اے قانون بنانے والو، اصلاح کو مدِ نظر رکھو۔
(Talib Hussain Bhatti, Mailsi)
حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ انصاف
کرنے والا کفر پر مبنی معاشرہ چل سکتا ہے لیکن ناانصافی کرنے والا مسلم
معاشرہ نہیں چل سکتا۔کیونکہ قانون کا بنیادی مقصد امن کا قیام اور سکون کا
حصول ہوتا ہے۔ یعنی جہاں بدامنی اور بے سکونی ہو وہاں قانون ہو بھی سہی تو
نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے-اور معاشرہ جلد تباہ ہو جاتا ہے۔
دیکھو، قانون ایک بڑی طاقت ہے ، اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں اور یہ جس کو
پکڑتا ہے پھر اس کو نہیں چھوڑتا اور کسی کو معاف نہیں کرتا- اس سے عوام
کنٹرول ہوتے ہیں، مجرم پکڑتے جاتے ہیں اور سزا پاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں
امن اور سکون پیدا ہوتا ہے۔
دیکھو، قوموں کے عروج و زوال میں قانون کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس لیے اے
قانون سازو، آپ جب بھی قانون بنانے جاوَ، معاشرے کی اصلاح کو مد نظر رکھو،
اور بلا امتیاز امیر غریب،مذہب، رنگ، نسل، علاقہ،زبان،اور لوگوں کی پرسنل
لائف کو چھیڑے بغیر تمام لوگوں کے برابر ہونے کے اصول کو ملحوظ رکھ کر
قانون بناوَ نا کہ صرف اپنے لیے، امراء اور شرفا کے فائدے کیلیے۔ بلکہ ملک
اور قوم سب کا فائدہ سامنے رکھ کر ایسا قانون بناوَ جس کا سب کو فائدہ ہو۔
اس لیے جب آپ قانون بنانے جا رہے ہوں تو یہ بھی خیال رکھیں کہ کسی وقت یہی
قانون آپ کے اپنے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے اور آپ بھی سزا پا سکتے
ہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود ہی قانون بناتا ہے اور پھر خود ہی اس
میں پھنستا اور سزا بھگتتا ہے۔ یہ اس لیے کہ انسان اپنے اعمال میں گروی
ہوتا ہے۔ یعنی اپنا کیا اپنے آگے آتا ہے اور کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔لٰہذا
آپ ہمیشہ ملک و قوم کی بہتری اور معاشرے کی بھلائی کو مدنظر رکھیں تاکہ امن
و سکون و ترقی ہو۔ کیونکہ اصلاح ہو گی تو امن و سکون ہو گا۔اورامن و سکون
ہو گا تو ترقی ہو گی۔ ورنہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔جنگِ عظیم کے دوران جب
برطانیہ کے وزیر ا عظم چرچل کو کہا گیا کہ اب دشمن ہمارے ملک پر قبضہ کرنے
کو ہے تو چرچل نے جواب دیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو پھر
ہم اس عذاب غلامی سے بچ جائیں گے۔
دیکھو، اگر قانون نہ ہو گا تو لاقانونیت اور بد امنی و بد سکونی ہوگی، اور
جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ظالمانہ معاشرہ ہو گا۔ اس لیے قانون بنانے
والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ جب بھی قانون بنانے لگیں، ملک و قوم کی بھلائی
اور معاشرے کی اصلاح کو ضرور مد نظر رکھیں۔ اور کسی امتیاز کے بغیر سب
انسانوں کیلئے برابر اور ایک ہی قانون بنائیں اور کوشش کریں کہ انسانیت کی
دشمن پانچ چیزوں غربت، جہالت،بیماری،غلامی اور ذہنی انتشار کو قانون کے
ذریعے جبراَ اور طاقت سے ختم کریں۔ اس لیے وہ انسانی نفسیات، ضروریات اور
مجبوریوں کا بھی خیال رکھیں اور ایسا قانون بنائیں جس سے جائز ناجائز، حلال
حرام،نیکی بدی،اور سچ جھوٹ کی تمیز ہی نہ مٹ جائے اور برائی ہی برائی نہ
پھیل جائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور آزادی بھی برقرار رہے اور
امن و سکون بھی قائم ہو۔کیونکہ اگر تم ایساقانون بناوَ گے جس سے معاشرہ
تباہ ہو تو اس کی تباہی و بربادی کے تم ذمہ دار ہوگے۔ تم اور صرف تم۔ اورجو
لوگ تمہارے بنائے ہوئے ظالمانہ قانون کے خلاف چوں چرا نہ کریں اور اٹھ کھڑے
نہ ہو ں تو وہ بھی تمہارے ساتھی اور پیروکار ہوں گے۔اور تمہارے اور ایسے
لوگوں کے لیے جہنم تیار ہے۔ اور اگر تم اصلاحی قانون بناوَ گے اور معاشرے
کی اصلاح کرو گے تو تمہارے لیے(منصفوں کیلئے) نہ ختم ہونے والا اجر اور جنت
کا وعدہ ہے جو کہ خدائے واحد کا سچا اور پکا وعدہ ہے اور ہر صورت میں پورا
کیا جائے گا۔
دیکھو، پہلی قومیں لاقانونیت کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں حتی کہ مصلحین
اور مفکرین نے قوموں کو عروج کے اور اصلاح کے اصول و قوانین دیے اورپھر
قوموں نے اُن پر مخلصانہ عمل کیا تو وہ قومیں قعرِ مذلت سے نکل کر ترقی کے
اعلٰی مدارج پر پہنچ گئیں۔ اور جن قوموں نے اپنے مصلحین اور مفکرین کی
باتوں پر عمل نہ کیا وہ غلامی در غلامی کے چکر میں گرفتار ہو کر تباہ و
برباد ہو گئیں۔ حالانکہ ان کے دانشوروں نے انہیں سینکڑوں بار سمجھایا تھا
کہ بانٹ کر کھانا ہے اور آپس میں پیار محبت سے رہنا ہے۔ لیکن وہ لڑ پڑتے
اور طاقتور کمزوروں پر ظلم ڈھایا کرتے تھے کیونکہ ان کا کوئی قانون اصول نہ
تھا۔ لٰہذا سنبھل جاو ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ |
|