اُستاد،ادیب اورصحافی کی وفات
ناتلافی نقصان
اُردوادب ،صحافت اوردرس وتدریسی کے شعبوں میں شاندارخدمات انجام دینے والی
خوش مزاج ،اعلیٰ اوصاف کی شخصیت کے مالک کیدارناتھ آملا10 جون 2014کو83سال
4ماہ اور6دِن کی عمرمیںجہان ِفانی سے کوچ کرگئے۔اُردوادب، صحافت اورتدریس
کے شعبوں کوجونقصان کیدارناتھ آملہ کی وفات سے پہنچاہے وہ یقیناناتلافی ہے
۔16اکتوبر2007 کوراقم نے جب جموں کے موقر اُردواخبارروزنامہ تسکین کے ادارہ
میں کام کرنے کی غرض سے گیاتووہاں پردیگراراکین ادارہ سے ملاقات کے علاوہ
میری ملاقات اخبارکے اعزازی ایڈیٹرکیدارناتھ آملاصاحب سے بھی ہوئی ،پہلی ہی
ملاقات میں کیدارناتھ آملاکی شخصیت نے مجھے کافی متاثرکیا۔دوسے اڑھائی سال
کے عرصہ تک کیدارناتھ آملا کے زیرسایہ اخبارمیں کام کیا،اس دوران کافی اچھی
باتیں راقم نے آملا صاحب سے سیکھیں۔ان کے سایہ میں رہ کرمجھے ان کی شخصیت
کے جن اہم پہلوﺅں نے حددرجہ متاثرکیاوہ ان کی سیکولراورخوش مزاجی ،پیارومحبت
سے پیش آنا،اُردوسے والہانہ لگاﺅ، تاریخ کاگہراعلم وغیرہ تھے۔
کیدارناتھ آملاصاحب کی پیدائش ریاست کے سرحدی قصبہ مظفرآباد(اب
آزادکشمیر)کے ایک گھرانے میں بھگوان داس آملاکے گھر 2فروری 1931کوہوئی۔بچپن
سے ہی انہیں اُردوسے لگاﺅتھاجس کاثبوت یہ ہے کہ انہوں نے پندرہ برس کی
عمرمیں ہی جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے اُردومیں لکھناشروع
کردیاتھا۔آملہ صاحب کی طبیعت جب اُردولکھنے کی طرف مائل ہوئی توانہوں نے اس
زمانہ کے اُردو ماہنامہ ”رتن “ جس میں نئے لکھنے والوں کے دلچسپ مضامین
شائع ہواکرتے تھے کواپنی تحریریں بھیجناشروع کردیں ۔اُردوماہنامہ ”رتن “
میں اپنی تحریروں کی اشاعت سے وہ کافی خوش ہوئے کیونکہ ان کی تحریروں کی
پذیرائی عوامی حلقوں میں ہونے لگی تھی۔ایک سال بعدجب انہوں نے دسویں جماعت
میں داخلہ لیاتومتحدہ ہندوستان میں اُردوکے فروغ کےلئے منظم مہم شروع ہوچکی
تھی ۔مختلف حصوں سے اُردوکے فروغ کےلئے مختلف انجمنوں ظہورپذیرہورہی تھیں۔
کیدارناتھ آملا نے بھی اُردوکی بقاءکےلئے کم عمری میں ذہن
کوتیارکرلیااورپھرمظفرآبادمیں ”بزم ادب“ نامی انجمن تشکیل دی۔اس انجمن میں
انہوں نے بطورناظم خدمات انجام دیں۔یوں ہی ”رتن“ میں ”بزم ادب“ کی تشکیل کی
خبرشائع ہوئی توموجودہ پاکستان کے مختلف حصوں کے علاوہ بہار،اُترپردیش
اوردہلی وغیرہ سے بزم ادب کی رکنیت کےلئے درخواست موصول ہونے لگیں۔ یہ
سلسلہ ابھی چل ہی رہاتھاکہ 1947 کاپرآشوب دورآپہنچا۔ملک کابٹوارہ
ہوا،اوربزم ادب مظفرآبادکی ادبی سرگرمیاں بھی ہواکے جھونکوں کی زدمیں
آکرماندپڑگئیں۔
اکتوبر1947 میں جس وقت مظفرآبادکے راستے کشمیرپرقبائلیوں نے حملہ کیاتووہاں
کی اقلیتی آبادی کوریاست کے محفوظ مقامات کی جانب نقلی مکانی کرنی پڑی ۔کیدارناتھ
آملا کوبھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کرناپڑی۔ہجرت کے بعدوہ تقریباًڈیڑھ
سال تک مشرقی اُترپردیش کے ضلع مرزاپورامیں قیام پذیررہے ۔وہاںپربھی اُنہوں
نے اُردولکھنے ،پڑھنے اوراُردوسے شغف رکھنے والوں سے رابطہ مسلسل قائم
رکھا۔اس کے بعدوہ موجودہ ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑہ پہنچے جہاں پرانہوں نے
دھرم سالہ سے شائع ہونے والے ایک اُردوہفت روزہ سے رجوع کیااوراس کےلئے
لکھنے میں مصروف ہوگئے۔اسی دوران انہوں نے نئی دہلی سے شائع ہونے والے
مشہورومعروف اُردوروزنامہ ”ملاپ “ میں بھی اپنے مضامین کیدارناتھ کشمیری کے
نام سے شائع کرائے۔ چونکہ کیدارناتھ آملہ صاحب نے ہجرت کاکرب اپنے دل میں
سمویاہواتھااس لیے ان کی بیشترتحریروں میں کشمیرسے نقل مکانی کرنے والے
لوگوں کی رودادہوتی تھی ۔ان کے مضامین میں جذبہ انسانیت اُتم درجہ
کاپایاجاتاتھا۔کوئی بھی ان کی تحریرپڑھتاتھاتووہ آملا صاحب کوانسانیت کا
ہمدرد تصور کرتاتھا۔اس زمانے میں جتنے بھی مضامین کیدارناتھ آملاکے شائع
ہوئے انہیں کافی پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ کشمیرسے ہجرت کرنے والے لوگوں
کی آوازکوبھی تقویت ملی ۔کیدارناتھ آملہ 1953 میں جموں میں آئے اور32۔بخشی
نگرجموں میں مقیم ہوئے۔یہاں پرآکرانہوں نے اُردوخطاطی کے فن کے لئے مشق کی
۔انہوں نے اس قدرمحنت سے فن خطاطی کی مشق کی کہ تھوڑاہی عرصہ میں وہ اس
قابل ہوگئے کہ کسی اخبارکی کتابت کرسکیں لیکن انہوں نے خوش نویسی کوپیشے کے
طورپراپنانے کواہمیت نہیں کی بلکہ شوقیہ مشق کے طورکرتے رہے۔
ڈاکٹردیواندرگپتانے اپنی ایک کتاب ”صوبہ جموںکے ہندوادباءوشعراء“ میں
کیدارناتھ آملاکی شخصیت اوران کی صحافتی ،ادبی اوردرس وتدریس کے تئیں خدمات
کواُجاگرکیاہے۔وہ اپنی کتاب میں یوں رقمطرازہیں۔
”جموں کی صحافتی دُنیامیں کیدارناتھ آملانے ایک شرزہ نگارکی حیثیت سے قدم
رکھا۔ان کی شرزات ” ک۔ن۔ا“ اورکے،این۔کشمیری“ کے نام سے مقامی اخبارات میں
چھتے رہے۔جن میں ادبی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔اس دوران ان کے مختصرنوعیت کے
ادبی پارے رسالہ”شمع“ میں بھی شائع ہوئے جوکہ ایک ماناہوااُردوماہنامہ ہے
۔1954 ءمیں کیدارناتھ آملانے سرکاری ملازمت اختیارکرلی اورایک مدرس کے
طورپرخدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ اُردوکی درس وتدریس کافریضہ بھی
اداکرتے رہے۔اپنی سروس کے دوران انہوں نے اُردوسے متعلقہ کئی ورکشاپوں میں
حصہ لیا۔ جن میں غیرروایتی طورپراُردوکی تعلیم دینے سے متعلق ایک پرائمرکی
تیاری میںنمایاں حصہ لینابھی شامل ہے۔یہ پرائمربعدازاں سٹیٹ انسٹی چیوٹ آف
اجوکیشن جموں نے تجرباتی طورپرشائع کیاتھااورفیلڈمیں نہایت کامیاب
قراردیاگیا۔اس کے علاوہ سٹیٹ انسٹی چیوٹ آف ایجوکیشن جموں کے اہتمام سے
منعقدہ کئی ورکشاپوں میں بھی شرکت کی اورتصنیفی کام سرانجام دیا۔ جن میں
کئی درسی کتب شامل ہیں اورجن کانمایاں ریکارڈسٹیٹ انسٹی چیوٹ آف ایجوکیشن
جموں کی مختلف اشاعتوں میں موجودرہے۔کیدارناتھ آملانے 1977 میں آل
انڈیاریڈیونئی دہلی کے اہتمام سے ریڈیوکشمیرجموں کے حاطہ میں منعقدہ ایک
اہم ترین ورکشاپ میں بھی حصہ لیا۔اس ورکشاپ میں سکول براڈکاسٹ سے متعلق
مواداورتکنیک پرکی گئی نئی کھوج کے تحت شرکاءورکشاپ کوتربیت
دینامقصودتھا۔اس ورکشاپ میں جوپہلاسکول براڈکاسٹ مضمون پیش کیاگیاوہ
کیدارناتھ آملاہی کاتھاجوکہ تاریخی موادپرمبنی تھا۔اورجس کاعنوان ”فاہیان
کی ڈائری “ تھا۔یہ مضمون شُستہ اُردومیں تحریرکیاتھااورنئی تکنیکوں کے عین
مطابق تھا۔اس لئے اسے بے حد پسند کیاگیااوراس ورکشاپ میں آل انڈیاریڈیوکی
طرف سے آنے والے اعلیٰ عہدیداران جناب مِصرااورجناب کمال صدیقی نے اسے بے
حدسراہا۔اورآج کل ان کے مضامین اکثررسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔فروری
1986ءمیں 32سالہ سرکاری سروس سے سبکدوش ہونے کے بعدکیدارناتھ آملانے جموں
کے ایک روزنامہ ”تسکین“ کی ادارت سنبھالی ۔اس سے قبل بھی وہ
دوروزناموں”اُجالا“اور”عمارت “ میں اُس وقت ادبی خدمات سرانجام دی
تھیں۔جموں سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ”عوامی دور“ میں ”ناروجی کاپریم پتر“
ان کامستقل کالم تھا۔اس جریدے کے” شہیدنمبر“اور”شیرکشمیرشیخ محمدعبداللہ
نمبر“میں ادبی نوعیت کی قلمی معاونت کی۔اسی طرح ”نئی زندگی “ اور”چناب“کے
کالموں میں ان کی نگارشات اکثرشائع ہوتی رہتی ہیں۔ان دِنوں کیدارناتھ ناتھ
آملااپنی یادداشتوں پرمبنی ایک کتاب لکھ رہے ہیں ۔جس کامسودہ ابھی زیرتکمیل
ہے۔اگریہ کتاب شائع ہوگی تویہ ان کی پہلی کتابی اشاعت ہوگی“
ڈاکٹردیواندرگپتانے کیدارناتھ آملاکی درس وتدریس ،ادبی اورصحافتی خدمات
کوبڑے ہی خوبصورت اندازمیں بیان کیاہے ۔روزنامہ تسکین میں آملاصاحب نے
بطورایڈیٹرعرصہ درازتک خدمات انجام دیں اورروزنامہ کونئی بلندیوں تک
پہنچایا۔کیدارناتھ آملاصاحب کوریڈیوسے بھی بہت زیادہ لگاﺅتھا۔یہی وجہ ہے کہ
جب وہ روزنامہ تسکین کے ڈیسک پربیٹھتے توہرشام 5بجے گوجری خبریں سناکرتے
تھے اورتوجہ سے نہ صرف وہ خبروں کوسناکرتے تھے بلکہ تمام اہم خبروںکواپنی
قلم سے نوٹ بھی فرمالیتے تھے ۔نوٹ کی ہوئی بہت سے اچھی خبروں کووہ صفحہ اول
پرجگہ دیتے تھے۔ان کی تحریرشستہ ہواکرتی۔بہت کم لوگ ہی ان کی شستہ تحریرپڑھ
پاتے تھے۔راقم کوشروع شروع میں آملاصاحب کی لکھی ہوئی خبریں کمپیوٹرپرٹائپ
کرنے میں دشواری آئی مگروقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آملاصاحب کی شستہ
تحریرکوپڑھنے کافن آگیا۔راقم کووہ اکثروبیشترتاریخی واقعات سے متعلق
جانکاری دیاکرتے تھے۔کربلاکے واقعہ کے بارے میںبھی اچھی خاصی جانکاری رکھتے
تھے۔اسلام کی تعلیمات پرعمل پیراہونے کی تلقین بھی زوردے کرکرتے تھے۔خصوصی
طورپرمیں تقسیم وطن اورکشمیری پنڈتوں کی کشمیرسے ہجرت کے حالات سے متعلق
پوچھاکرتے تھے ۔وہ اپنی پختہ معلومات کے خزانہ میں سے مجھے بھی تاریخ سے
آشناکراتے تھے۔مجموعی طورپریہی کہوں گاکہ جتناعرصہ بھی میں نے کیدارناتھ
آملا کی صحبت میں کام کیااس دورانیہ میں بے شماراچھی اورزندگی
کوخوشگواربنانے والی باتیں میںنے آملاصاحب سے سیکھیں۔ان کی زندگی سے متعلق
جوتفصیلات درج کی ہیں وہ بھی انہوںنے راقم کے ساتھ شیئرکی ہیں۔راقم
کامانناہے کہ کیدارناتھ آملابھلے ہی معروف ادبی شخصیت کے طورپرمتعارف نہ
ہوسکے لیکن اکی اُردوادب،اُردوصحافت اوراُردوکی درس وتدریس کے سلسلہ میں
انجام دی گئی خدمات ناقابل فرامو ش ہیں۔مرحوم آملاصاحب کے لواحقین کواللہ
تعالیٰ صبرعطافرمائے اورمرحوم کی روح کوتسکین دے۔(آمین)۔مرحوم کے لواحقین
کے ساتھ تعزیت کرنے کےلئے ان نمبرات 94191-81711, 9419143697,
2562219پررابطہ کیاجاسکتاہے۔ |