اعتراف
(Sami Ullah Malik, London)
میں ہمیشہ دل کی بات کر تا ہوں
آپ سے۔خود کو کبھی حرف اول وآخر نہیں سمجھامیں نے۔میں انکسار سے نہیں کہہ
رہا کہ میں کچھ نہیں جا نتا ،واقعی ایسا ہی ہے ۔میں لو گوں سے گفتگو کر تا
ہوں ،انہیں پڑھتا ہوں ۔ہا ں میں بہت کتا بیں پڑھتا ہوں اور ہر طرح کی۔آج
بھی میرے پاس سینکڑوں کتب ہیں لیکن میں وسیع المطا لعہ ہو نے کا دعویٰ دار
کبھی بھی نہیں رہا۔میں نے بہت کچھ دل لگا کر پڑھا ہے اور کچھ سے میں سر سر
ی گزرا ہوں۔
میں کوئی دانش ور نہیں ہوں ،عام سا بندہ ہوں ۔میرے رب کا کرم ہے کہ مجھے
بہت سے اہل علم و فضل کی صحبت حاصل ہے۔ان سے خوب بحث مبا حثہ کی کیفیت بھی
رہتی ہے۔بس یہ کر م ہے میرے رب کا ،تو فیق ہے میرے پا لنہار علیم و خبیر
کی۔میں تو ا پنے بچوں سے بھی بہت سیکھتا ہوں اور کھلے دل سے اس کا اعتراف
بھی کر تا ہوں ۔اس کا اظہار اکثر آپ کو میری تحریروں میں بھی ملے گا۔میں
بہت سے معا ملات میں کورا ہوں،ہما رے بچے بہت ذمہ دار اور سمجھدار ہیں ۔منافقت
سے مبرا ، بالکل صاف سیدھی اور آسان زبان میں عمدگی کے ساتھ حالات پر تبصرہ
کر تے ہیں۔مجھے اس کا اعتراف ہے اور کرنا بھی چا ہئے۔
ہما را ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اعتراف نہیں کر تے ،تسلیم نہیں کر تے
،ہم غلطی کر تے ہیں اور اس پر دلیل لا تے ہیں ۔یہ تو کہا گیا ہے کہ احسان
کرو اور بھول جاؤ،مت جتلاؤ ، لیکن یہ کب کہا گیا ہے کہ جس پر احسان کیا جا
ئے وہ بھی اپنے محسن کا تذکرہ نہ کرے!اسے ضرور اپنے محسن کا ذکر کر نا چا
ہئے اور بہت پیار سے کرنا چا ہئے جبکہ ہم نہ تو اعتراف کر تے ہیں اور نہ ہی
ہم میں غلطی تسلیم کرنے کی خو ہے۔غلطی ہو جائے تو ہمیں کھلے دل سے تسلیم کر
نا چاہئے کہ ہم غلطی پر تھے۔ہم انسان ہیں،ہو گئی ہم سے غلطی،ہمیں نا دم ہو
نا چا ہئے ، پشیمان ہو نا چا ہئے،معذ رت کر نے میں ذرا بھی تا خیر نہیں کر
نی چا ہئے۔لیکن ہم نہیں کر تے ۔ہما رے اندر ایک بہت بے حس اور سفاک آدمی
رہتا ہے ،وہ ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے ، بغیر پھل کے،جھکتا ہی نہیں ہے۔ہاں بہت
سی باتیں اور معا ملا ت ایسے ہیں کہ سر کٹ جائے تو غم نہیں،جھکنا نہیں چا
ہئے۔خاک بسر انسا نوں کے سر ظالموں کے سا منے کیوں جھکیں؟ جھوٹ،فریب،دغا
بازی،مکاری اور عیاری کے سا منے کیوں جھکیں؟با طل کے سا منے سر تو بلند
رہنا ہے لیکن انسا ن کو جھکا ہوا ہی رہنا چا ہئے۔جب پھل لگ جا تے ہیں تو
شجر جھک جا تے ہیں۔
اسلام نے عبادات کا جو تصور دیا ہے کیا وہ اپنا اثرا ت نہیں رکھتا؟ کیا یہ
رب نے ویسے ہی کہہ دیا ہے؟یہ انسان کو انسان بنا تا ہے،اسے ثمر بار کرتا
ہے،اور اگر ہم سب کچھ کرتے ہوئے یہ پھل نہیں پا تے تو سو چنا چاہئے کہ کہیں
کوئی گڑبڑ ہے۔رب کے فرمان میں تو نہیں ہو سکتی،ہم میں ہی ہے تو وہ ہمیں
تلاش کر نی چا ہئے۔ہم دوسروں کے عیب تلاش کر تے رہتے ہیں اور ہمیں اتنی
مہلت ہی نہیں کہ اپنے عیبوں کو کھوج سکیں۔ہمیں پردہ پو شی کا حکم دیا
گیاہے‘تشہیر کی بجائے اس سے بچنا چا ہئے،بس․․․․․!
میرے رب کی تو ہے یہ ساری کا ئنات،سب کچھ،سارے موسم،سارے ماہ و سال،اور وہ
سب کچھ جو نظر آتا ہے اور جو پو شیدہ ہے․․․․․․سب کچھ رب کا ہے،لیکن یہ جو
ما ہ رمضان ہے اسے اس نے کتنی چاہ سے ،پیار سے کہا ہے کہ یہ میرا ہے،میں
خود دوں گا اس کا صلہ۔ہم بھی جب کسی سے کہیں کہ ہیں تو بہت سے لوگ میرے ارد
گرد لیکن یہ جو فلاں ہے،یہ بہت خاص ہے،میرا ہے تو دل کتنا شاد ہو جاتا ہے
خوشی سے،مسرت سے۔تو یہ بہت خاص ہے کہ میرے رب نے کہا ہے یہ میرا ہے۔
ہم نے اپنی نیند قربان کی ہے،ہم سحری میں اٹھتے ہیں اور سورج ڈھلنے تک بھو
کے پیاسے رہتے ہیں ،کیوں؟اس لئے ناں کہ میرے رب نے کہہ دیا ہے، میرے رب کو
کیا ملتا آپ کی بھوک سے،پیاس سے،سجدوں سے ،تلا وت سے،کچھ بھی تو نہیں ملتا
اسے۔بس وہ دیکھتا ہے کہ بندے نے سر تسلیم خم کر لیا۔اور پھر کریم اتنا ہے
کہ تو فیق بھی خود دیتا ہے ،ورنہ ہم کیا اور ہما ری اوقات کیا۔
روزہ ہمیں برداشت سکھاتا ہے،‘ایثار سکھاتا ہے،غم خواری سکھاتا ہے،‘قربا نی
سکھاتا ہے،ضبط نفس کا درس دیتا ہے، میر ے اندر کے بت کو توڑتا ہے،ہمیں بندہ
نفس بننے سے بچاتا ہے،بندوں سے محبت کر نا سکھاتاہے۔جس تر بیت کی انسان کو
ضرورت ہے وہ مکمل جا مع شکل میں ہم تک پہنچا تا ہے،یہ ہے رمضان۔لیکن کیا
ایسا ہی ہے؟ہم روزانہ اس کا مشاہدہ کر تے ہیں۔ہم نے برداشت کرنا سیکھا؟ہم
نے حق تلفی سے دامن بچایا؟ہم نے دل آزاری چھوڑ دی؟ہم نے معذرت کی اور آئندہ
وہ کام نہ کر نے کا عہد کیا؟ہم نے انسانوں کی خدمت کی؟ہم نے صبر کیا؟ہم نے
اپنے نفس کو پچھاڑا؟نہیں ناں․․․․․․ہم اب بھی ایسے ہیں،اپنی انا کے بت کے
پجاری۔اگر ہم روزہ ،نماز،حج زکوۃ اور عمرے کر کے بعد بھی ویسے کے و یسے ہی
ہیں تو بے کا ر ہے ناں یہ سب کچھ․․․․․کیا حاصل اس کا!مجھے بتائیے۔
مجھے تو خود پر توجہ دینی چا ہئے کہ میرے اندر کو ئی گڑ بڑ ہے،میرے اندر ہے
کوئی خرابی!میں خود کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے پڑا رہتا ہوں ،مجھے تو خود
کو دیکھنا چاہئے‘مجھے اپنا محاسبہ کر نا چاہئے،نہیں کرتے ناں ہم ایسا!بس
دوسروں کو ڈستے رہتے ہیں۔ہمیں بندہ بننا چاہئے اور ہم خدائی لہجے میں بات
کرتے ہیں ۔نہ عجز ہیں ہم میں اور نہ انکساری،نہ رحم دلی نہ خلوص،اصل درکار
ہے میرے رب کی بارگاہ میں،وہاں جعلی کا گزر نہیں ہے،بالکل بھی نہیں ۔ہم
روزہ رکھ کر دوسروں سے ایسا بر تاؤ کرتے ہیں جیسے ہم نے کوئی احسان کر دیا
ہے ۔ میں سرتاپا غصے میں لتھڑا ہوا ہوں،‘میں آگ اگل رہا ہوں اور پھر میں
روزے سے بھی ہوں،‘عجیب بات ہے۔
اگر ہم نے اس ماہ میں زیادہ نہیں صرف ایک کا م کر لیا کہ اپنی خا میوں پر
نظر ڈال لی اور انہیں دور کر نے کی کو شش کی۔کیایہ بہت مشکل ہے ؟لیکن رب کی
تو فیق سے تو کوئی کام مشکل نہیں رہتا،وہ رحمت ہے اور رحمت آسا نی کا نام
ہے۔
مجھے آج ہی یہ بات طے کر لینی چاہئے کہ میں بندہ نفس نہیں ،بندہ رب بنوں
گا۔اپنے اندر کے بت کو پاش پا ش کر کے با ہر پھیکنا ہے۔اگر میں اس میں
کامیاب ہو گیاتو میں سمجھوں گا کہ میں نے اس ماہ رمضان کی بر کتیں سمیٹ لی
ہیں۔اگر نہیں تو بس خسارہ ہے․․․․․بہت نقصان․․․․․ناقا بل تلا فی۔ بس میں
بھوکا پیاسا،ٹنڈ منڈ درخت،بغیر کسی پھل پھول کے۔
بہت خوش رہیں آپ،سدا خوش رہیں۔
کچھ بھی تو نہیں ،فنا ہے،فنا ہے ہر جا فنا ہے۔بس نام رہے گا اﷲ کا۔ |
|