ایک براعظم پر کھڑے ہو کر دوسرے
براعظم کو دیکھ کر جو احساس ہوتا ہے، وہ انسان کو قدرت کی عظمت کا احساس
دلاتا ہے،جس شہر میں یورپ اور ایشیا جیسے عظیم براعظم ایک دوسرے سے ملتے
ہوں، جو سیاحت میں وہ وسعت رکھتا ہے جسے چند اوراق پر منتقل نہیں کیا جا
سکتا، جس کی فتح ترکوں کی تاریخ میں ایک زندہ جشن ہو،جہاں29 مئی 1453 کی
شام سلطان محمد اپنے سفید گھوڑے پر سوار بازنطینی پایہ تخت استنبول میں ایک
فاتح کی حیثیت سے داخل ہو،جو دریائے فرات سے لے کر جبل الطارق تک پھیلے
وسیع خطوں کی حکمرانی کا مرکزہو ، جسے کانسٹنٹائن اعظم نے نیا روم قرار
دیاہو اور آیا صوفیہDivine Wisdom کی عالمی شناخت کہلائے اس شہر کے بارے
میں بغیر اسے دیکھے کچھ لکھنا سہل نہیں۔۔۔۔۔ترکی کا دارالحکومت استنبول
تاریخ اور رومانویت کا نام ہے۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں کا دارالحکومت اور
لاتعداد رومانوی کہانیوں سے عبارت اس شہرکا کوئی ثانی نہیں۔ قدرت کے مناظر
اور انسانی تخلیقات نے اس شہر کو ایک لازوال شہر کی شکل دی ہے۔یونانی
روایات کے مطابق Byzas نے اپنے پیروکاروں کو ایتھنز میں اکٹھاکرکے ایک نئے
شہر کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا جو کہ 146146اندھی دھرتی145145 کے مقابل
تعمیر کیا جائے۔ اس فیصلے کے بعد اس کے پیروکار موجودہ استنبول (Seraglio
Point) کی طرف روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے ایک Phoenician نوآبادی دیکھی (آج
اس جگہ کا نام کادیکوئے ہے)۔ Byzas کے پیروکار اس 146146اندھے شہر145145 کی
خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ گئے اور یوں انہوں نے شاخِ زریں یا Golden Horn کے
کنارے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی۔ اس شہر کا نام انہوں نے Byzas سے عقیدت
کی بنیاد پر Byzantine رکھا۔ اس شہر نے جلد ہی یونان اور اردگرد کے علاقوں
میں شہرت حاصل کر لی، اور کچھ ہی عرصے بعد یہ خطے کے اہم تجارتی شہر کی
حیثیت اختیار کر گیا۔ یونانیوں نے پہلی مرتبہ اس کو 750-550 قبل مسیح میں
فتح کیا۔ بعد میں یونان اور ایران جنگ کے دوران اس شہر نے اس وقت سیاسی
حیثیت اختیار کر لی، جب اسپارٹا کے بادشاہ Pausanias نے اس شہر کو واپس
ایرانیوں سے فتح یاب کرایا۔ یہ شہر اپنے اوائلی ادوار میں 192 برجوں کا شہر
تھا، اور شہر کے گرد ایک فصیل اس کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھتی تھی۔ رومن
بادشاہ Constaninus Magnus نے اقتدار کی کشمکش کے دوران یہ فیصلہ کیا کہ
سلطنت کا ایک نیا دارالحکومت قائم کیا جائے۔یہ روم کے مقابلے میں مشرق میں
ایک نئے جدید عظیم دارالحکومت کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا شہر تھا۔ اس میں
وہ تمام سہولیات اور آسائشِ زندگی فراہم کی گئیں جو قدیم روم کو سیاسی،
سماجی، اقتصادی، علمی، مذہبی اور حکمرانی کے حوالے سے میسر تھیں۔ اس شہر کی
مذہبی اور روحانی اہمیت کے حوالے سے دو بڑے معبد آیا صوفیہ Hagia Sophia
اور Havarion Churches بھی تعمیر کیے گئے۔ اس شہر نے Constantinpolis کے
نام سے شہرت حاصل کر لی۔آیا صوفیہ کی تعمیر نے اس شہر کی روحانی عظمت میں
بڑا اضافہ کیا،آیا صوفیہ، یروشلم کے معبد کے بعد ایک بڑا معبد تھا۔ آیا
صوفیہ چودہ صدیوں سے اپنے شہر کے تدبر کا انمٹ اظہار ہے۔ آیا صوفیہ کی
Divine Wisdom درحقیقت شہریوں کی Divine Wisdom کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ
دنیا کی ایسی عظیم عمارت ہے، جو ہر زمانے میں آباد رہی۔ پہلے گرجا گھر کے
طور پر پھر مسلمانوں کی مسجد کے طور پر اور اب جدید ترکی کے قیام کے بعد ہر
مذہب، نسل،رنگ اور قوم کے لوگ اس کی روزانہ زیارت کرتے ہیں۔آج یہ عظیم
عمارت سارے مذاہب کے ہزاروں زائرین (سیاحوں) کے سامنے ایک انمول دانش و
تدبر کی گواہی دیتی ہے۔ آیا صوفیہ استنبول کیDivine Wisdom کی عالمی شناخت
ہے۔استنبول جس کو کانسٹنٹائن اعظم نے نیا روم قرار دیا، پرانے روم سے زیادہ
اہم اسٹرٹیجک شہر واقع ہوا ہے۔ مشرقی رومن ایمپائر کا یہ شہر دریائے فرات
سے لے کر جبل الطارق تک پھیلے وسیع خطوں کی حکمرانی کا مرکز تھا۔ تقریبا
ایک ہزار سال تک رومن ایمپائر کا پایہ تخت رہا، دنیا کا کوئی دوسرا شہر
ایسی تاریخی اہمیت کا حامل ہیں۔قسطنطنیہ تاریخ میں ایک Cosmopolitan شہر
رہا ہے، یہاں آرمینین، یونانی، ترک، پولش، عرب، ایرانی، اناطولین، بلغاروی،
اطالوی، برطانوی، فرانسیسی اور قفقاز سمیت مختلف نسلوں اور زبانیں بولنے
والوں کی بستیاں قائم رہیں جن کے تہذیبی و ثقافتی اثرات آج بھی استنبول کی
ثقافت اور خصوصا فنِ تعمیر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔29 مئی 1453 کو شام کے
وقت سلطان محمد اپنے سفید گھوڑے پر سوار بازنطینی پایہ تخت استنبول میں ایک
فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ میں استنبول کی فتح، تاریخ
کا ایک اہم باب ہے اور ترکوں کی تاریخ میں فتح استنبول ایک زندہ جشن ہے جو
آج بھی جدید ترکی میں ایک قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سلطان محمد
فاتح آج بھی ترک قوم کے ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سلطان محمد فاتح
نے استنبول کے کاسموپولیٹن تشخص میں مزید اضافہ کیا اور اس کے لیے اس نے
خصوصی طور پر قفقاز، بلقانی، یونانی، عربی اور وسطی ایشیائی شہریوں کو اپنے
ہاں (استنبول) میں آباد کرنے کی اصلاحات کیں۔ 1453 میں جب یہودیوں کو یورپ
سے ہجرت کرنے پرمجبور کیا گیا تو یورپ بھر سے یہودی پناہ گزین سلطان محمد
فاتح کی سلطنت میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے۔سپین میں ملکہ آئزابیل نے جب
مسلمانوں اوریہودیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا تو یہودیوں نے عثمانی ترکوں سے
پناہ کی درخواست کی، جس کو عثمانیوں نے کھلے دل سے قبول کیا۔ نسل کشی کے
شکار یہودیوں کے لیے سلطنت عثمانیہ نے اپنے دروازے کھول کر جس رواداری کا
مظاہرہ کیا، وہ تاریخ کا اہم باب ہے۔شہر اپنے باسیوں کی وجہ سے قائم رہتے
ہیں۔ استنبول کے شہری، جس محبت، زندگی کے آثار، مہمان نوازی اور وسعتِ قلبی
سے لبریز ہیں،ان کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ
استنبول جس قدر شاندار شہر ہے اور اس کی سیاحت میں جس قدر وسعت ہے ان کو
چند اوراق پر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ میں نے
استنبول سے متعلق جب پڑھا ہر بار ایک نئے روحانی احساسات کے ساتھ محسوس کیا۔
یورپ اور ایشیا جیسے عظیم براعظم اس شہر میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔
باسفورس کی خلیج ان کی جغرافیائی تقسیم کرتی ہے۔ دو براعظموں کا یہ سنگم بے
مثال ہے۔ ایک براعظم پر کھڑے ہو کر دوسرے براعظم کو دیکھ کر جو احساس ہوتا
ہے، وہ انسان کو قدرت کی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ آج جدید پل ان دو
براعظموں کو زمینی طور پر جوڑنے کی انسانی کاوش ہیں۔ یہ پل بغیر کسی سہارے
کے قائم کیے گئے ہیں۔ استنبول شہر کی کئی ایک ایسی انفرادی جہتیں ہیں اگر
ان کو ہی موضوع تحریر بنایا جائے تو دلچسپی کا ایک نیا موضوع ہو سکتا ہے۔
استنبول شہر تاریخ اور جدت ، قدرتی مناظر اور انسانی تخلیق کاری ، رومانیت
اور روحانیت، فکروعلم، سیاست و ادب سے عبارت ہے۔باسفورس پل آبنائے باسفورس
پر قائم ہے۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بیلربے کو
ملاتا ہے اور باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔ یہ 1510 میٹر طویل ہے
جبکہ اس کی عرشے کا عرض 39 میٹر ہے۔ اس کے دونوں برجوں کے درمیان فاصلہ
1074 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے بلندی 105 میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 64
میٹر بلند ہے اور 1973 میں تکمیل کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا سسپنشن پل
بن گیا تاہم یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ سے باہر دنیا کا سب سے بڑا سسپنشن
پل ہے۔ اس کے نقشے کے لیے برطانیہ کے ادارے فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز کے
ساتھ 1968 میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ پل کا نقشہ معروف برطانوی ماہر
تعمیرات سر گلبرٹ رابرٹس نے تیار کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1970 میں ہوا جس
میں اس وقت کے صدر جودت سونے اور وزیراعظم سلیمان ڈیمرل نے بھی شرکت کی۔
تعمیراتی کام ترک ادارے انکا انسات و صناعی نے انجام دیا۔ اس کام میں
برطانیہ اور جرمنی کے دو ادارے میں شامل تھے۔ منصوبے پر 35 مہندسین اور 400
افراد نے کام کیا۔ پل کی تعمیر جمہوریہ ترکی کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے
صرف ایک روز بعد 30 اکتوبر 1973 کو مکمل ہوئی۔ اس کا افتتاح صدر فہری
کوروترک اور وزیراعظم نعیم تولو نے کیا۔ باسفورس پل کی تعمیر پر 200 ملین
امریکی ڈالر کی لاگت آئی۔صدیوں سے آباد یہ شہر انسانی ارتقا اور تاریخ سازی
کے جس عمل میں ہے، اس دوران اس شہر نے تعمیر اور تخریب کے کئی انقلابات جنم
دیئے۔پرانی سلطنتوں کی بنیادوں پر نئی سلطنتوں کے قیام کا عمل، فتح اور
شکست سے عبارت انقلابات، عروج اور زوال کی کہانیاں، یہ شہر اپنے سینے میں
لاکھوں داستانوں کو دفن کیے ہوئے ہے۔ اس کا حسن لازوال ہے، یہی اس کی
انفرادی خوبی ہے۔ استنبول کی صدیوں کی داستانِ زندگی آج بھی زندہ ہے۔ یہ
ایک زندہ شہر ہے۔ ہر دور، تہذیب اور زمانے کی ثقافت کا مرکز ہے۔ آج کا
استنبول ان سارے زمانوں کو بھی اپنے ساتھ لیے نئی زندگی گزار رہا ہے۔ بلیو
مسجد،کورا میوزیم،گالاٹہ ٹاور،پیری لوٹی،آرٹا کوئے مارکیٹ،گرینڈ بازار اس
کے ھسن کو دوبالا کرتے ہیں،اس شہر کے اضلاع میں سلطان احمد،حیدر
پاسا،اسکندر،فتح،یبوپ گلاتا،پیرا،بالات،آرٹا کوئے،تیکسم نمایاں ہیں۔ایک
براعظم پر کھڑے ہو کر دوسرے براعظم کو دیکھنے کا احساس انسان کو قدرت کی
عظمت کا احساس دلاتا ہے۔۔۔۔سمندروں، پہاڑوں ، جزیروں اور دوعظیم براعظموں
کے سنگم استنبول کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خوائش اب پہلے سے زیادہ شدید
ہو گئی ہے۔ |