بیٹا یا بیٹی مہذب معاشرے میں انسانیت کا قتل

آج کی اس مہذب دنیا میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے۔ لیکن انسان اس پر خاموش ہیں، کہیں نسل پرستی کے نام پر، کہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام، اور کہیں معاشرتی رسم و رواج کے نام پر، تو کہیں صنفی امتیاز کے نام پر یونیسیف کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے جمہوری اور سیکولر ملک ہونے کے دعویدار بھارت میں صنفی امتیاز کے منظم منصوبے کے تحت 5 کروڑ لڑکیاں پیدائش سے پہلے یا بعد میں قتل کر دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی اس رپورٹ میں ان خوفناک اعداد و شمار کا انکشاف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت میں بچیوں کو پیدائش سے قبل یا بعد میں قتل کرنے کا معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ بھارت میں رائج جہیز کا نظام ہے جو غریب خاندان کے بس کی بات نہیں، اور لڑکی کی پیدائش مصیبتوں اور پریشانیوں کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ عورت مخالف یہ صورتحال صرف کسی ایک جگہ محدود نہیں بلکہ ثقافتی عقائد اور معاشرتی روایات کی بنیاد پر ہر طبقہ میں یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اسکی جنس معلوم کر لی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں اسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت میں ذات برادری کی تقسیم اور لڑکیوں کے لیے جہیز اس کی خاص وجہ ہے۔ یونیسیف نے اسے سنگین صورتحال قرار دیا ہے۔ بھارت میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد ۷۳۹ رہ گئی ہے۔ اس صورتحال پر بھارت میں خاصا واویلا تو مچایا جاتا ہے۔ لیکن اب تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوسکے۔ کچھ عرصہ پہلے بچوں کے لئے کام کرنے والی ایک خیراتی تنظیم کی جانب سے دائر کردہ ایک مقدمہ میں عدالت میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ ایسے اسپتالوں اور شفا خانوں کو سزا دی جائے۔ جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پیدائش سے قبل جنس کا تعین کرنے کے لئے رحم مادر کا سکین کرنے والے شفا خانوں کو سزائیں دی جائیں اور ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے جو لڑکیوں کے اسقاط کو روکنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔

مذکورہ تنظیم کا کہنا تھا کہ کئی والدین کو جب الٹرا ساؤنڈ کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ان کے یہاں بچی پیدا ہوگی تو وہ حمل ضائع کروا دیتے ہیں۔ بھارت کے دہی علاقوں میں لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ لڑکے کما کر لاتے ہیں۔ بھارتی حکومت جہیز کے رواج کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس رواج کو پہلے ہی خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔ پیدائش سے پہلے یہ جاننے کے لئے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی اکثر جوڑے الٹراساؤنڈ کرواتے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت نے دس سال قبل اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن حالیہ جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ اس قانون پر کم ہی عمل ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس حکم میں وفاقی اور ریاستی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دلائیں۔ اس سے قبل عدالت نے حکم دیا تھا کہ مختلف شفا خانوں میں استعمال ہونے والی الٹرا ساؤنڈ مشینوں کی نگرانی کی جائے اور ان مشینوں کو ضبط کر لیا جائے جن کے ذریعے پیدائش سے قبل بچے کی جنس کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم سے لگتا ہے کہ وہ بچیوں کے اسقاط حمل کا تدارک کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ان کے خیال میں زیادہ ضروری امر اس رویہ اور سلوک میں تبدیلی لانا ہے جو لڑکیوں سے روا رکھا جاتا ہے۔ بھارت میں جہیز کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں لڑکیاں جہیز نہ ہونے کے سبب شادی نہیں کرپاتی، اور جو گھرانے شادی کے لئے جہیز دیتے بھی ہیں۔ ان کی لڑکیوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ جہیز نہ لانے والی لڑکیوں کو جلانے کے واقعات بھی بھارت میں عام ہیں۔ پاکستان میں بھی اکثر شادی شدہ گھرانوں میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے یہاں جو اولاد ہو وہ لڑکا ہو، حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ ہر شادی شدہ جوڑے کے ہاں صرف ایک بچے کی صورت میں بچی کے مقابلہ میں بچہ پیدا کرنے کو ترجیح دیں گے۔ گیلانی ریسرچ فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام بین الاقوامی ادارے گیلپ کی طرف سے کرائے گئے سروے کی رپورٹ کے مطابق سروے میں پاکستانی شہریوں سے پوچھا گیا کہ اگر خدا انہیں صرف ایک بچے سے نوازے تو وہ بچی کی پیدائش کو ترجیح دیں گے یا بچے کی پیدائش کو۔ اس کے جواب میں شادی شدہ شہریوں میں سے 82 نے جواب میں کہا کہ وہ بچے کی پیدائش چاہیں گے جبکہ 16 فیصد نے بچی کی پیدائش کی خواہش کا اظہار کیا اور دو فیصد نے کوئی رائے دینے سے انکار کیا۔

سروے رپورٹ کے مطابق غیر شادی شدہ شہریوں کی 70 فیصد نے بچے اور 26 فیصد نے بچی کی پیدائش کی خواہش کا اظہار کیا۔ رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں مقیم 79 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں مقیم 89 فیصد شہریوں نے صرف ایک بچے کی صورت میں بچی کی بجائے بچہ کی پیدائش چاہیں گے۔ بچہ اور بچی نعمت خداوندی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کی یہ تقریق بھی عورتوں کی پیدا کردہ ہے۔ جو خاندان میں بچی کی پیدائش پر منفی رویہ کا اظہار کرتی ہیں۔ آج کی بچی کل بہن، بیٹی، بیوی، ماں کے رشتے میں ڈھل جائے گی۔ اور یہی خاندان کے نظام کو چلائے گی۔ معاشرے میں ان رویوں پر قدغن لگانی چاہئے۔ آج کل ایسے کلینک اور اداروں کی بھی بھرمار ہے، جو اشتہار دے کر پوچھتے ہیں کہ آپ کو بیٹی چاہئے یا بیٹا۔۔ حکومت کو ان کاروباری اداروں کا نوٹس لینا چاہئے۔ اور ان پر پابندی لگانا چاہئے ۔ یہ معاشرے میں افراط وتفریط پیدا کررہے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418910 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More