اﷲ کی دی ہوئی ہر چیز بشمول اولاد اﷲ کی امانت ہے
(Dr Rais Samdani, Karachi)
مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان
ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں ہمیں جو چیز بھی عطا کی ہے حتیٰ کہ
اولاد بھی اس کی عطا کردہ امانت ہے وہ جب چاہیے اپنی یہ امانت ہم سے واپس
لے سکتا ہے۔ چنانچہ اس کی عطا کردہ نعمتوں کا ہر دم شکر ادا کرتے رہیں اور
اگر کسی وقت وہ اپنی عنایت کردہ کوئی چیز خواہ اولاد ، ماں،باپ، بھائی بہن
یا کوئی اور عزیز ہی کیوں نہ ہو واپس لے لے تو بھی اس کا شکربجا لائیں اور
صبر کریں۔
نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا دو سال کی عمر میں
انتقال ہوا تو آپ ﷺ کو اس کا شدید ملال اور دکھ پہنچا اس موقع پر آپ ﷺ نے
فرمایا’’آنکھیں اشک بار ہیں ، دل غمگین ہے اور ہم تو وہی بات کہیں گے ، جو
ہمارے رب کی مرضی کے مطابق ہو۔ ابراہیم! ہمیں تمہاری جدائی کا بہت صدمہ ہے،
صحابہ کرام نے رسول اﷲ ﷺ کو اس کیفیت میں دیکھا تو انہیں تعجب ہوا، حضور ﷺ
نے فرمایا ’’یہ تو (اولاد کے لیے)
رحمت و شفقت کا ایک جذبہ ہے، جو اﷲ تعالیٰ ہر انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے‘‘۔
اُ سوۂ رُسولِ اکرم ﷺ کے مؤلف ڈاکٹر محمد عبد الحئی عارفی نے ترمذی ،حصن
حصین، معارف الحدیث کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کا مکتوبِ تعزیت معاذ بن جبل
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کی وفات پرنقل کیا ہے جس میں آپﷺ نے اولاد کے
دنیا سے رخصت ہوجانے کی صورت میں صبر کرنے کی تلقین کی۔رسول اکرم حضرت محمد
ﷺ نے اپنے مکتوب میں معاذ بن جبل کے بیٹے کی وفات پر انہیں لکھا:ترجمہ’
’شروع کرتاہوں اﷲ کے نام سے جو بڑارحم کرنے ولا اور مہر بان ہے۔اﷲ کے رسول
محمد ﷺ کی جانب سے معاذ بن جبل کے نام، تم پر سلامتی ہو ، میں تمہارے سامنے
اﷲ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں ،جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ حمد و ثنا کے بعد
اﷲ تمہیں اجر عظیم عطا فرمائے اور صبر کی توفیق دے اور ہمیں اور تمہیں شکر
اد ا کرنا نصیب فرمائے۔ اس لیے کہ بے شک ہماری جانیں، ہمارا مال، ہمارے اہل
و عیال اور ہماری اولاد (سب) اﷲ بزرگ و برتر کے خوشگوار عطیے اور رعایت کے
طور پر سپرد کی ہوئی چیزیں ہیں، جن سے ہمیں ایک معین مدت تک فائدہ اٹھانے
کا موقع دیا جاتا ہے اور مقررہ وقت پر اﷲ تعالیٰ (واپس) انہیں لے لیتا ہے۔
پھر ہم پر فرض عائد کیا گیا ہے کہ جب وہ دے تو ہم شکر ادا کریں اور جب وہ
آزامائش کرے اور ان کو واپس لے لے تو صبر کریں۔تمہارا بیٹا بھی اﷲ تعالیٰ
کی ان ہی خوشگوار نعمتوں اور سپرد کی ہوئی عاریتوں میں سے (ایک عاریتی عطیہ)
تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے قابل رشک اور لائق مسرت صورت میں نفع
پہنچایا اور (اب ) اجر عظیم رحمت و مغفرت اور ہدایت کے عوض لے لیا بشرط کہ
تم صبر (و شکر) کرو۔ لہٰذا تم صبر (و شکر) کے ساتھ رہو(دیکھو) تمہارا رونا
دھونا تمہارے اجر کو ضائع نہ کردے، کہ پھر تمہیں پشیمانی اٹھانی پڑے اور
یاد رکھو کہ رونا دھونا کچھ نہیں ہوا کرتا اور نہ ہی غم و اندو ہ کو دور
کرتا ہے اور جوہونے والا ہے
وہ تو ہوکر رہے گا اور جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ سلامتی ہو تم پر۔فقط‘‘۔
راحم ۱۱ نومبر ۲۰۱۲ء سعودی وقت کے مطابق صبح نو پینتالیس پر ’جدہ نیشنل
اسپتال‘ میں دنیا میں آیا۔ یہ اسپتال جدہ کی مروہ روڈ پر واقع ہے۔یہ پھول
میرے بڑے بیٹے عدیل اور مہوش کے آنگن میں نمودار ہوا، خوشی و انبسات کے
ساتھ سب نے ننھے ’راحم‘ کا استقبال کیا، دل خوشی سے پھولے نہ سماتا
تھا،میری خوشی کی انتہا نہ تھی میں دل ہی دل میں فخر محسوس کررہا تھاکہ ایک
اور میرے نام کو دنیا میں آگے لے جانے والا آگیا ہے۔ پھول نے اپنی مہک سے
اس دنیا کو جلد منور کردیا، وقت سے قبل دنیا میں آگیا، کہ یہ حکم خدا وندی
تھا، جس روح کو جس وقت دنیا میں آنا ہے وہ وقت مقرر پر آکر رہتی ہے۔
مہینوں، دنوں اور ہفتوں کا حساب و کتاب تو انسانوں کے لیے ہے اﷲ نے جو وقت
مقرر کردیا وہی وقت آنے اور جانے کا ہوتا ہے۔دنیا وی حساب و کتاب کے مطابق
ہمارا ننھا ’راحم‘ بھی وقت سے پہلے آگیا، اب کیا ہوسکتا تھا ،ہمیں کیا
معلوم تھا کہ اُسے آنے کی بھی جلدی تھی اور اس کی واپسی کا وقت بھی مقرر
کیا جاچکا تھا۔ بہت کم وقت تھا اس کے پاس، دنیا میں آتے ہی وہ اپنی ماں
(مہوش)، باپ(عدیل( اور بھائی(صائم) کی آنکھ کا تا را بن گیا، ہزاروں میل
دور پاکستان میں اس کے دادا ، دادی، چچا اور چچی بھی اس کی آمد پر پھولے نہ
سماتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں جشن منا یا، ننھے راحم کی درازی عمر اور
صحت کے لیے دعا کرتے رہے، راحم کو تو اپنی واپسی کا انتظار تھا ، وہ ایک
ایک دن مشکل سے گزار رہا تھا، اسے آنے کی بھی جلدی تھی اور جانے کے لیے بھی
بے قرار تھا۔دنیا میں آتے ہی قبل از وقت پیدائش کے پیچیدہ معاملات سے دور
چار ہوگیا۔ آئی سی یو ، انکیوبیٹر ، دوائیں انجیکشن اور ڈرپ وغیرہ وغیرہ
۔جدہ متبرک سرزمین ضرور تھی لیکن اجنبیت، زبان ، تنہائی ، اکیلا پن، کوئی
عزیز رشتہ دار نہیں، پڑوسی بھی تمام سعودی یا غیر ملکی ۔ ساتھ ہی ایک ایسا
بچہ بھی جسے کسی کے پاس چھوڑا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ
اگر ہمارے ملک کے حالات بہتر ہوتے تو پاکستانیوں کو کسی بھی ملک جاکر
اجنبیوں کی سی زندگی گزارنے کی کیا ضرورت تھی لیکن ہمارے ملک کے حالات
بجائے ٹھیک ہونے کے بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔نہیں معلوم اس ملک کو کس کی
نظر لگ گئی ہے۔ جب کبھی اس قسم کا حادثہ پیش آجاتا ہے تو اجنبی ملک کی تمام
تر آسائشیں ، سہولتیں اورمالی منفعت ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ اپنا ملک پھر
اپنا ہوتا ہے۔
اس مشکل وقت میں عدیل پر کیا گزری اس نے تنہا تمام معاملات کا مردانہ وار
مقابلہ کس طرح کیا یہ وہی جانتا ہے لیکن وہ ہمیں جس جس طرح تفصیلات سے آگاہ
کرتا رہا اگر ہمارے پر ہوتے تو ہم اڑ کر وہاں پہنچ جاتے لیکن سعودی عرب
شاید دنیا کا ایسا واحد ملک ہے کہ جہاں کسی بھی طرح کی ایمرجنسی میں آنا تو
ممکن ہے لیکن فوری جانا ممکن نہیں اور ہم بھی ہاتھ ملتے رہ گئے۔ عدیل کو
ہدایت کی کہ نومولود کے کان میں اذان دے ، نام ’’محمد راحم عدیل ‘ طے پایا۔
ساتویں دن اس کا عقیقہ بھی ہم نے کردیا اس لیے کہ عقیقہ بچے کی پیدائش سے
ساتویں دن کرنے کی ہدایت احادیث میں ملتی ہے۔عقیقہ کردینے سے بچے کی بلائیں
دور ہوجاتی ہیں اور وہ آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔
راحم مسلسل اسپتال میں رہا چند روز بہتر صورت حال رہی لیکن رفتہ رفتہ
مشکلات سے دوچار ہوتا گیا۔ اس صورت حال میں ۳۵ دن گزر گئے لیکن راحم بہتری
کی جانب نہ آیا۔ آخر کار وہ وقت آگیا کہ جب اس کی سانس کی رفتارسست پڑگئی،
ڈاکٹر وں نے دوا کے بجائے دعا کے لیے کہا۔مسلمان کی حیثیت سے ہمارا
پروردگار ہی ہمارا آخری سہارا ہوتا ہے۔ ہم سب راحم کی زندگی اور صحت کے لیے
دعا کرتے رہے۔ عدیل نے خانہ کعبہ جا کر طواف کیا اور نومولودکی درازیِ عمر
اور صحت یابی کی دعا بھی کی۔ ۱۵ دسمبر ۲۰۱۲ء بعد نماز عشاء فضا ابر آلود
ہوگئی ، آسمان تیور بدلنے لگا۔ رات کے بگو لے اُڑ نے لگے ، ہواؤں کے جھکڑ
چلنے لگے۔پھول کا رنگ زرد ہوگیا۔ ٹہنیاں جُھک جُھک گئیں ، غنچے سہم کر
ٹہنیوں کی اوٹ میں چھپ گئے اور باغباں(عدیل) حیران و پریشان ہواؤں کا رنگ
دیکھ رہا تھا کہ معصوم سا ، کو مل سا ، کہکشاں کی طرح جگمگاتا مسکراتا
’راحم‘ ہواؤں کی تپش سے جُھلسنے لگا، تپنے لگا، ننھے ننھے لب کانپنے لگے ،
خوبصورت آنکھیں بند ہونے لگیں، ننھا سا سہما سہما و جود فضاؤں کی بے رُخی
کی تاب نہ لا کر دھیرے دھیرے لرزنے لگا ، مگر لب خاموش تھے صرف بند آنکھیں
بولتی تھیں۔ ٹہنیاں جو پھول کی نرم نرم آغوش محبت کی عادی تھی بے رحم ہواؤں
کی تپش سے مُرجھانے لگیں، شاخ پر ڈولنے لگیں۔ ساتھی پھولوں نے سہارا دیا
مگر وہ ننھا سا کومل جان جو ابھی پوری طرح کھلا بھی نہیں تھا بے مہریٔ
زمانہ کے ہاتھوں بے بس ہوکر اپنی کرنوں کو سمیٹنے لگا ، نہ جانے اسے کس مہر
باں کاا نتظار تھا۔ باغباں (عدیل )جس نے خونِ دل سے پھول کی آبیاری کی تھی
، غنچوں کو گدگدایا تھا ، ہنسا یا تھا ، شگفتہ پھولوں کو مہک عطا کی تھی
اسپتال آپہنچا۔ مگر دیر ہوچکی تھی وقت کا صیاد اپنا تیر چلا کر جاچکا تھا
۔وہ بند آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں اپنے بابا کو اپنے نذدیک پا کر مطمئن
سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں۔ پھول نے چپکے سے آنکھ موندلی۔ہمیشہ کے
لیے۔باغباں تھراگیا، پھول کا چہرہ فرطِ غم سے سفید پڑ گیا ، غنچے بلک بلک
کر رودیئے ۔ مگر پھول تو روٹھ گیا ۔ آفتاب کی کرنیں دھند لانے لگیں ،فضاء
میں اذانِ عشاء کی آوازیں بلند ہوئیں تو وہ نازک سا پھول، وہ نودمیدہ راحم‘
پیوند خاک ہو گیا۔وہ ’راحم‘ جو آنکھ کا نور ، دل کا سرور تھا ، باغباں تہی
دست رہ گیا اورننھے سے حسین پھول کو فضا میں تحلیل ہوتے دیکھتا رہا ۔ وہ
آفاق کی لامتناہی تنہائیوں میں کھو گیا ، وہ چلا گیا ایک ایسی جگہ جہاں
دنیا کا رکھوالا اس کی نگہداشت کو موجود ہے۔ وہ راحم تھا عدیل اور مہوش کا
بیٹا اور میرا پوتا۔اماں حوا کے شہر جدہ کے قبرستان التوفیق(مقبرۃ التوفیق)
واقع حی مشرفۃ اشارع الصحافۃ ، جدہ مشرق کی قبر نمبر۱۲، لائن نمبر ۱۱ میں
آسودہ ٔ خاک ہے۔بقول شیخ ابرہیم ذوقؔ
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
راحم ! ہمیں تمہاری جدائی کا بہت صدمہ ہے۔ تم عجلت میں دنیا میں آئے عجلت
ہی میں واپس بھی چلے گئے۔ تمہارے دادا اور دادی تو تمہیں دیکھ بھی نہ سکے۔
ہمیں کم از کم اتنا وقت تودیدیتے کہ ہم تمہیں ایک نظر دیکھ ہی لیتے ۔ تمہیں
پیار کرلیتے ، اپنے سینے سے لگا لیتے۔لیکن خیر اس میں تمہارا کیا قصور یہ
تو من جانب اﷲ تھا۔تم اﷲ سے اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔یہی ہمارے رب کی
مرضی تھی۔کوتاہی تو ہماری ہی رہی تم نے تو ہمیں ایک ماہ دیا ، ہم نے ہی
تمہارے پاس آنے کی تگ ودو نہیں کی۔ اگر ہم کوشش کرتے تو شاید تمہیں اپنے
سینے سے لگا لیتے۔جی بھر کے تمہیں پیار کرتے، تمہارے آخری سفر میں تمہارے
دادا بھی اس مختصر سے قافلے کا حصہ ہوجاتے۔ میں تمہیں اپنے ہاتھوں اس مقدس
مٹی کے سپرد کرتا۔ ہمارے یہ جذبات تو اپنے نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق
اولاد کے لیے رحمت و شفقت کا جذبہ ہے۔ہمارے نبی ﷺ نے بھی تو اپنے لخت جگر
ابراہیم کواس وقت رخصت کیا تھا جب وہ صرف دوسال کے تھے۔ ابراہیم بن محمدﷺ
مدینہ کی مقدس سرزمین جنت البقیع میں آسودۂ خاک ہیں تمہاری خوش نصیبی کے
اماں حوا کے شہر جدہ کی مقدس خاک تمہارا مقدر بنی۔تمہیں یہ سعادت مبارک ۔
مجھے یقین ہے راحم! کہ جب تم نے جنت میں قدم رکھا ہوگا تو خاتون جنت نے
تمہیں بڑھ کر چوم لیا ہوگا، یقینا تمہیں نبی اکرم ﷺ کے لخت جگر ابراہیم کی
صحبت نصیب ہوئی ہوگی۔ جنت کی فضاؤں میں تمہیں تمہارا ایک بھائی محمدسبحا ن
نبیل بھی تو ملا ہوگا۔ تمہیں دیکھتے ہی اس نے تمہیں اپنے سینے سے لگا لیا
ہوگا۔ تمہاری ایک پھوپھی ’’سحر‘ ‘ بھی تمہیں ملی ہوگی،تمہیں اپنے ساتھ پا
کر یقینا بے حد مسرور ہوئی ہوگی۔ اپنے دونوں بھتیجوں کو پا کر وہ تو بہت
خوش ہوگی اس نے بھی تمہیں بڑھ کر گلے سے لگا لیا ہوگا۔ میرے گلشن کے پھولوں
دنیا و آسمانوں کا نگہہ باں تم تینوں کی نگہداشت کو موجود ہے۔
کہتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ خون پھر خون ہوتا ہے، اپنے پھر اپنے ہوتے
ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا راحم کے ماموں نسیم جو ریاض میں تھے خبر سنتے ہی جدہ
پہنچے اور راحم کے سفرِ آخرمیں پیش پیش رہے، عدیل کے ماموں ارشد جو مکہ میں
تھے خبر سنتے ہی جدہ دوڑے چلے آئے۔ اس بات کی صداقت میں یہ بیان کرنا ضروری
معلوم ہوتا ہے تاکہ ان جملوں کی صداقت واضح ہوجائے ۔ یہ سنی سنائی بات نہیں
بلکہ خود مجھ پر بیتی داستان ہے جس میں اپنے خون کا کردار بھرپور انداز سے
ابھرکر سامنے آجاتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی بات ہے عدیل کے بعدمیرا چھوٹا بیٹا نبیل
بھی سعودی عرب چلا گیا۔اب ہم دونوں میاں بیوی تنہا پاکستان میں رہ گئے۔ ایک
دن اچانک دائیں ہاتھ میں درد ہوا نوبت کارڈیو اسپتال تک پہنچی، آنن فانن
میں طے ہوا کہ اینجوگرافی ہوگی اور ہم اینجوگرافی کے بعد ایجو پلاسٹی کے
لیے آپریشن بیڈ پر پہنچ گئے۔ دونوں بچے ہزاروں میل دور ، بیٹی لاہور میں،
لیکن اس لمحے اسپتال میں میرے تمام قریبی عزیز موجود تھے۔ شہناز کو یہ تو
پریشانی تھی کہ اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن مالی یا افرادی قوت کی
کمی نہ تھی۔ اینجو پلاسٹی ایک مہنگا طریقہ علاج ہے۔ اس میں کھڑے پیر ہزاروں
نہیں بلکہ لاکھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہناز (میری شریک حیات )کو اس بات کا
کہا ہوش کہ کتنے پیسوں کی ضرورت ہوگی لیکن آفرین ہے میرے بھائیوں پر کہ
انہوں نے چند منٹوں میں لاکھوں کی ادائیگی کردی اور جب تک میں اسپتال میں
رہا میرے بھائی اسپتال کے باہر کھلے آسمان تلے اس لیے موجود رہے کہ نہیں
معلوم کب اورکس وقت کس دوا کی ضرورت پڑجائے۔ بیٹی لاہور سے رات تین بجے کی
فلائٹ سے کراچی پہنچی،صبح پانچ بجے ہی مجھ سے ملنے اسپتال آگئی جسے دیکھ کر
میں حیران و پریشان رہ گیا۔ نبیل اور ثمرا جیذان سے جدہ اور پھرکراچی اگلے
ہی دن پہنچ گئے۔ عدیل بعد میں آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خون پھر خون ہوتا ہے۔
یہ ہوتا ہے اپنا ملک، اپنا شہر اور اپنے لوگ۔ زندگی دینے اور لینے والی خدا
کی ذات ہے لیکن مشکل گھڑی میں اپنا خون ہی کام آتاہے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں ایک
دوسرے کی مشکل میں کام آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی حوالے سے ایک اور
واقعہ ۱۶فروری ۲۰۱۴ء کو حیدر آبا د سے کراچی آتے ہوئے شاہین شنوارہوٹل کے
سامنے پیش آیا۔ ایک موٹر سائیکل سوار رانگ سائڈ سے گاڑی کے سامنے آگیا،
نتیجے میں گاڑی بے قابو ہوگئی ۔ موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے گیا ،جس کا
ہمیں انتہائی دکھ ہے۔ ہماری کار لہراتی ہوئی فٹ پات سے ٹکرائی اور
قلابازیاں کھاتی ہوئی دونوں سڑکوں کے درمیان گھڑے میں جاگری، اﷲ نے زندگیاں
بچانا تھیں ہم سب بچ گئے۔ لوگوں نے مشکل سے گاڑی سے نکالا۔صرف میرے دائیں
بازو کے مونڈھے اور کہنی کے درمیان کی ہڈی کوئی پانچ جگہ سے ٹوٹ گئی۔ تین
ماہ پلسٹر چڑھا رہا۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مزید تین ماہ ہینڈ سپورٹ استعمال
احتیاط کرنا ہوگی۔ ہاتھ کی کیفیت بھی کچھ اسی قسم کا پتا دے رہی ہے۔ایکسی
ڈینٹ کے بعد ایمبولیس ہمیں لے کر بعد میں پٹیل اسپتال پہنچی میرے بھائی اور
بھتیجے ہم سے پہلے اسپتال پہنچ چکے تھے۔ہم کوئی ۱۵ دن اپنے بھائی پرویز کے
گھر ہی رہے۔ سب نے دل و جان سے خدمت کی۔ اپنوں کی اپنائیت کی بے شمار
مثالیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنا پھر اپنا ہوتا ہے، خون پھر خون ہوتا ہے،
مشکل وقت میں وہی کام آتا ہے۔ اﷲ ہمیں اپنوں سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کی
توفیق
عطا فرمائے۔ سچ ہے
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے |
|