تباہی کے آثار

ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے پستیوں کی طرف گامزن ہے ،ہم خود ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ، خود غرضی اور حرص جیسی آفت دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے،ماردھاڑ کا بازار گرم ہے نہ جان محفوظ ہے نہ مال اور نہ عزت و آبرو،معاشرے کے مسائل سنگین رخ اختیار کر چکے ہیں ،خواہشات نفس کی پیروی میں حلال و حرام کی تمیز کھو چکے ہیں جائز و ناجائز کا احساس ختم ہو چکا ہے اور ایک غیر متوازن صورت حال کا سامنا ہے،موجودہ دور میں معاشرتی برائیوں کا اس قدر انبار لگ چکا ہے کہ ان کا شمار مشکل ہے اور مزید اضافہ ہو رہا ہے ،اس غیر متوازن صورت حال نے انسانوں کو اس قدر تقسیم کر دیا ہے کہ انسانی حقوق و اقدار کا گلا گھٹ گیا ہے پیار و محبت ،میل جول میں بھی خود غرضی، لالچ اور ملاوٹ کا عنصر پایا جاتا ہے،ایسے میں عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہر فرد اپنی جان و مال ، عزت و آبرو کے تحفظ کی فکر اور انتطام کرے ،معاملہ گاؤں کا ہو یا شہروں کا بالخصوص خواتین اور معصوم بچے ہر طرف ،ہر جگہ اور ہر قدم خطرات سے دوچار ہیں ،معاشرتی سطح پر عدم توازن اور انسانوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی اور دوریوں کی کیفیت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک طرف لوگوں کے پاس عالیشان بنگلے ، قیمتی گاڑیاں ،انواع و اقسام کی غذائیں عیاشی کے لئے بے پناہ دولت، وسائل و ذرائع ہیں تو دوسری طرف اسی معاشرے میں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو انتہائی غریبی اور مفلوک الحالی سے دوچار ہیں ان کے پاس بدن کو چھپانے کیلئے دھجی تک دستیاب نہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں ،غربت کے سبب بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے ،مفلسی کی حالت میں جوان لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں،رہنے کو جھگیاں، جھونپڑیاں ڈالی ہیں لیکن وہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا جاتا،سوچنے کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں اس قدر عدم توازن کیوں ہے ؟ کیوں وسائل و ذرائع سے لیس افراد کے دلوں میں غریبوں کے لئے جگہ نہیں ہے ؟۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانی تحفظ کے لئے قوانین کی تشکیل پر زور دیتی ہیں لیکن معاشرے میں جرائم کی اس قدر بہتات ہے کہ قانون کہیں دکھائی نہیں دیتا ،انسانوں سے زیادتی کے واقعات اور دیگر وارداتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ،لٹیروں کی تعداد اور سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں ، گھر ،دکان ، کارخانے دفاتر، بینکس کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی اگرچہ لوگوں نے حفاظت کا مکمل انتظام بھی کر رکھا ہے ،پہرے دار بٹھائے ہیں الارم سسٹم نصب کئے گئے ہیں باوجود مکمل سیکیورٹی کے آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے لٹیرے سب کچھ لوٹ کر لے جاتے ہیں اور نام نہاد قانون کے رکھوالے ان کی دھول چاٹتے رہتے ہیں۔
حکمرانو ں کی غلطیوں کے علاوہ عوام بھی کہیں نہ کہیں ان تمام آفات کی ذمہ دار ہے کیونکہ مادہ پرستی نے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے دولت کی لالچ اور اسکے حصول کیلئے وہ ایسے طریقے اختیار کر رہے ہیں جو انسانیت کے حق میں ضرررساں ہیں ،مال و دولت کے حصول کو اسلام نے منع نہیں کیا ہے لیکن اسے ایسے طریقے سے کمانے کا حکم دیا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے کسی کی حق تلفی نہ ہو کسی جرم کا ارتکاب نہ ہو ،جھوٹ و فریب دے کر روزی کمانے سے منع کیا گیا ہے ،اب مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ ان برائیوں سے چھٹکارہ پا سکے گا یا بدستور اسی ڈگر پر چلتا ہوا مزید پستی میں گر جائے گا؟
انسان کو اﷲ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور اپنی پاک کتاب قرآن حکیم میں ایک پر سکون زندگی گزارنے کے ایسے نادر طریقے بتائے ہیں کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو تاحیات پر سکون اور اطمینان بخش زندگی گزار سکتا ہے ،لیکن دور حاضر میں شیطان نے انسان کو مات دے دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان مذہب سے کنارہ کش اور مادیت کی طرف کھینچا چلا جا رہا ہے اور اس سے وہ تمام چیزیں چھن چکی ہیں جو اسے ممتاز کرتی ہیں ،خاص طور پر انسانیت کو تباہی سے دوچار کرنے والی نمائشی طاقتوں نے نوجوان نسل کو تباہی کے دھانے پہنچا دیا ہے ۔فیشن پرستی ، سنیما ،ٹی وی کلچر اور مغربی تہذیب نے دنیا بھر میں نوجوانوں نسل جن میں خواتین بھی شامل ہیں بے راہ روی سے روشناس کروایا ہے ،اسی آزادی کے سبب معاشرے میں روز بروز جرائم کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور قانون نے مجرموں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے ،ایسے افسوسناک حالات میں ریاست کی مذہبی ،سماجی اور دیگر تنظیموں کی ذمے داری ہے کہ وہ حکومت پر ہر ممکنہ دباؤ ڈالیں کہ قوانین کو سخت سے سخت بنائیں اور حصول انصاف کو سستا ،آسان اور جلد حاصل ہونے کے قابل بنایا جائے نہ کہ برسوں چلنے والی مقدمہ بازی سے انصاف کا مقصد اور نسلیں ختم ہوجائیں لیکن مقدمہ بازی جاری رہے۔

مغربی ممالک بھی جہالت کے دور سے گزرے ہیں لیکن قانون کی بالا دستی اور عمل داری نے آج انہیں ایک مہذب قوم بنا دیا ہے ،بلاشبہ مغربی ممالک میں عریانیت پھیلی ہوئی ہے لیکن مغرب اور مشرق میں تضاد ہے نہ تو یہ قوم برقعہ پہنے گی اور نہ مسلم بے لباس ہونگے ، اگر مغربی ممالک میں فیشن کے نام پر عریانیت کو فروغ مل رہا ہے تو پاکستان میں کیوں الیکٹرونک میڈیا مغرب کی یا پڑوسی ملک کی نقالی میں مصروف ہے ، روشن خیالی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین کو بے لباس یا مختصر دھجیوں میں لپیٹ کر باپردہ خواتین کو دکھایا جائے ،حیرانگی کی بات ہے کہ اسی چینل پر وقفے وقفے سے کبھی تو عریانیت دکھائی جاتی ہے اور پھر عوام کا ذہن بٹانے کے لئے اسلامی درس دینے شروع کر دئے جاتے ہیں ،باکمال اور لاجواب میڈیا ہے گناہ کی تلقین بھی کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کرچکے گناہ اب توبہ بھی کرو۔

گزشتہ کالم علم کی روشنی میں تحریر کر چکا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے علم حاصل کرنے کو فرض کا درجہ دیا ہے ظاہر بات ہے ایک تعلیم یافتہ انسان مادیت یا شیطان کے بہکاوے میں اتنی جلدی نہیں آتا جتنا ایک غیر تعلیم یافتہ،اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شیطان کو انسان پر فوقیت حاصل نہیں ہے بشرطیکہ انسان کے اندر خود اعتمادی اور نفس پر قابو پانے کی ہمت ہو،دنیا کی کسی کتاب میں درج نہیں ہے کہ جان بوجھ کر جرائم اور گناہ کرو اور پھر اﷲ تعالیٰ سے معافی کے طلب گار ہو۔

مغرب میں تباہی کے آثار ہر مسلمان کو نظر آتے ہیں ،کیا کبھی کسی نے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھا ہے کہ وہ خود کس کی پیروی کر رہا ہے جو کچھ پاکستان میں مذہب کی آڑ میں انسانوں سے سلوک کیا جاتا ہے کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے ،کیا مذہب میں یہ لکھا ہے کہ دوسرے کی ماں بہن بیٹی اور مال و زرپر بری نظر رکھو ،کہاں درج ہے کہ اپنی خوشنودی، بھلائی اور خوشحالی کیلئے دوسرے انسان سے حیوانوں جیسا سلوک کرو،کس اسلامی کتاب میں لکھا ہے کہ اپنے مفادات کیلئے جھوٹ ،بے ایمانی ،دھوکہ ،فریب ،تشدد اور قتل کرو۔

عریانیت یا فحاشی سے معاشرے کے نوجوان طبقے پر برے اثرات پڑتے ہیں لیکن جو کچھ مذہب کی آڑ میں وطن عزیز میں ہوتا آیا ہے یا ہو رہا ہے اس سے معاشرہ ہی نہیں بلکہ پوری قوم تباہی کی طرف جارہی ہے، ذرا سوچئے ؟۔

مغربی ممالک میں چند زریں نکات پرعمل درامد ہونے سے آج وہ ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں ،مثلاً وقت کی پابندی ، ذمہ داری ، اخلاق ، میل جول، انسانی حقوق،قوانین،ڈسپلن ، تحفظ اور سب سے بڑھ کر جو احکامات اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر مسلمانوں کو دئے ان پر عمل کرتے ہوئے یہ غیر مسلم اقوام ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں اور ایک مسلم قوم ہے جس کو ان زرین احکامات کی روشنی میں زندگی ، مستقبل اور آخرت سنوارنا چاہئے وہ پستی میں گر چکی ہے اسکے ذمے دار ہم خود ہیں نہ کہ مغربی ممالک۔تباہی کس کے سر پر منڈلا رہی ہے مغرب پر یا اسلامی جمہوریہ پاکستان پر؟ذرا سوچئے؟۔

ہم لوگ آئے دن سوچے سمجھے بغیر مغرب اور امریکا کو صلواتیں سناتیں رہتے ہیں کہ یہ بے شرم اور بے حیا قومیں اور ملک ہیں انہی کی وجہ سے پاکستان تباہ و برباد ہو رہا ہے تو ایک سوال ہے ،ان ممالک یا قوموں نے کہا ہے کہ کیبل یا سیٹلائٹ انٹینا چھتوں پر لگاؤ انہوں نے کہا ہے کہ سود کا کاروبار کرو،انہوں نے کہا ہے کہ چوری اور ڈاکے ڈالو،انہوں نے کہا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو اغواہ کرو انہوں نے کہا ہے کہ۔۔۔۔
ان کے پاس اپنے گھر اپنی فیملی کیلئے وقت نہیں ہوتا ان کی زندگی ایک مشینی زندگی ہے اور وقت انکا مستقبل،صبح پانچ یا چھ بجے بیدار ہوتے ہیں ناشتہ کئے بغیر کاموں کی طرف دوڑ لگا تے ہیں دن بھر کام کرتے ہیں شام پانچ یا چھ بجے گھر آتے ہیں ،اور دو تین گھنٹے فیملی کے ساتھ گزارنے کے بعد رات دس بجے سونے جاتے ہیں تاکہ نیند پوری ہو ، ہفتہ اتوار کی چھٹی رشتہ داروں ، دوستوں یا تفریح میں گزارتے ہیں اور پھر کام۔ان کے پاس دنیا کا اور کوئی کام دھندہ نہیں کہ یہ سوچیں پاکستان کو کیسے ختم کیا جائے؟پاکستان میں دہشت گردی کیسے پھیلائی جائے،کیسے سکھایا جائے کہ چوری کیسے کی جاتی ہے ،جھوٹ کیسے بولا جاتا ہے،رشوت کیسے لی اور دی جاتی ہے عورتوں اور بچوں کو کیسے اغواہ کیا جاتا ہے اور چند روپوں کی خاطر انہیں بے دردی سے کاٹ ڈالا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

ملک کو تباہی سے بچانا ہے تو سب کو متحد ہونا ہوگا ،فرقے ،ذاتیں یا قومیں نہیں ایک پاکستانی بننا ہو گا دنیا کا ہر باشندہ فخر سے کہتا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں فلاں ملک کا باشندہ ہوں جبکہ اسی دنیا میں ہی کئی پاکستانی ایسے بھی ہیں جو شرم محسوس کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیں۔کیوں ؟

عہد کرنا ہوگا کہ جس اسلامی تعلیم کو سامنے رکھ کر غیر مسلم اقوام ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہیں اسی اسلامی تعلیم کو اپنی روح میں ڈھالنا ہوگا، پہلے ایک اچھا انسان بننا ہو گا پھر مسلمان اور پھر ایک پاکستانی ،تاکہ دنیا میں سر اٹھا کر سینہ تان کر کہہ سکیں ہم ہیں پاکستانی ۔
’’ ایک اچھا انسان اور مسلمان بننا ہزار گنا بہتر ہے نہ کہ ایک برا پاکستانی ‘‘۔

یاد رہے اگر ہم نے اپنی ڈگر اپنی سوچ اپنا مقصد نہ بدلا تو تباہی کے آثار دکھتے کہیں اور ہیں لیکن اس تباہی کے شکار ہم ہونگے۔

دنیا فانی ہے ایک دن سب کچھ ختم ہو جائے گا انسان کا وجود مٹی سے بنا ہے مٹی میں ہی مل جائے گا لیکن کچھ ایسا کر جائیں کہ دنیا یاد رکھے۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.