہی بہتر اور شاندار ہوگا۔ خاندان بھی ایک ادارہ ہے اسے بھی اچھی بناوٹ، استحکام اور بہتر بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی خاندان کی بناوٹ اور بنیادیں اگر اچھی نہیں ہوں گی تو خاندان تباہی کی طرف گامزن ہوگا۔ موجودہ دور میں خاندان کی اچھی بناوٹ اور مضبوط بنیادوں کے لیے خاندان کی نئی نسل کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو کسی بھی خاندان کو معاشرے میں اچھا مقام دلانے میں مددگار ہوتاہے۔

دنیا میں ایک عرصے تک یہ تصور تھا کہ بہت ساری معلومات کسی ذہن میں اگر بھر دی جائیں تو ذہن تعلیم یافتہ ہو جاتا ہے۔ استاد بغیر سوچے سمجھے، بچے کے میلان، بچے کے رحجان اور اس کے حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بہت سی چیزوں کا رٹا لگواتا تھا اور جب بچہ ان چیزوں کو فر فر بیان کرنے لگتا تو اسے تعلیم یافتہ قرار دے دیا جاتا۔ اس طریقے سے تعلیم یافتہ قرار دیے جانے والے بچوں میں بہت سی خامیاں تھیں۔ وہ بچے نہ تو اچھے شہری تھے اور نہ ہی اچھے انسان۔ بچوں کی اس بہت بڑی خامی کو دیکھ کر ہمارے بہت سے نام نہاد دانشوروں نے تربیت کی کمی کا رونا رویا۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح بندر کو یا طوطے کو تربیت دی جاتی ہے اسی طرح انسان کی بھی تربیت کی جائے۔ مگر یہ تجربہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔ اک خاص طرز پر تربیت یافتہ لوگ مخصوص دائرہ کار سے باہر نکلتے ہی نہیں۔ ان کی سوچ، تربیت کی حد سے باہر ہی نہیں نکلتی۔ لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے۔ تعلیم کا تصور بالکل الگ اور نیا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق تعلیم ایک طرز زندگی ہے۔ بچے کے ذہن میں بہت سی معلومات بھر دینا خواندگی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کا ایک معاون عمل ہے۔ اسی طرح تربیت بھی تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے۔ نئے تصور کے مطابق بچے کی شخصیت میں ایک فطری بے ساختگی ہوتی ہے۔ تعلیم بچے کی نشوونما اسی فطری بے ساختگی کے مطابق کرتی ہے۔ اسے ایک اچھا شہری، ایک اچھا انسان اور معاشرے کا ایک مفید کل پرزہ بناتی ہے۔

ایرک ہوفر (Eric Hoffer) کے مطابق تعلیم کا اصل مقصد کسی بچے کے اندر اس کی مرضی کو بیدار کرنا ہے، اسے سیکھنے کے قابل بنانا ہے۔ اچھی تعلیم پڑھے لکھے لوگ نہیں بلکہ پڑھنے والے لوگ مہیا کرتی ہے۔ تعلیم ایک ایسا معاشرہ دیتی ہے جہاں دادا، باپ اور بیٹا سبھی طالب علم ہوتے ہیں اور مل جل کر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

این رنڈ (Ayn Rand) کہتے ہیں کہ تعلیم کا واحد مقصد یہ ہے کہ بچے کو ذہنی طور پر اس قابل بنا دے کہ وہ معاملات کو سلجھانا سیکھ لے اور زندگی گزارنے کا طریقہ جان جائے۔ اسے سوچنے، سمجھنے اور جاننے کی صلاحیتیں دے، اسے اس قابل کر دے کہ جو علم وہ حاصل کرے اس کی مدد سے مزید علم کو فروغ دے۔ کورل این (Corol Ann) نے کہا ہے کہ تعلیم کا مقصد بچے کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔موجودہ جدید نظام تعلیم کے بانی مشہور ایجوکیشنسٹ جان ڈیوی کہتے ہیں تعلیم ایک مسلسل تجربہ ہے۔ ایسا تجربہ جس سے مزید تجربات جنم لیتے ہیں اور ایسے مزید تجربات جن سے اور تجربات حاصل ہوتے ہیں۔

چونکہ خاندان کا بنیادی مقصد نسل انسانی کو آگے چلانا اور پید اہونے والے بچے کو تحفظ اور تعلیم دینا ہوتا ہے۔ اس لیے بچے کی نشوونما میں خاندان کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ سکول میں بہت سے بچوں کو ایک استاد ایک ہی طرح پڑھاتا اور ایک جیسی تربیت کرتا ہے، مگر اس سارے عمل کا اثر ہر بچے پر مختلف ہوتا ہے۔ استاد کی دی ہوئی تعلیم بالکل ایک جیسی ہوتی ہے مگر ہر بچہ اسے اپنے انداز میں قبول کرتاہے جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہر طالب علم ایک مختلف خاندان سے تعلق رکھتاہے۔ اس کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اپنے والدین کے ساتھ مختلف انداز میں ہوئی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ تمام طالب علم سکول کی تعلیم کا اثر بھی مختلف انداز میں قبول کرتے ہیں۔

بچہ، سکول اور والدین ایک مثلث کی مانند ہیں۔ جس کا آپس میں جڑا ہونا لازم ہے۔ بچے کی بہتر تعلیم کے لیے خاندان کا سکول میں بچے کی حرکات، کارکردگی اور سیکھنے کے عمل پر گہری نظر رکھنا اور سکول کے معاملات میں دلچسپی لینا بہت ضروری ہے۔ وہ خاندان جو بچے کی نشوونما اور حصول علم میں سکول سے تعاون نہیں کرتے عام طور پر ان کے بچے بگڑے ہوتے ہیں۔ خاندان اگر بچے کے معاملات میں دلچسپی نہ لے تو سکول بھی بچے کی بہتر نشوونما نہیں کر سکتا۔

بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں اپنے خاندان سے جڑا ہوتا ہے۔ خاندان کے اطوار اور عادات کا اس کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ گو تقریباً بارہ (۱۲) سال کی عمر کے بعد بچہ باہر کے حالات سے زیادہ اثر لینے لگتا ہے۔ مگر ماں باپ اور بہن بھائیوں کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ خاندانی عادات اس کی ذات میں پوری طرح رچ بس چکی ہوتی ہیں۔ نیکی، ہمدردی، پیار، بھائی چارہ، انصاف اور سچائی جیسے جذبات جن کا اصل منبع مذہب ہوتا ہے عموماً خاندان کے ہی عطا کردہ ہوتے ہیں۔ جو بچے برائی، نفرت، ناانصافی، جبر اور ظلم جیسے جذبوں کو پروان چڑھاتے ہیں اس کی وجہ بھی ان کا خاندانی ماحول ہی ہوتا ہے۔ جس کا اثر ان کے ذہنوں پر وقت کے ساتھ نقش ہو جاتا ہے۔

عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ جب سکول میں داخل ہوتا ہے تو اس کا ذہن ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے جس پر کچھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ بچے کو جو بھی سیکھنا ہے، وہ سکول سے سیکھناہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ سکول میں داخل ہونے تک بچے کی ذہنی استبداد ایک حد تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ اسے اچھائی اور برائی کا پتہ ہوتا ہے۔ وہ استاد کے مثبت اور منفی طرز عمل میں تمیز کر سکتا ہے اور اس ساری صورت حال کو محسوس کرکے اپنا رد عمل بھی دیتا ہے۔

بچے کے ابتدائی پانچ یا چھ سال تک والدین کو اسے اچھی تربیت اور بہتر ذہنی نشوونما دینے کے لیے گھر کے ماحول کو انتہائی سازگار رکھنا بہت ضروری ہے۔ سائنس تو یہاں تک کہتی ہے کہ بچہ ماں کے رحم میں بھی بہت سی باتوں کا اثر لیتا ہے اور وہ اثر دائمی ہوتا ہے۔ اداس رہنے والے ماں باپ کا بچہ پیدا ہی اداس ہوتا ہے۔ لڑنے جھگڑنے والے ماں باپ کا بچہ پیدائشی چڑچڑا اور بدمزاج ہوتا ہے۔ خوش رہنے والے ماں باپ کا بچہ پیدائشی طور پر ہنس مکھ ہوتا ہے۔ پیدائش کے بعد گھر کا ماحول بچہ پوری طرح محسوس کرتا اور اس کے اثرات قبول کرتا ہے۔

کوئی سکول یا کوئی درسگاہ ایک اچھے گھر کا نعم البدل نہیں ہوتی۔ تعلیم سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تین سال کے بچوں کو گھر جیسا ماحول دینے اور بہتر تربیت کے لیے Montessori اور Kindgergarton جیسے تجربات کیے مگر کوئی بھی درسگاہ گھر جیسی ثابت نہیں ہو سکی۔ میرے ذاتی خیال میں اگر ماں باپ پڑھے لکھے ہیں اور بچے کو گھر میں ابتدائی تعلیم دے سکتے ہیں تو بچے کو پانچ سال کی عمر سے پہلے سکول بھیجنا زیادتی ہے اور اگر بھیجنا بھی ہوتو ابتدا میں ایسے سکول کا انتخاب کیا جائے جس کا دورانیہ مختصر ہو یعنی سکول میں بچے کا قیام دو یا تین گھنٹوں سے زیادہ نہ ہو۔ ماں باپ اس سکول میں بچے کی مصروفیت کے بارے ہمہ وقت باخبر ہوں۔ سکول کا نصاب بھی کھیل کھیل میں تعلیم والا ہو۔ پڑھانے والے بھی تعلیم اور اس کے مفہوم سے آشنا ہوں۔ وگرنہ اوائل عمری ہی میں تعلیم بچے کے لیے ایک بوجھ بن جائے گی۔

سکول داخل ہونے سے پہلے بچے نے اپنا تمام وقت گھر میں والدین اور بہن بھائیوں میں گزارہ ہوتا ہے جس سے وہ مانوس اور متاثر ہوتا ہے۔ اس وقت تک اس کی شخصیت کی تعمیر ہی اس کے والدین، بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ چنانچہ سکول میں قدم رکھتے وقت اس کے ذہن میں، اس کے دل و دماغ میں اس کے خاندان کا ایک پورا کلچر سمایا ہوتا ہے جو اس قدر پختہ ہوتا ہے کہ بچہ کسی طرح بھی اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ استاد سکول میں بچے کو کچھ وقت اور مخصوص مدت پڑھاتا ہے، پھر نیا استاد آ جاتا ہے۔ دونوں اساتذہ کا طرز عمل مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے بچے کے ذہن پر استاد کا اثر خوشبو کی طرح ہوتا ہے۔ کوئی خوشبو بہت دیرپا ہوتی ہے اور کوئی ہوا کے جھونکوں میں اڑ جاتی ہے۔ لیکن خاندانی پس منظر بدلتا نہیں۔ خاندان عمر بھر بچے کے ساتھ رہتا ہے۔ اچھا استاد بچے کی بہترین نشوونما کے لیے اس کے خاندانی حالات اور ماحول کو بھی نظر میں رکھتا ہے۔

ایک اچھے معاشرے کے لیے مستحکم خاندانوں کی ضرورت ہے اور ایک مستحکم خاندان کے لیے بچے کی اچھی تعلیم۔ اس لیے معاشرے کی بھی ضرورت ہے کہ خاندان اپنے بچے کی تعلیم پر پوری توجہ دے، اس کے سکول میں گزارنے والے وقت پر پوری نظر رکھے۔ بچے کی بہترین نشوونما کے لیے سکول سے تعاون کرے۔ تا کہ بچہ خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل ہو۔ ایک اچھا شہری اور ایک اچھا انسان بن سکے۔ سکول کا حقیقی مقصد ہی بچے کے ذہن میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا اور اسے ایک مفید شہری اور اچھا انسان بنانا ہے۔

خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت کی شادی سے ہوتی ہے۔ پھر بچے ہوتے ہیں او ریوں خاندان کا مرکز یعنی ایک گھر وجود میں آتا ہے۔ عورت اور مرد مل کر ان بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ان کی حفاظت کرتے ہیں، ان کی نشوونما کرتے ہیں، تعلیم دلواتے اور دیتے ہیں، ان کے جوان اور خود کفیل ہونے تک ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ گھر کا ہر فرد اپنی استطاعت اور ضرورت کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتا ہے اور کوئی کسی کا بار احسان نہیں ہوتا۔ عموماً مرد پیسے کما کر لاتا ہے۔ بیوی گھر کے کاموں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ شوہر اور بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ اسی طرح خاندان اپنی رسوم و روایات ترتیب دیتا ہے جو ایک نسل سے دوسری اور دوسری سے تیسری کو منتقل ہوتی ہے۔

بچے کی پہلی تعلیم گھر سے شروع ہوتی ہے۔ خاندان بچے کی پہلی اور مستقل درسگاہ ہوتی ہے۔ بچے میں فطری صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ماحول سے فوری اثر لیتا ہے۔ وہ شعوری اور غیر شعوری دونوں طرح سے خاندانی اثرات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتا ہے۔ جو خاندان اپنا اتحاد برقرار نہیں رکھ سکتے یا غربت اور جہالت کے باعث بچوں پر توجہ نہیں دیتے ان کے بچے بگڑ جاتے ہیں۔ بچے کی بہتر تربیت کے لیے چند باتیں ہر خاندان کے لیے بہت ضروری ہیں۔

کوشش کریں کہ آپ کی جائے رہائش ایسی ہو جہاں تازہ ہوا، صاف پانی، سورج کی روشنی اور اچھی خوراک میسر ہو۔

بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے اس کی عمر کے حساب سے اسے کچھ کھلونے لا کر دیں۔ جب وہ بڑا ہو تو اُسے مختلف کھیلوں کی طرف مائل کریں۔ ۔لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ کھلونے لے کر دیتے وقت ہر وہ چیز نہیں لے کر دینی جو بچہ کہہ دے۔ بچے کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ آپ اُس کی غلط یا غیر ضروری فرمائشوں کو رد کر سکتے ہیں۔ ورنہ بچے کے خود سر اور نافرمان ہونے کا خدشہ ہے۔کھیل کھیلتے ہوئے بھی بچے کو کھیل کے سماجی اصولوں سے پوری طرح آگاہ کریں۔

بچے کو سکول میں داخل کراتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں داخل ہونے والے بچے ایسے والدین کے ہیں جن کا ماحول اور طرز زندگی بھی آپ جیسا ہے۔ ماحول اور طرز زندگی کا فرق بچے میں احساس کمتری یا احساس برتری کا باعث بنتا ہے جو بچے کی شخصیت کو بری طرح مسخ کرتا ہے۔

بچے کے اندر ایک فطری اشتیاق ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کو جاننا چاہتا ہے، اس کے سوالوں پر اس سے ناراض ہونا غلط ہوتا ہے اس کے ہر سوال کا اچھے انداز میں جواب دینا اور اگر سوال کرنے کے انداز میں کوئی خامی نظر آئے تو اسے صحیح انداز میں سوال کرنا سکھانا بھی ماں باپ کا فرض ہے۔

بچے کی تعلیم کے لیے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ معقول وقت بچے کے لیے بھی مخصوص کریں۔ ہفتے میں ایک آدھ بار اُس کے سکول جائیں۔ اساتذہ سے ملیں اور سکول کے معاملات کا جائزہ لیں۔ روزانہ شام کو بچے کے سکول کا کام ضرور چیک کریں۔

اس بات کا پوری طرح جائزہ لیں کہ تعلیم کی وجہ سے بچے میں اچھی عادات نشوونما پا رہی ہیں یا نہیں۔ بچے کو دیانتدار، راست باز، دھیما اور قربانی کے جذبوں سے سرشار ہونا چاہیے۔ اس کی کوئی عادت ایسی نہیں ہونی چاہیے جو اس کی شخصیت پر منفی اثر کاموجب ہو۔

بچہ کوئی اچھا کام کرے تو یقینا انعام کا حقدار ہوتاہے۔ انعام اس کے اندر (Do more) کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
لیکن انعام ہمیشہ مادی شکل میں دینا نقصان دہ ہوتا ہے۔ تعریف بھی ایک انعام ہے۔ بچے کے اچھے کام پر اس کی تعریف کرنے سے بچہ ایک روحانی مسرت محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح بہت سی غلط حرکات پر سزا بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ مگر سزا ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ بچے کو محسوس ہو کہ آپ کسی چیز کا بدلہ لے رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ سزا سے پرہیز کیا جائے اور جب دی جائے تو اس حد تک کہ بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔

ماں باپ کا فرض بچے کی بہترین اخلاقی تربیت کے لیے اسے صفائی، پاکیزگی، دین اور اپنے کلچر سے روشناس کرانا ہے۔ بچہ کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرے مگر اس کی شخصیت کی تعمیر کے لیے اس کی پہلی اور مستقل درسگاہ اس کا خاندان ہی ہوتا ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501238 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More