عالمی یوم آبادی اور پاکستان کو درپیش چیلنجز

دنیا میں انسان بڑھتے جا رہے ہیں مگر انسانیت میں خوفناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے۔ اسی انسانیت اور انسانی حقوق کو بیدار کرنے کیلئے عالمی لیڈروں نے 1968میں دعویٰ کیا کہ انفرادی طور پر ہر فرد کو اسکے بنیادی حقوق ملنے چاہیے ۔ اس کیساتھ انھوں نے اس بات کا بھی تعین کیا کہ ہر فرد کو اسکے پیدا ہونیوالے بچوں کی تعداد اور ان کے پیدائش کے وقت پہ سب کو آزادی ہونی چاہیے۔ مگر بد قسمتی سے یہ آزادخیال 40سال بعد بھی سینکڑوں عورتوں، مردوں اور نوجوانوں تک نہ پہنچ سکا۔ جس کے نتیجے میں اعداد و شمار کیمطابق 11جولائی1987کو عالمی آبادی 5بلین تک پہنچ گئی ۔ بلاشبہ یہ اضافہ عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج تھا ۔ اس چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے (UNFPA)نے 11جولائی 1989کو عالمی یوم آبادی کی بنیاد رکھی ۔ 11جولائی کو یہ دن ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد عام لوگوں میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونیوالے مسائل سے آگاہی دلانا اور ان مسائل کا ماحول پہ اثرات کی طرف توجہ دلانا ہے۔

UN Census Bureauکے اندازے کیمطابق 2012میں عالمی آبادی 7بلین ہو چکی ہے اور مزید انکشاف کیا ہے کہ 2024میں انسانی آبادی کی تعداد 8بلین تک ہونے کی امید ہے۔ یقین مانئے یہ تعداد بلاشبہ خوفناک کم اور خطرناک زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ دنیا کھچا کھچ انسانوں سے بھری ہو مگر انسانیت نام کی کوئی چیز نہ ہو۔۔۔تو اپنے آپ سے ہمدردی ہو نے لگتی ہے۔ ہر سال اس خصوصی دن پربے شمار پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں ۔ ان پروگرامز کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ آبادی کو کنٹرول کیا جائے کیونکہ آبادی کنٹرول کرنے کی بات ایک مضائقہ خیز بات ہوگی ۔ ہاں ان نظریات کے ذریعے لوگوں میں شعوربیدار کیا جا سکتا ہے۔ اس شعور کے بغیر آبادی کی رفتار کسی حد تک کم کی جاسکتی ہے ۔

دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن میں شرح پیدائش بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ ان ممالک میں بچوں کی پیدائش اور نگہداشت سے متعلق ماؤں کیلئے طبعی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ان علاقوں اور عورتوں میں اگر تعلیم کی شرح بڑھا دی جائے تو شرح پیدائش میں کمی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ نو خیزی میں حمل قرار پانا دنیا بھر میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی اعداد و شمار کیمطابق ہر سال 18سال سے بھی کم عمر کی لڑکیاں ماں بن جاتی ہیں۔جن کی تعداد 16ملین ہے ۔ ا س کی ایک وجہ نو عمری میں شادی کرناہے۔ اس فرق کو ہم ایک الگ صورت میں بھی جانچ سکتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں حالات و واقعات بہت سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی بنا پر متعدد خاندان جلد او رکم عمری میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں اور بڑھتی ہوئے آبادی میں اپنا حصہ ڈالتے چلے جاتے ہیں ۔ ان ممالک کی 90فیصد نو خیز حاملہ لڑکیاں شادی شدہ ہوتی ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک میں جو ضرورت سے زیادہ ماڈرن اور ترقی پسند کہلاتے ہیں ان کے جہان میں نوخیز حاملہ لڑکیاں غیر شادی شدہ پائی جاتی ہیں ۔ نو عمری میں حمل قرار پایا جاناجہاں آبادی میں اضافے کا سبب بنتا ہے وہیں نو عمر مائیں ضروری احتیاطوں سے ناپید ہیں ۔

عالمی یوم آبادی کے موقع پر اس مسئلے پر بھی بحث کی جاتی ہے کہ نو عمر ماں کو ہر حمل کی اہمیت کا اندازہ کروایا جا سکے۔ اسکے علاوہ ہر بچے کی پیدائش محفوظ طریقے سے ہو اور اسکی بنیادی ضروریات کا خیال بھی رکھا جا سکے۔ ہیلتھ سروسز پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کم پیدائش مگر صحت مند پیدائش کا لوگوں میں شعور پیدا کریں ۔ زچگی کی پیچیدگیوں سے پیش آنیوالے خطرات سے آگاہی فراہم کریں ۔ غریب ممالک میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر لڑکیوں میں مطلوبہ حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں سے لا علمی کے بنا پر اموات واقع ہو رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ غیر مطلوبہ حمل جو کہ بعد میں اسقاط حمل کا سبب بنتا ہے یہ جرم بھی آگاہی کے فقدان کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں ۔ لہذ۱ ہیلتھ ورکرز سروسز کا فرض ہے کہ عام لوگوں میں فیملی پلاننگ کی رسائی ممکن کراسکیں اور بنیادی معلومات عام کریں تاکہ ملک و دنیا کیلئے صحت یافتہ مستقبل سامنے آئے جو کہ بلاشبہ کنٹرول کرنا ناگزیر ہے مگر اس کی رفتار کم کرنا ممکن ہے۔

پاکستان جہاں دہشت گردی ، سیاسی تنازعات ، معاشی مسائل جیسے بے شمار خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ وہیں بڑھتی ہوئی آبادی جیسے مسائل سے بھی دوچار ہے ۔ پاکستان میں ہر منٹ کے دوران 8بچے پیدا ہوتے ہیں جس میں سے 3بچے ناقص منصوبہ مندیون کے باعث اموات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اگر یہی شرح بدستور چلتی رہی تو 2050دور نہیں کہ پاکستان کی آبادی 40کروڑ ہو جائیگی۔ موجودہ 18کروڑ آبادی لا تعداد مسائل کا شکار ہے تو 40کروڑ کو سہولتیں مہیا کرنا شیخ چلی کا خواب ہی لگتا ہے۔ پاکستان میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی کیساتھ ساتھ بیشمار چلینجز نے سر اٹھایا ہے ۔ جن میں تعلیم اور طبعی سہولتیں سر فہرست ہیں ۔ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے ان مسائل پر قابو پا لیا ہے مگر پاکستان کی بات کریں تو مسائل سنگین ترین ہوتے چلے جار ہے ہیں ۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائل کا درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں 40فیصد سے زائد افراد غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہیکہ پاکستان میں غریب غریب اور امیر امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ باقی مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کر بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بہترین پالیسیوں پر عمل کرائے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے وساطت نقل مکانی وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ شہروں کی طرف نقل مکانی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث زرعی زمینوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلا ت کو کاٹنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ جس کے باعث ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے پاکستان بھی اب دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل ہو گیا ہے ۔ جن کی آبادی خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے ۔بلاشبہ پاکستان کو بیشمار مسائل کا سامنا ہے مگر عالمی ماہرین اب توجہ دلانے کی کوشش کر ر ہے ہیں کہ آبادی کا بڑھنا کوئی معمولی نہین بلکہ غیر معمولی بات ہے ۔ لہذا اس اضافے میں کمی لانے کیلئے اس مسئلے کو بھی سر فہرست لانا ہوگا ۔ غربت کے مسائل کو حل کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کی 7کروڑ کی آبادی جو کہ غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو اس کے علاو ہ پاکستان کو درپیش چیلنجز کو کم کرنے کیلئے ملکی مسائل اور آبادی کے درمیان توازن درست رکھنے کیلئے ضروری حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا مستقبل با شعور اور صحت مند ہو۔
lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 41394 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.