آج کل اْمت مسلمہ کو اگر چہ
متعدد بحرانوں کا سامنا ہے، تا ہم ان میں سب سے زیادہ سنگین اور سب سے
زیادہ دْورر س اثرات مرتب کرنے والا تعلیم کا بحران ہے۔ اگر ہر شعبہ زندگی
میں ہمارے معاملات صحیح طور پر نہیں چلائے جارہے ہیں تو بالآخر اس کی وجہ
وہ نظام ہے جو اْمور زندگی کو چلانے کے لیے افرادِ کار تیار کرتا ہے۔ دوسری
طرف اسی لیے اس مسئلہ کا حل مستقبل کے لیے یقیناًاْمید کی سب سے بڑی کرن
ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر نظام تعلیم درست ہوجائے تو باقی تمام اداروں کے صحیح
راستے پر آنے کی اْمید بھی کی جاسکتی ہے۔
یہ مسئلہ اس وجہ سے قابو سے باہر ہوگیا ہے کہ نہ صرف ہمارا نظامِ تعلیم بگڑ
چکا ہے بلکہ تعلیم کے بارے میں ہمارے بنیادی تصورات بھی برباد کر دیے گئے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ہر قسم کے تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باوجود
مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا ہے۔ ہم خواندگی میں تو اضافہ کررہے ہیں
لیکن تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔ ہم معلومات کو تو عام کررہے ہیں لیکن علم میں
کوئی اضافہ نہیں کررہے ہیں۔ ہم ہر قسم کے ہر ممکن سر ٹیفکیٹ، ڈپلومے، اور
ڈگریاں تو جاری کررہے ہیں لیکن اْمّت مسلمہ کے معاملات کو چلانے اور بنی
نوع انسانیت کی رہ نمائی کے لیے درکار فہم وفراست رکھنے والے علمی ماہرین
تیار نہیں کررہے ہیں۔
پہلے تین سے چار علاقوں میں محض ایک اسکول ہوا کرتا تھا ۔ یہ سرکاری تعلیم
کا زمانہ تھا ۔ اب تو یہ عمل کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔جس شخص کے
پاس کرنے کو کوئی اور نوکری نہیں وہ اسکول کھول کربیٹھ گیا ہے ۔معاشرے میں
موجود دولت کی تقسیم کے لحاظ سے ہر مرتبے اورہر طبقے کے لئے مختلف طرز
تعمیر مختلف سر گرمیوں ، عملی کام اور مختلف فیسوں کے حامل شہر میں موجود
اسکول کا جائزہ لیاجائے تو معیاری نام کی تعداد آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتی
ہے۔
طلبہ کو نصابی کتب کاپیاں ڈرائنگ کا سامان سب کچھ ان ہی اسکولوں سے ان کی
مقرر کردہ قیمت پر خریدنا پڑتا ہے۔ ایک اسکول میں پہلی جماعت کے بچے کی
نصابی کتب تقریباً ڈھائی ہزار تک کی ہیں اور یونیفارم بھی خود اسکول فراہم
کرتا ہے اس کے لیے بھی رقم تین ماہ کی ٹیوشن فیس کے ہمراہ جمع کرنا پڑتی ہے۔
پھر تقریب تقسیم اسناد و انعامات میں غریب بچوں کو یکسر نظرانداز کرکے
’’بڑے لوگوں‘‘ کے بچوں کو انعامات و تحائف کے علاوہ ٹافیوں کے پیکٹ بھی دیے
جاتے ہیں جب کہ محنت کشوں کے بچے اتنی رقم دے کر صرف ایک ٹافی تک کے لیے
منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی محنت کش خاتون کا کہنا ہے کہ اصل حوصلہ
افزائی تو ہمارے بچوں کی ہونی چاہیے کیونکہ ان کو تو گھروں پر بھی ایسا
ماحول نہیں ملتا وہ تو اپنی ہی محنت سے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ان خاتون کی
بات اپنی جگہ مگر ہم خود یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر تعلیمی اداروں میں
بھی طبقاتی فرق قائم رکھا جائے گا تو کیا صورتحال پیدا ہوگی؟
اگر ہم متوسط یا مزدور طبقے کے علاقوں کاجائزہ لیں تو وہاں موجود گلی محلں
کے اسکولوں کا طرز تعمیر کسی خاص طرز تعمیر یا کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں
ہوتا ۔ یہ اسکول عموماً نرسری سے میٹرک کی سطح تک کے ہوتے ہیں۔ ان اسکولوں
میں دی جانے والی تعلیم کا واحد مقصد محض پیسہ کمانا اور طلباء کے دس بارہ
سال کا گزر کرنا ہوتا ہے۔ یہاں موجود اساتذہ یا تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے
ایسے نوجوان طلباء ہوتے ہیں جو اپنے جیب خرچ کا سامانا مہیا کرنے یہاں آتے
ہیں یا پھر عموماً وہ فارغ التحصیل لڑکیاں ہوتی ہیں جو محض وقت گزارنا
چاہتی ہیں یا ان کی تعلیمی قابلیت انہیں کسی بہتر جگہ نوکری دلانے کی اہل
نہیں ہوتی۔ یہ صورتحال بچوں کے لئے ذہنی پریشانی کی باعث ہوتی ہے۔یہی وجہ
ہے کہ آج کا بچہ پانچویں‘ چھٹی جماعت میں آضانے کے باجود بھی نہ تو روزمرہ
بول چال کی زبان ہی بڑھنا جانتاہے اور نہ ہی ٹھیک طرح سے لکھنا۔یہی وجہ ہے
کہ ہمارے نظام تعلیم کو ’’کلرک پیدا کرنے والے نظام‘‘ کا الزام دیا جاتا
ہے۔
آخر میں عرض کرنا چاہوں گا کہ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ نجی تعلیمی اداروں
کی مانیٹرنگ کا ایک سسٹم مرتب کریں تا کہ کام سے کم قیمت میں معیاری تعلیمی
سہولتیں لوگوں کو میسر ہوں جس سے ملکی شرح میں زیادہ سے زیادہ اضافی ہو
کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیجنے سے قاصر ہیں
مگر سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی سے ملکی شرح خواندگی میں اضافہ ہو
گا۔مارا موقف ہے کہ تعلیمی ادارے محض تعلیم فراہم نہیں کرتے بلکہ نسل نو کے
لیے تربیتی ادارے بھی ہونے چاہئیں۔ یہاں ان کو کفایت شعاری، حب الوطنی،
خدمت خلق، وطن اور اہل وطن سے جذبہ ہمدردی اور خلوص کی تربیت بھی دی جانی
چاہیے۔ مگر ہمارے تعلیمی ادارے تو فضول خرچی، غیر ذمے داری، اپنے علاوہ کسی
کے بارے میں نہ سوچنے اور ملک و قوم کے لیے کچھ نہ کرنے کی تربیت دینے میں
مصروف نظر آتے ہیں۔ قومی سطح پر جو لوٹ کھسوٹ جاری ہے اگلی نسلیں تو اس سے
دو ہاتھ آگے ہی ہوں گی ۔ |