کوہسار میں آگ بانٹنے والے زندہ دل لوگ

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم سب کے داداؤں کے دادا کے گھروں میں دو چار سال کے بچے رونقیں بکھیرا کرتے تھے یعنی ہمارے والدین کے مرحوم و مغفور دادے بھی ابھی کمسن بچے تھے، زرعی کلچر اپنے عروج پر تھا ،لوگ صبح گھر سے نکلتے، کلکتی دھوپ میں سارا سارا دن زمینداری کرتے ، ہل چلاتے،بجائی کرتے ساتھ ساتھ ہالیوں کو یہ ہدایات بھی دیتے جاتے کہ "ہیر ہور نہ ہیر، ہیر ہور را…" یعنی ادھر اُدھر نہ دیکھ، یہاں وہاں بجائی کر، بجائی کے بعد اگر بارش ہو جاتی تو تراھاڑ توڑتے، فصل کی گوڈی اور سیل (Saleنہیں) کرتے، زمیندار اور زمیندارنی فصل کے اندر سے فالتو جڑی بوٹیاں اور کھبل نکالتے، اسی طرح جیٹھ ہاڑھ کی کلکتی شعلے برساتی دھوپ میں کیتھروں، باڑیوں، ڈوغوں، لاڑوں اور ٹہنڈیوں سے چُکیں نکالتے اور انہیں توڑ کر اٹ تعمیر کرتے، ساون کی چھم چھم میں کٹھیاں نکالتے، اسُّو میں فصل کاٹتے، بگے بناتے، دن کے اجالے میں کُھمیں چھیلتے اور رات کے پچھلے پہر ماہیے گاتے ہوئے کھمیں کوٹتے بھی… اور… پھردانے سکھا کر جندر پر پسوانے کیلئے لے جاتے، اپنی باری کا انتظار کرتے، یہ انتظار ہر ایک کیلئے لازمی تھا خواہ وہ سردار ہوتا یا ایک عام آدمی اور پھر جب آٹا پسوا کر گھر آتے تو… اللہ نی سنُّت (خدا کی قسم) جو سواد اس روٹی میں ہوتا وہ آج کی فلور ملز کے سوجی، چوکر اور میدا نکلے آٹے کے پھوک میں کہاں، اس کے استعمال کے بعد آج جو "قابل رشک" ہماری صحت ہے اس میں ہم زندہ کم اور مردہ زیادہ نظر آتے ہیں۔

ہمارے داداؤں کے عہد میں اس سارے محنت انگیز عمل کے بعد آسانی کی فراہمی ضرور ہونی چائیے تھی مگر ایسا نہیں تھا، اب کھانے سے پہلا مرحلہ پکانے کا تھا اور پکانے کیلئے آگ کا ہونا ضروری تھا، اس عہد کا سٹیٹس یہ تھا کہ کون سا گھر آگ میں کتنا خود کفیل ہے، اس کے بغیر خواہ کوئی ٹبر (Family) ہو یا انفرادی شخص،وہ واقعی مفلس اور غریب کہلاتا تھا،جو بھی "بے آتشا"(Fireless) ہوتا اسے "آگ دینے کیلئے" رسوائی کی حد تک ایکسپلائٹ بھی کیا جاتا، جس پر وہ آگ کی پیداوار کیلئے آتشی عدسے سمیت تمام سائنسی طریقے بھی اسی طرح استعمال کرتا جیسے ایک سو سال بعد ہم بجلی کیلئے یو پی ایس اور سولر سسٹم سمیت دیگر ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

آگ یا آتش… جی ہاں … ماہرین علم الانسان (Enthropologists) اسے انسانی تہذیب کی سب سے بڑی دریافت کہتے ہیں، ہندو مت اسے زندگی کا لازمی عنصر قرار دیتا ہے بلکہ آگ کی دیوی اگنی کی پوجا بھی کرواتا ہے، تمام سامی مذاہب جنوں کو آگ کی پیداور سمجھتے ہیں اور ابلیس، Devil یا راون ناری مخلوق کا سب سے منفی کردار ہے، آتش کدہ فارس کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا یہ ایران کے مجوسیوں کی وہ متبرک جگہ تھی جہاں کئی ہزار سالوں سے ایرانی دوشیزائیں آگ کو مسلسل جلاتے رہنے کیلئے شفٹوں میں کام کرنے پر مامور تھیں… مگر کوہسار سرکل بکوٹ، گلیات اور مسیاڑی (موجودہ تحصیل کوہ مری) میں ایسا نہیں تھا مگر ماہر ترین خواتین کے نقش و نگار سے آراستہ و پیراستہ مٹی کے چولہے اور آوُلّہے کے اندر اور راکھ میں کسی چنگاری کا زندہ رہنا ضروری تھا اور اہلیان کوہسار کی یہی آگ میں خود کفالت اور اس زمانے میں آگ کیلئے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے کی غیرت تھی۔

کوہسار میں آگ کے مختلف ذرائع تھے، چقماق کے پتھر کو ٹکرا کر موجودہ الیکٹرک لائیٹر کی طرح آگ حاصل کی جاتی تھی،آسودہ حال اور وسیع پبلک ریلیشننگ کے حامل گھرانوں میں موٹے شیشے (عدسے) بھی ہوتے تھے جو روئی میں آگ پیدا کر دیتے تھے اور پھر آگ گھر کی پیداوار بھی تھی یعنی چولہے میں چنگاریاں ہر وقت موجود رہیں یا کوئی لیر (کپڑے کا ٹکڑا)، رسی ، سبھ (سبز تازہ ٹہنیوں کا مروڑا ہوا رسہ) یا کوئی مگھر/موگر یا سلاّ (لوکل زبان میں ایسی لکڑی کو کہتے ہیں جو کسی صورت چیری جا سکے نہ اس میں آگ ہی لگ سکے مگر طویل عرصہ تک سلگائی جا سکے) ہر وقت دہکتا رہنا چائیے، یہ مگھر اور سلّا وہ لکڑی ہوتی تھی جو ڈنہ (بالائی علاقے) اور ناول (نشیبی علاقے) میں بہک لے جاتے وقت چولہے میں دبا دیتے تھے، یہ لکڑی عموماً تہمن، ریں، بٹکاڑ یا کولیاڑ کی ہوتی تھی جو اتنی پائیدار، پرپیچ اور مضبوط کہ جب یہ بہکیں چھ ماہ بعد دوبارہ آتیں تو بھی یہ لکڑیاں سلگ رہی ہوتیں۔

راتوں کو پر خطر راہوں میں سفر کیلئے مُٹّھا بھی استعمال کیا جاتا تھا، یہ ایک ڈنڈے کے اوپر کچھ دہلیاں (چیڑ کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں) باندھ کر ان کو جلایا جاتا تھا اس طرح راستہ بھی نظر آتا تھا اور مسافر بلائوں سمیت درندوں کا نوالہ بننے سے بھی محفوظ رہتے تھے، یہ اس دور میں آگ کا موبائل استعمال تھا۔

اس دور میں آگ دینا ثواب بھی سمجھا جاتا تھا، ہر کسی سے خیر خیریت کے بعد یہی سوال کیا جاتا تھا کہ گھر میں آگ ہے؟ اور دشمن داری میں لوگ آگ دینے کا طعنہ بھی دے دیا کرتے تھے، گالیوں میں بھی آگ کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا تھا اور پانی کی طرح آگ ایسی نعمت تھی جو زندگی کی علامت سمجھی جاتی تھی (آج کل بعض شہروں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے دوران اسی عہد کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے) اگر پورے گائوں سے آگ ختم ہو جاتی تو برتن ساز کمہار کا آوا ہی آخری سہارا رہ جاتا تھا، آوا گائوں کا ایسا زندہ آتشکدہ ہوتا تھا جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ یہاں سے کبھی بھی آگ ختم نہیں ہو سکتی۔

ہر دور کی دوستیوں اور دشمنیوں کے بھی اپنے اپنے انداز و اطوار ہوتے ہیں،اس وقت دشمنی کا کارآمد ہتھیار بھی آگ ہی تھی (آج اس کا استعمال عالمی سطح پر میزائلوں کی صورت میں ہو رہا ہے) ، کسی سے کسی بات پر ان بن ہو گئی تو پتہ چلا کہ رات کو فلاں کی لیتری نذر آتش کر دی گئی،گھاس کا پسّہ یا اناج کے بگّے کو آگ لگا دی گئی،دشمنی اگر سنگینی کی حد تک ہے تو گھر کو بھی آگ دکھا کر سہاگہ بنایا جا سکتا تھا (یونین کونسل پلک ملکوٹ کی مقامی سے ملکی سیاست کا ارتقاء انہی آتشزدگیوں کے ری اکشن کی مہذب تعبیر ہے) اس آگ نے دشمنی میں خوفناک اور دردناک صورت اس وقت اختیار کی جب دوسری جنگ عظیم کے بعد لالٹین، پیٹرو میکس گیس اور لیمپ مٹی کے تیل کے ساتھ متعارف ہوئے، گھر میں ساسوں (دولہا کی ماں) کو اپنی نہوں (بہو) کی کوئی بات اچھی نہیں لگی یا وہ گھر میں پوتا دینے میں ناکام رہی تو یہ خواتین ایک دوسری کو تیل کا غسل دے کر آگ دکھا دیتی تھیں اس کے بعد 90 فیصد جلے ہوئے جسم کے ساتھ کم ہی خواتین زندگی کی جانب لوٹ سکتی تھیں، فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بتیوں والے چولہے اور سٹوپ متعارف ہوئے اور گھریلو خواتین کو جان بحق کرنے کا کام یہی چولہے پھٹ کر سرانجام دینے لگے، یہ چولہے پھٹتے تو ہمیشہ بہو کو ہی آگ لگتی تھی اور مردوں سمیت گھر کے دیگر افراد محفوظ رہتے تھے۔

بجلی آنے سے قبل شب قدر (شب برات) پر کوہسار کے بانکے آگ کی نمائش کا خصوصی اہتمام کرتے، نماز مغرب کے بعد "مساہدے" جلاتے اور جلتی آگ کی اس روشنی سے ان پہاڑوں میں بسنے والی غیر مسلم اقلیت پر اپنی اکثریت کی دھاک بٹھاتے، یہ مساہدے مستری لوگ بانکوں کو دو طرح کے بنا کر دیتے، ایک اٹھانے والا ہوتا اور دوسرا اچھالنے والا، اچھالنے والے مساہدوں میں دہلیوں کے علاوہ سبھ، تاریں اور ربڑ بھی استعمال کی جاتی اور ایک ٹورنامنٹ کی طرح یہ مساہدے سحری تک اچالے جاتے۔

نئے عہد کے بعض روشن خیال لوگ اس زرعی معاش (Agri based economy) کی آزادی کے دور کو عہد جاہلیت بھی کہتے نہیں تھکتے مگر یہ بات از خود جہالت ہے کہ ہم اپنے اجداد کی زرعی ثقافت (Agri based culture) کی نفی کریں، تہذیب (Civilization) کا سفر تو ہر حال میں جاری رہتا ہے، بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں روات مری میں ایک علمی اور ادبی فورم قائم کیا گیا جسے "انجمن اصلاح قوم ڈھونڈ" کہا جاتا تھا، یہ ایسی انجمن تھی کہ جس کے سٹیج پر ہونے والے مشاعروں میں برصغیر کے مولانا ظفر علی خان، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک اور اسی طرح کے ٹاپ شعراء اپنا کلام سنا کر اہلیان کوہسار سے داد پاتے اور سرداران روات کی محبت بھری پرتکلف ضیافتوں سے لطف اندوز ہوتے،انہی مشاعروں نے مقامی سطح پر پروفیسر کرم حیدری اور مورخ نور الہٰی عباسی کو پیدا کیا، نور الہی عباسی کہا کرتے تھے کہ انہیں شاہنامہ اسلام اور پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری کا پورا کلام یاد ہے … دراصل تہذیب کے نگار خانے میں انہی تابناک روایات کی شمعوں کو سحر ہونے تک ہر حال میں جلنا ہوتا ہے۔

خراج عقیدت کے مستحق ہیں کوسار کے وہ زندہ دل لوگ جو اپنے عہد کے مستحقین میں آگ بانٹا کرتے تھے مگر اس لئے کہ اندھیروں کی جگہ اجالے ہوں، کچے اناج کو پکا کر روٹی کی شکل دی جا سکے، خون منجمد کرنے والی کالی کالواخ ٹھٹھرتی طویل راتوں میں یہ آگ اہلخانہ اور مویشیوں کو سردی سے بچائے، یہ آگ بانٹنے والے ہر دور، ہر معاشرت اور ہر برادری میں موجود ہوتے ہیں،صرف انہیں کھوجنے کی ضرورت ہوتی ہے جو آج ہم میں نہیں ہے۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 64760 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More