رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے،مختلف ممالک
میں مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن دنیا بھر
میں افطاری کا سب سے بڑا اہتمام خانہ کعبہ میں کیا جاتا ہے، مسجد نبوی ﷺ کا
افطار دستر خون بھی ساری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ اس ماہ مقدس میں افطار
پارٹیوں کے نام پر خاندان بھر کو ایک دسترخوان پرمل بیٹھنے کا موقع مل جاتا
ہے۔ماہ صیام کا ایک خاص حسن افطار پارٹی ہے۔روزہ کھلوانا ثواب تو ہے ہی مگر
افطاری کے موقع پر ایک دستر خوان پر بیٹھنے سے عزیزو اقارب اور دوست احباب
کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی فضا بھی پروان چڑھتی ہے۔اس ماہ مبارک کی
رونقوں کی بھی کیا بات ہے افطار پارٹی کے موقع پر طرح طرح کے لوازمات تیار
کیے جاتے ہیں ایک طرف خواتین کچن میں افطاری کی تیاری میں مصروف ہوتی ہیں
تو دوسری جانب بزرگ عبادت میں مشغول۔لڑکیاں دسترخوان سجاتی نظر آتی
ہیں۔افطاری کے اوقات میں جہاں دسترخوان رنگا رنگ پکوانوں سے سجا ہوتا ہے
وہیں دوستوں اور احباب کی انکھیں محبت سے دمکتی اورچہرے خوشی سے سرشار نظر
آتے ہیں۔مسلم گھرانوں کی یہ خوبصورت روایت جہاں سب کو آپس میں مل جل کر
بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں مہمان نوازی کی خوبصورت مثال بھی
ہے۔دبئی میں رمضان کا سب سے بڑا دسترخوان کی تیاری، بادشاہ کے ذمہ ہے۔رمضان
کے دوران بادشاہ خوشی خوشی ڈبل شفٹ میں کام کرتے ہیں۔ 150 کلو باسمتی چاول
اور 60 کلو بکرے کے گوشت سے ’کانجی‘ بنانا ان کی ذمے داری ہے۔ وہ کہتے ہیں
کہ پیسہ کمانا ہی ان کا مقصد نہیں ہے بلکہ ہر روز ہزاروں افراد کو یہاں
روزہ کھولتے دیکھ کر بہت سکون ملتا ہے۔مسجد نبوی دنیا بھر کے مسلمانوں کے
لئے انتہائی مقدس جگہ ہے۔ یہاں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد افراد زیارت اور
عبادات کی غرض سے پہنچتے ہیں۔
|
|
سب سے زیادہ افراد دوران حج یہاں کا سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری بار رمضان کے
مہینے میں یہاں سب سے زیادہ افراد آتے ہیں۔ اسی سبب رمضان میں یہاں صفائی
ستھرائی سے لیکر لاکھوں افراد کے سحری اور افطار کے وسیع پیمانے پر
انتظامات کئے جاتے ہیں۔
مکہ اور مدینہ کے علاوہ غالباً دنیا کے کسی اور ملک میں روزہ افطار کرنے کے
اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں روزہ افطار
کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افطار
اجتماع کے انتظامات سنبھالنے والے خدام کی تعدداد پانچ ہزار سے زائدہوتی
ہے۔ملازمین کی تعیناتی کے لئے باقاعدہ ایک ایجنسی کام کرتی ہے جس کی خدمات
میں مسجدِ نبوی کے امور کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ ادارہ سعودی حکمراں شاہ
عبداﷲ کو جوابدہ ہے۔ شاہ عبداﷲ خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں یعنی مسجد
نبوی اور مسجد الحرام مکہ کا’خادم ‘ یا خدمت گزار۔مسجد نبوی میں 10ہزار سے
زائد قالین بچھے ہوئے ہیں جن پر دوران رمضان ہر شام نہایت وسیع وعریض
دسترخوان بچھائے جاتے ہیں جن پر بیٹھ کر لاکھو ں عمرہ زائرئن اور دیگر
افراد بیک وقت زوہ افطار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی پرلطف اور دلکش منظر ہوتا ہے۔
پوری مسجد اس کا صحن اور اردگرد کا تمام علاقہ زورافطار کرنے والوں سے کھچا
کھچ بھرا ہوتا ہے۔پانچ ہزار ملازمین کے علاوہ صاحب حیثیت سعودی شہری روزے
کے انتظامات اپنی جیب سے بھی کرتے ہیں۔ایسے افراد کی تعداد میں سینکڑوں میں
ہے۔ ان افراد کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روزہ دار ان کے
دسترخوان پر روزہ افطار کریں چنانچہ روزہ داروں کو مسجد کے گیٹ سے ہی
باقاعدہ ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے اپنے دسترخوان پر بیٹھایا جاتا ہے۔ اس کام کے
لئے انہوں نے ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جن کا کام صرف روزہ داروں کو
دسترخوان تک لانا ہوتاہے۔
|
|
سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق مسجد نبوی میں
یومیہ ایک لاکھ سے زائد افراد بیک وقت افطار کرتے ہیں۔ یہاں قدیم سعودی
روایات کے مطابق افطار میں روٹی ، دہی، کھجوریں، پانی ، قہوہ اور قماش قماش
کے جوسز اور پھل موجود ہوتے ہیں۔ کچھ افراد سموسوں ، سینڈ وچ اور دیگر اسی
قسم کے دیگر لوازمات بھی رکھتے ہیں جبکہ بسکٹ، بریڈ اور چاکلیٹ تو عام بات
ہے۔ سب سے زیادہ ڈسپلن یہ ہے کہ روزہ کھلنے کے دس منٹ بعد ہی دسترخوان جس
تیزی سے ہٹائے اور قالین صاف کئے جائے ہیں وہ منظر بھی قابل دید ہوتا
ہے۔کئی کئی میٹر طویل پلاسٹک کے دسترخوان اس تیزی اور نفاست سے سمیٹے جاتے
ہیں کہ قالین یا فرش پر ایک چیز نہیں گرتی۔ ساری صاف ستھرائی منٹوں میں
ہوتی ہے چونکہ چند لمحوں بعد ہی نماز مغرب اداکی جاتی ہے۔
پوری مسجد میں آب زم زم سپلائی کیا جاتا ہے۔ مسجد کے امور کی دیکھ بھال
کرنے والے ادارے کے نائب چیئرمین عبدالعزیز الفالح کے مطابق مسجد میں ہر
روز 300سے زائد آب زم زم سپلائی ہوتا ہے۔ زم زم براہ راست مکہ سے مدینہ
لایاجاتا ہے۔
مسجد کے صحن میں نمازیوں کو دھوپ اور بارش سے بچانے کے لئے نہایت بڑی بڑی
اور خودکار الیکٹرک چھتریاں لگائی گئی ہیں۔ ان چھتریوں کی تعداد 250سے
زیادہ ہے۔ سن 2010ء میں پہلی مرتبہ ان کی تنصیب شروع ہوئی تھی۔ صحن میں
چھتریوں کے ساتھ ساتھ پنکھے بھی نصب ہیں جن کی تعداد تقریباً450ہے۔نمازیوں
کے جوتے رکھنے کے لئے مسجد میں جگہ جگہ لکڑی کے باکس اور الماریاں موجود
ہیں تاہم اس سال جوتے رکھنے کے لئے المونیم کے بنے تین ہزار سے زائد نئے
باکسز رکھے گئے ہیں۔اسلام ایک عالمگیر مذہب ہیاور اس کا اظہار وقتاًفوقتاً
مختلف تہواروں ، مہینوں اور عبادات کے ذریعے ہوتا رہتا ہے۔ حج کا موقع ہو
تو دنیا بھر کے مسلمان حج کی ادائیگی کے لئیحجاز مقدس کا رخ کرتے ہیں اور
باقی مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں قربانی ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح رمضان کے
مہینے کا آغاز ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تمام مسلمان اﷲ پاک کی اس نعمت
سے لطف اندوز نہ ہوں۔ پاکستان , بھارت، بنگلہ دیش، جاپان، چین، مشرق وسطیٰ،
امریکہ، یورپ، جنوبی امریکہ، افریقہ،آسٹریلیا اور دنیا بھر کے دیگر ممالک
میں مسلمانوں نے افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کئی ملکوں میں رمضان کی آمد
کی خوشی میں جشن بھی ہوا اور مسلم روزہ داروں نے نماز ادا کر اﷲ پاک سے
رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا کرنے پر شکر ادا کیا۔آئیے ہم آپ کو افطار اور
دیگر عبادات کے روح پرور مناطر کی سیر کراتے ہیں۔ یہ رمضان کی ایک عام سی
صبح کے گیارہ بجے ہیں۔ جگہ ہے دبئی کا مشہور علاقہ سوناپور جہاں واقع ایک
کچن میں تقریباً 11 شیف اور ان کے درجنوں ہیلپرز میں ایک ریس سی لگی ہے۔ یہ
ریس ہے وقت سے آگے نکلنے کی۔انہیں روزہ کھلنے سے بھی کئی گھنٹے پہلے
10جہازی سائز کے برتن بھر کر کھانابنانا ہے۔ مقامی زبان میں اس ڈش کو
’کانجی‘ کہتے ہیں۔سونا پور، ڈیرہ دبئی کا علاقہ ہے اور یہیں’نائف گولڈ سوق‘
نامی سونے کی مارکیٹ میں ’الراشد لوٹا مسجد‘ کے قریب یہ کچن واقع ہے جہاں
ہرروز 3ہزار آدمیوں کے لئے کھانا پکتا ہے۔ پورے متحدہ عرب امارات میں افطار
کا اتنا بڑا انتظام کہیں اور نہیں ہوتا۔گلف نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق
انڈین مسلم ایسوسی ایشن یو اے ای، جو ایمان کلچرل سینٹر کے نام سے رجسٹرڈ
ہے، اس کے جنرل سیکریٹری لیاقت علی کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر افطار
کا اہتمام ایک دو برس سے نہیں پچھلے 35برسوں سے جاری ہے۔کچن میں صبح پانچ
بجے سے کام کا آغاز ہوجاتا ہے جو دن بھر چلتا رہتا ہے، اس کام کو شیفس اور
دیگر 50 افراد ملکر انجام دیتے ہیں۔ اس کام میں کھانا پکانا، اسے پیک کرنا،
لوڈنگ، ان لوڈنگ۔۔سب کچھ شامل ہے۔ انتالیس سالہ انور بادشاہ جو اسی کچن کے
لیبر کیمپ میں باورچی ہیں وہ بتاتے ہیں: ’پچھلے 10 سالوں سے رمضان کے دوران
میں مشکل سے ہی کبھی سویا ہوں گا، اب تو یہ میرے شیڈول کا حصہ بن گیا ہے۔
میرے نزدیک یہ انسانی خدمت ہے۔رمضان کے دوران بادشاہ خوشی خوشی ڈبل شفٹ میں
کام کرتے ہیں۔ 150کلو باسمتی چاول اور 60کلو بکرے کے گوشت سے ’کانجی‘ بنانا
ان کی ذمے داری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیسہ کمانا ہی ان کا مقصد نہیں ہے بلکہ
ہر روز ہزاروں افراد کو یہاں روزہ کھولتے دیکھ کر بہت سکون ملتا ہے۔یہاں
روزہ داروں کو ملنے والے فوڈ پیکٹ میں دلئے کے علاوہ سموسے، کھجوریں، پانی،
فروٹ اور جوسز ہوتے ہیں۔ لیکن، دلیہ یہاں مہینے بھر کے دوران روزہ کھولنے
والے تقریباً ایک لاکھ روزہ داروں کے لئے سب سے زیادہ لطف کا باعث ہے۔
مہینے بھر کے لئے کھجوروں کے تقریباً 500کارٹنز منگائے جانے ہیں، جبکہ ہر
ایک کارٹن کا وزن 10کلو ہوتا ہے۔ یہ سب سامان مسجد میں ہی رکھا جاتا ہے جو
’کویتی مسجد‘ کے نام بھی اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔کانجی کیا ہے؟
|
|
کانجی بھارتی ریاست تامل ناڈو کی مقامی اور روایتی ڈش ہے۔ اصل میں یہ ایک
طرح کا دلیہ ہے۔ لیاقت علی کے بقول، کانجی ایسی ڈشن ہے جو رمضان میں ہر روز
کھائی جاتی ہے۔ دبئی میں یہ کانجی پچھلے 35سالوں سے افطار میں روزہ داروں
کی پسندیدہ خوراک بنی ہوئی ہے۔’یہ سروس سنہ 1979میں شروع کی گئی تھی۔ اس
وقت روزہ داروں کی تعداد تین سال تک صرف 500ہی رہی۔ لیکن، آج یہ تعداد
یومیہ تین سے چار ہزارتک جا پہنچی ہے۔افطار ٹیم کے لیڈر اور جوائنٹ
سیکریٹری محمد طٰحہ کا کہنا ہے کہ کچن کا سارا کام 65افراد ملکر انجام دیتے
ہیں جبکہ جس وقت افطار کے لئے دسترخوان لگ رہا ہوتا ہے ہزاروں لوگ
رضاکارانہ طور پر اس کام میں لگ جاتے ہیں اور تقریباً دوگھنٹے تک کام میں
مصروف رہتے ہیں۔طٰحہ مزید بتاتے ہیں کہ یہاں روزہ کھولنے والے افراد کا
تعلق مختلف ممالک سے ہوتا ہے۔ یہ تمام افراد اپنے اپنے ممالک چھوڑ کر دبئی
میں روزگار کی خاطر مقیم ہیں۔ یہاں بڑی گنجائش موجود ہوتی ہے اور جو لوگ
آخری لمحوں میں بھی یہاں پہنچتے ہیں انہیں بھی ہر چیز مل جاتی ہے۔)دنیا بھر
کی طرح فرانس میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے مساجد میں افطار اور
سحری کے پرتکلف انتظامات کے ساتھ ساتھ عبادات کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی
کمیونٹی کی سارسل اور پیری فیت کی مساجد میں یہاں مقیم مخیر افرادنے افطاری
اور سحری کیلئے انتظامات کیلئے دن مخصوص کررکھے ہیں اس روز وہ مساجد کے
روزمرہ کے نمازیوں کے علاوہ اپنے دوست احباب کوبھی خصوصی طور پرمدعو کرتے
ہیں۔ افطار کے بعد نماز کی ادائیگی اور بعد ازاں پرتکلف کھانے کا اہتمام
کرکے میزبان خوشی اور را حت محسوس کرتے ہیں۔ پیری فیت مسجد کے پیش امام
مولانامحمد صدیق ہیں۔ یہاں کی پاکستانی کیمونیٹی کہتی ہے کہ ہمیں یہاں غریب
لوگوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں موجودمجبور لوگوں کا بھی خیال
رکھنا چاہئے۔ اجتماعی افطاری اور سحری کے موقع پر ملکی ترقی اور خوشحالی
کیلئے خصوصی دعا بھی کرائی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ فرانس کی مختلف مساجد میں
چاند رات تک جاری رہتا ہے۔ امریکہ میں بھی مختلیف خاندان رمضان کی تیاریاں
بہت پہلے سے کرتے ہیں۔ ایک خاتون بتاتی ہیں کہ ،،رمضان سے ایک ہفتہ پیشتر
مَیں نے۵۶ ڈالر میں میدجول کھجوروں کے بڑے باکس کا آرڈر دیا۔ کھجور کے
اشتہارمیں اس کی خوبیوں کی تفصیل کچھ یوں رقم تھی ’’اﷲ کے فضل سے سو فی صد
قدرتی، بہترین اور معیاری‘‘۔ مَیں سوچنے لگی’’ کیا اس قیمت پر یہ بہتر ہوگا۔‘‘
امش کے نام سے معروف قدامت پسند عیسائی کاشت کار طبقہ کے ذریعہ پالے گئے
مرغ اور مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح شدہ حلال فری رینج چکن کے علاوہ جو چیزیں
میری فہرست میں شامل تھیں وہ خشک خوبانی ، مٹھائی بنانے کے لئے ورقی لوئی
اور نصف ملین دوسری چیزیں تھیں کیوں کہ رمضان کے مقدس مہینے کے لئے کھانے
کی متعدد چیزوں کا جمع کرنا بھی کسی مسلم گھرانے میں کام کرنے والے باورچی
کے کام کا حصہ ہے۔ جب آپ دن میں صرف ایک بار کھانا کھائیں تواسے خاطر خواہ
ہونا چاہئے،ایسا جس کا شمار کیا جاسکے۔ دن کے اوقات میں رمضان المبارک خواہ
خود پر ضبط اور تحمل کا مہینہ ہو،لیکن بہ وقتِ شب یہ ضیافت کی ساعت بن جاتا
ہے۔ خاندان کے افراد اور دوستوں کے ساتھ موسمی چیزوں سے لطف اندوزی امریکہ
ہی میں نہیں ہر اس خطہ زمیں پر جشن کی سی کیفیت پیدا کردیتی ہے جہاں رمضان
کا اہتمام کیا جاتا ہے۔سیئٹل میں ہماری مقامی برادری بہت متنوع ہے، اس لئے
لوگوں کا جمع ہونا بہت سی مختلف ثقافتی روایات کا ایک مجموعہ بن جاتا ہے۔
تیونس کے دوست پودینہ کی خوشبو والی سبز چائے کی صراحی کے ساتھ آتے ہیں تو
مصری باشندے پرت دار پیسٹری کی رکابی لاتے ہیں جسے شکم کو سَیر کرنے والے
گھر میں بنے امریکی پکوان جیسے تلے ہوئے مرغ اور بسکٹ کے شانہ بہ شانہ
دسترخوان پر چنا جاتا ہے۔ ایسے میں جب کسی قریب ترین آئی فون سے اذان کی
آوازبلند ہوتی ہے(اس کے لئے بھی ایک ایپلی کیشن ہے)تو وہ لمحہ بڑا خاص ہوتا
ہے جب آپ محبت سے تیار کئے گئے روایتی کھانوں کی میز کی جانب لپکتے ہیں۔جی
ہاں، رمضان روحانی طور پر غور و فکر کا مہینہ ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جب
پوری دنیا کے مسلمان روزہ، قرانِ پاک کی تلاوت اور صدقہ کے ذریعہ پروردگارِ
عالم سے لَو لگاتے ہیں اور اس کی قربت کے متمنی ہوتے ہیں۔اس عالم میں جب
کوئی شخص ایک لحظہ کو بھی اگر کھانے کے بارے میں رطب اللسان ہوتا ہے تو
لازماََ وہاں کوئی نہ کوئی اسے ٹوک دیتا ہے’’کھانے کی بات نہیں ہے۔ آپ کو
کھانے کے بارے میں تو سوچنا بھی نہیں چاہئے۔‘‘ٹھیک ہے بھائی ،آپ کی بات
درست ہے۔ لیکن افطارکے وقت جو بریانی آپ کھاتے ہیں ،کیا لگتا ہے آپ کو۔ اسے
کون بناتا ہے؟یہ خود ہی تو تیار نہیں ہوتی ۔ اس کے لئے گھر کی خواتین تیاری
کرتی ہیں۔ نیویارک کا اسلامی مرکز بھی رمضان میں رونق اور خوشیوں سے بھر
جاتا ہے۔یہ مرکز جملہ اسلامی مراکز میں سے ایک ہے جو نیویارک کے مسلمانوں
کے لیے افطاری کا انتظام کرتا ہے حال حاضر میں ہر رات دو ہزار سے زیادہ
روزہ دار نماز جماعت ادا کرنے کے بعد افطاری کے پروگرام میں شرکت کرتے
ہیں۔دنیا کے دیگر مسلمان چاہے وہ کسی بھی خطہ ارض میں زندگی بسر کر رہے ہوں
اپنے رسم و رسومات کو پورا کرنے اور مذہبی مراسم کو انجام دینے میں آزاد
ہیں۔ در حالانکہ امریکہ کے لوگ امریکی طرز و طور سے زندگی گذارنے پر مجبور
ہیں۔مساجد میں افطار کا یہاں بھی اہتمام ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو مجبور ہیں غروب
کے وقت اپنی ڈیوٹیوں پر رہیں ان کے لیے مساجد میں افطار ایک بڑی نعمت ہے۔
وہ لوگ افطار کے وقت فورا اپنے آپ کو اپنے کام سے نزدیک مسجد میں پہنچاتے
ہیں اور افطار کر کے اپنے کاموں پر واپس لوٹ جاتے ہیں۔رمضان کی امریکہ پر
ایک تاثیر یہ بھی ہے کہ اس ماہ میں امریکہ والوں پر یہ اثر پڑتا ہے وہ
مسلمانوں کے ذریعے اسلام سے زیادہ آشنا ہوتے ہیں یعنی امریکہ میں مسلمانوں
کو بے شمار مشکلات لاحق ہونے کے باجود وہ اس مہینہ میں امریکیوں پر اپنا
گہرا اثر ڈالتے ہیں جس کی بنا پر وہ مسلمانوں سے اپنے روابط برقرار کرتے
ہیں۔ اور اسلام سے آشنا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ان مسلمانوں کو دیکھ کر جو
اپنے خدا کی خاطر ایک پورا ماہ اپنے نفس کے ساتھ معرکہ آرائی کرتے ہیں اور
اسے تمام خواہشات سے دور رکھتے ہیں امریکہ والے اسلام سے کافی متاثر ہوتے
ہیں۔اور مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں۔ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے مسلم
اکثریتی علاقوں میں سائرن کی آواز ہوتی ہے جسے سن کر لوگ افطار کرتے
ہیں۔کہیں کہیں گولے بھی داغے جاتے ہیں اور بعض مقامات پر اذان کی آواز ہی
وقت ہونے کا اعلان ہوتی ہے۔پرانی دہلی اور جامع مسجد کے علاقے میں یہ سماں
کچھ زیادہ ہی رہتاہے جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے۔80سالہ بزرگ
اور ریٹائرڈ ٹیچر ماسٹرمحمد انیس صدیقی اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے
بتاتے ہیں کہ دہلی میں وہ 1955سے مسلسل سائرن کی آواز سنتے آرہے ہیں۔اس سے
پہلے وہ اترپردیش کے ایک ضلع میں رہتے تھے۔یہ سائرن افطار اوار سحری دونوں
وقت بجایا جاتاہے۔لیکن پھر بھی سحری میں کبھی کبھی لوگ نیند کی شدت سے نہیں
اٹھ پاتے اس کیلئے دہلی ہی نہیں پورے ملک میں عرصہ دراز سے مختلف طریقے
رائج ہیں۔بعض جگہوں میں مساجد سے مسلسل اعلان ہوتا ہے کہ سحری کا وقت ہوگیا
ہے یا وقت ختم ہونے میں صرف اتنی دیر باقی ہے۔بعض مقامات پر مسجد کے ہی
لاوڈاسپیکر سے نعت اورحمد کا سلسلہ سحری کے اوقات میں مسلسل جاری رہتاہے
لہذٰا جولوگ اعلان سے نہیں جاگ پاتے اس کو غنیمت سمجھتے ہیں۔لیکن ایک طریقہ
جو اب صرف دیہاتوں اور قصبوں تک محدود رہ گیاہے اور لاوڈاسپیکر کی ایجاد سے
پہلے ہی سے معروف ہے وہ یہ کہ گاؤں یا محلے کے چند افراد کی ایک ٹیم سحری
کے مقررہ وقت سے پہلے گھروں پر جاکر لوگوں کو جگاتی ہے اور راستے بھر نعت
حمد اور ترانے گاتی جاتی ہے۔
|
|
بعض علاقوں میں یہ خدمت گاؤں یا آس پاس کے علاقے کے غرباانجام دیتے
ہیں۔سحری کے روحانی وقت میں عموماان کی حمدو نعت دلوں میں اترتی محسوس ہوتی
ہے اور ’’اٹھو روزے دارو! سحری کھالو ‘‘کا نعرہ بڑا ہی زوردار معلوم ہوتا
ہے جس سے نیند یکلخت غائب ہوجاتی ہے۔دن کو مائیں جب بچوں کو بتاتی ہیں کہ
آج جگانے والے نے کتنی اچھی نعت پڑھی تو بچے ماؤں سے ضد کرکے اس وقت اٹھانے
کے لئے کہتے ہیں تاکہ وہ بھی اس کو سن سکیں۔رمضان کے آخری ایام میں اس ٹیم
کا ’’الوداع ماہ رمضان۔۔‘‘ کا پرسوزترانہ عموما ہر خاص وعام کے لئے ایک کسک
چھوڑ جاتاہے۔ہندوستان کاپھیلاو شمالا جنوبا زیادہ ہے لیکن مشرق تا مغرب بھی
اس کا فاصلہ کم نہیں ہے لہذا سحر و افطار کے اوقات میں یہاں کافی فرق
ہے۔مغربی بنگال اور آسام کے مشرقی حصے کے سحر وافطار کے اوقات سے راجستھان
،گجرات اورمہاراشٹر کے مغربی اضلاع کے اوقات میں تقریبا ایک گھنٹے سے زائد
کا فرق پایا جاتاہے۔ماضی میں دہلی سمیت پورے ہندوستان میں گھر کی بنائی
ہوئی موٹی موٹی سوئیاں گڑ میں ڈال کر کھانے کا عام رواج تھا لیکن اب یہ
روایت ختم ہوگئی اب نہ تو گھریلو سوئیاں ہی ہیں اور نہ گڑ آسانی سے دستیاب
ہے۔اس کی جگہ اب کھجلا ،فینی وغیرہ نے لے لی ہے۔دودھ کے علاوہ سبزی بھی
سحری کے وقت ہندوستان میں کھانے کا عام رواج ہے۔شمالی ہند کے دیگر علاقوں
مثلا اعظم گڑھ الہ آباد وغیرہ میں ناریل کی گری ،کاجو،بادام اور دگر میوہ
جات سے تیار شدہ مسالا پینے کا عام رواج ہے۔بعض مقامات پر چپاتی اور پاو سے
اس کو کھاتے بھی ہیں۔لیکن مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں دودھ اور کیلا بھی
سحری میں کھایا جاتاہے۔جب کہ جنوبی ہند کی ریاست کیرلہ اور تمل ناڈو میں
چاول اور کھجور زیادہ کھائی جاتی ہیں۔اکثر جگہوں میں رمضان میں پاو کی مانگ
بڑھ جاتی ہے لیکن اترپردیش کے کچھ علاقوں میں دودھ پاو ہی سحری کی مرغوب
غذا ہے۔لہذا بیکریاں نت نئی ڈیزائن اور سائز کے پاو بنانے میں ایک دوسے سے
سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔رمضان جانے کے بعد سال بھر افطار کے ان
کھانوں کی یاد آتی رہتی ہے۔ |