جمہوریت اور گڈ گورننس خوش نصیب قوموں کے حصے میں آتی
ہیں۔ایسے معاشرے میں بسنے والے لوگ کتنے آزاد،خود مختیار اور خوش قسمت ہوتے
ہیں۔ جہاں ہر کوئی عوام کی عدالت میں جواب دہ ہوتا ہے۔جہاں مفاد عامہ کا
راج ہوتا ہے۔جہاں قوانین عوام کی سہولت کا سامان ہوتے ہیں۔جہاں کی پالیسیاں
عوام دوست ہوتی ہیں۔ہمیں دنیا کے کئی ملکوں میں گڈ گورننس دیکھنے کو ملتی
ہے۔یہی جمہوری طرز معاشرت کا حسن ہے۔سننے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں پنجاب
میں بھی گڈ گورننس قائم ہو چکی ہے۔خادم اعلیٰ کی قائم کردہ گڈ گورننس پہ
روشنی ڈالنا اس لیئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی
پارٹی کی قائم کردہ گڈ گورننس ہے جسے عوام نے بھاری مینڈیٹ سے نوازا ہے۔کیا
عوام کا یہ فیصلہ درست ہے؟کیا یہ گڈ گورننس صحیح معنوں میں رائج ہے یا
کھوکھلے نعرے کے سوا کچھ نہیں؟اچھی اور مثالی طرز حکمرانی کی پہلی علامت یہ
ہوتی ہے کہ وہاں کی عوام کو حکومت کی مہیاکردہ سہولیات اور سروسز تک میرٹ
پر اور شفاف طریقے سے رسائی حاصل ہوتی ہے۔جہاں شفافیت کا راج ہوتا ہے اور
کرپشن دور دور تک نظر نہیں آتی۔پنجاب میں غریب طبقہ چند مسائل سے دوچار ہے۔
جن کا موازنہ یہاں کی گڈ گورننس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔اگر عوامی مسائل
کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ گڈ گورننس کتنے پانی میں ہے۔غریب
لوگوں کے بہت چھوٹے چھوٹے مسائل ہوتے ہیں ۔کیونکہ غریب کے پاس نہ تو بڑی
بڑی گاڑیاں ہیں،نہ بنگلے،نہ کارخانے،نہ زمینیں نہ ہی مٹی کے بھاؤ لیز پر لی
ہوئی کوئلے اور معدنیات کی کانیں۔غریبوں کے مسائل بہت ہی چھوٹی نوعیت کے
ہوتے ہیں لیکن خادم اعلیٰ کی رعیت کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ دیکھ کر دل
خون کے آنسو روتا ہے۔یوں لگتا ہے پنجاب کی افسر شاہی اور بیوروکریسی نے
اپنے مضبوط شکنجے میں عوام کو جکڑ رکھا ہے ۔جہاں روز انکے ارمانوں کا قتل
عام ہوتا ہے۔اگر بچے کا یونین کونسل میں پیدائش کا لیٹ اندراج کرایا جائے
تو پوری ضلعی انتظامیہ اس کے پراسس کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے۔سیکرٹری
یونین کونسل سے لیکر پٹواری،گرداور،ایڈ منسٹریٹر،ای ڈی او ہیلتھ،ایم ایس،اے
سی تک کے دفتروں کے چکر لگاتے لگاتے ایک غریب مزدور اور کسان کے کئی مہینے
لگ جاتے ہیں۔کبھی اس غریب سے دل کا حال پوچھا جائے جس نے اپنے بچوں کا سکول
کا داخلہ بھیجنے کیلئے ب فارم بنوایا ہو،کسی طالب علم کی تعلیمی اسناد پہ
معمولی سی غلطی درست کرانے کیلئے وکیل کرنے پڑتے ہیں اور مہینوں تعلیمی
بوڑز کی تاریخیں بھگتنا پڑتی ہیں۔زمینوں کا انتقال کرانا ہو تو کیا کچھ
نہیں کرنا پڑتا اور پٹواریوں کی بڑی بڑی گاڑیاں انہیں سکیل 7کے دوسرے
سرکاری ملازموں سے یکسر ممتاز کرتی ہیں۔اسی گڈ گورننس کی قائم شدہ صحت کی
سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو ہسپتالوں میں مسیحا ناپید ہوتے جا رہے
ہیں۔پرائیویٹ لیباٹریز،میڈیکل کمپنیوں کی اور عملے کی ملی بھگت سے غریب
مریض تک کو معاف نہیں کیا جاتا۔تھانوں میں ایف آئی آر کن شرائط پر کاٹی
جاتی ہے اور تفتیش کیلئے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی
بات نہیں رہی۔خادم اعلیٰ کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ پنجاب کے
بیروزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔جب اخباروں
میں نوکریوں کا اشتہار آتا ہے تو لاکھوں نوجوان ملک کی خدمت اور رورزگار کی
امید لیکر درخواستیں جمع کراتے ہیں سارا سارا دن دھوپ میں لائنوں میں کھڑے
ہونے کی اذیت برداشت کرتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد پتہ چلتا ہے بھرتی منسوخ
ہو چکی ہے۔نوجوان سوال کرتے ہیں کہ بھرتی نہیں کرنا تو اخبار میں اشتہار
دینے کی زحمت کیوں فرمائی گئی۔شاید یہ توبیچاری عوام ہے جس کا از خودنوٹس
لینے والا بھی کوئی نہیں۔یہ کیسی گڈ گورننس ہے جہاں تیس تیس سال سے سروس
کرنے والے ایسے ملازمین بھی ہیں جو بھاری تنخواہیں لیکر ملکی خزانہ کو
نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ نہ تو جدید پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہیں
نہ کام کرنے کی کپیسٹی ہے۔دفتروں میں سرکاری اہلکاروں کے رویے پیشہ ورانہ
خوبیوں سے خالی نظر آتے ہیں ۔شاید ہی کوئی سرکاری اہلکار ہو جو خود کو عوام
کا نوکر سمجھتا ہو۔اس گڈ گورننس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ لاہور میں میٹرو
بسیں چل رہی ہیں،بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے اور
پسماندہ دیہاتوں اور غریب عوام کیلئے پینے کا پانی میسر نہیں۔ہماری مقدس
ماؤں اور بہنوں کے پیروں پہ چھالے پڑگئے ہیں جو میلوں کا پیدل سفر طے کرکے
دور دراز پہاڑی یا دشوار گزار راستوں سے گزرکر پانی بھر کے لاتی ہیں۔ تعلیم،
زراعت، صحت،پولیس،ریونیو دیگر محکموں میں کوئی تو ہو جو مثالی کارکردگی کی
وجہ سے عوام میں اچھی شہرت رکھتا ہو،کہیں تو ون ونڈو آپریشن سے معمولی
نوعیت کے عوامی کام میرٹ پر کیے جائیں۔اس گڈگورننس کی شان میں گستاخی کی
معذرت لیکن پنجاب کے غیور عوام پیسے کی بھیک نہیں مانگتے،خادم اعلیٰ کے ایک
آرڈر کی بھیک مانگتے ہیں جس پہ کوئی خرچ نہیں آئے گا۔ایسا آرڈ ر جس سے بے
لگام افسر شاہی کے منہ میں لگام آجائے،ایسا آرڈر جہاں عوام سرکاری دفتروں
کے چکر لگاتے لگاتے دم نہ توڑ جائیں،ایسا آرڈر جو محکموں کی دی جانیوالی
سروسز تک عوام الناس کو آسان رسائی فراہم کر سکے۔خاکی وردی پہن کر خادم
اعلیٰ کہلوانا جتنا آسان ہے اتنا ہی آسان خادم اعلیٰ کا یہ آرڈر ہے جس کے
بعد کسی محکمے کے سربراہ اور اہلکاروں میں یہ جرات باقی نہیں رہے گی کہ وہ
عوام کے جائز کاموں میں رشوت بٹورنے کیلئے طرح طرح کے اعتراضات لگائیں۔اور
اگر یہ آرڈر جاری نہ کیا گیا تو پنجاب کے عوام کبھی بھی بیوروکریسی کی
غلامی اور اذیت ناک دفتری پراسس سے آزاد نہ ہو پائے گی۔ |