صہیونی ایک ناسور

لوگ خوشی خوشی کفن خریدرہے ہیں اپنے پیاروں کے لئے ،بہت انوکھی عید کی خریداری ہے فلسطین کے شہر غزہ میں۔یہ انسان دشمن سماج دشمن تہذیب دشمن صہیونی کون ہیں؟کہاں سے آئے ہیں؟ کیا کررہے ہیں؟ آئیے آپ کواس ناسور اور کینسرکے بارے میں بتاتے ہیں۔

جب آپ عالم ِ عربی پر سرسری نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کے درمیان اسرائیل اپنے جغرافیا،رنگ ونسل،تہذیب وثقافت،مذہبی رسومات وشعائر ،لب ولہجہ،قومیت اور زبان کے حوالے سے ایک اجنبی حصہ نظر آتاہے ،یو ں لگتاہے کہ اس عظیم عربی جسد میں گویا یہ ٹکڑا بتکلف و تصنع جوڑدیاگیاہے ،اس غیرمتعلقہ ٹکڑے کوایک ناسورکے مانند اس طرح غیرفطری انداز سے عالم عربی کے بدن میں جوڑنا یہودہی کا کارنامہ ہے،یہی وہ ناسور ہے جسکی وجہ سے یہ پورا جسم لہو رنگ اورچور چورہے۔

آج سے تقریباً ستر برس قبل صہیونیوں کے ر وحانی پیشوا ٹیور ڈ ہرٹزل نے اپنے ان مشہور افکاروخیالات کا نقشہ پیش کیاتھا، جس میں یہود کے لئے ایک علیحدہ ملک کا ذکر ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ اس کا نام اسرائیل ہوگا۔ جو آج بطورملک قائم اورعالم عربی کی سرزمین پر ایک سیاہ داغ کی طرح موجودہے۔
ہرٹزل نے دنیاکے سامنے اسرائیل کا وجودی خاکہ اس طرح پیش کیاتھا :ـ’’ ایک یہودی ملک قائم ہوکر آہستہ آہستہ پھیلتارہے گا ، اس کی فوجی قوت کسی کو ضرر نہیں پہنچائے گی ،نہ ہی کسی کے کچھ املاک پر قبضہ کرنے کی جسارت کرے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم ڈھائے گی ‘‘،جبکہ زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ،جو ہرٹزل کے نارسا مفکر انہ منہ پر ایک زوردارطمانچہ ہے،کیونکہ یہاں کی ہر بالشتِ زمین پر خون کی چھینٹیں اورانسانی اعضا کے گوشت کے لوتھڑے ہیں ،مقاومت ،ممانعت ومقابلہ کا عنصر توہر جگہ پایاجاتاہے جس کے اثرات کبھی کبھی نہایت ہی گہرے ہوتے ہیں ۔جبکہ یہی القدس شہر تمام ادیان کے ماننے والوں کے لئے اسلامی ادوار خلافت میں کھلارکھاگیااور مکمل پُر امن وپُرسکون رہا ۔اس دور میں یہود ونصاری کو یہاں کوئی گزند نہیں پہنچی ، نہ ہی مسلمانوں نے یہاں کبھی خون کی ہولی کھیلی ،اس کے برخلاف جب بھی مسلمانوں سے القدس چھینا گیا،ساتھ ہی مذہبی آزادی ،شہری حقوق اورتہذیبی حریت کے نام کو یہاں شجرہ ممنوعہ قراردیاگیا،تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان حقائق کا اندازہ لگایاجاسکتاہے جو واقعات کی صورت میں متعددبار القدس میں رونماہوئے ۔مختصر اًیہ کہ دومرتبہ القدس عالم اسلام سے کٹ کر یہودونصاری کے خونی پنجوں میں گرفتار ہوا،دونوں ادوار میں یہاں وہ بھیانک مظالم ڈھائے گئے کہ جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنامشکل ہے ،مکانات ،باغات ، شہر، دیہات ، حیوانات،بستیاں ،مارکیٹیں ،خواتین ،مرد ،جوان ، بوڑھے ،اور بچوں کو بے دریغ تہ تیغ کرکے تہس نہس کیاگیا،اب انصاف کی نظر سے بتایاجائے کہ القدس کا صحیح حق دار کون ہوسکتاہے ؟ تخریب وفساد ظلم وبربریت کے سیلاب وطوفان برپا کرنے والے یہودی یا امن وسلامتی کے پیامبر وعلمبردار عرب مسلمان ؟

۱۔ 1099ء میں اس پر صلیبیوں نے حملہ کرکے قبضہ جمالیا اور یہ قبضہ 1187ء تک رہا،اس کے بعدمسلمانوں کے ہاتھ میں جیسے ہی آیا ،امن وسلامتی کا پھریرا یہاں لہراتارہا ۔
2۔ اب1948 سے یہودیوں اور استکباری ملکوں کے آشیروادسے غدر،دھوکہ اور فراڈ کا ملغوبہ حالیہ قبضہ صہیونیوں کا قائم ہے ،جس کی بناء پرارضِ فلسطین کو یہودیوں نے 1967ء کی جنگ کے بعد مکمل طورپر اپنے کنٹرول میں لے کریہاں کے مسلم عیسائی باشندوں کی قومی تہذیب وثقافت ، مشترک عربی زبان وادب اور اقدارکویکدم نکال باہرکرکے اپنی چیرہ دست یہودی تہذیب،ثقافت اور زبان و ادب کوبالجبرلاگو کردیا ،ساتھ ہی لاکھوں فلسطینی باشندوں کو انتہائی بہیمانہ اوربے رحمانہ طریقے سے اپنی جائیدادوں سے محروم کر کے جلا طن اور دربدرکردیا،ظلم یہ ہے کہ یہودیوں نے القدس پرجیسے ہی قبضہ کیا ، تمام مقدس مقامات کی شرمناک بے حرمتیاں کیں ، یہاں تک کہ نصاری کے کلیساؤں اور مسلمانوں کی مساجد کو ویران اور منہدم کیا ،ظلم کی یہ انتہابھی کردی کہ مسجد اقصی تک کو جلاڈالا، جوکہ حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس ترین عبادت گاہ اور حرم ثالث ہے، ہمارے پیارے آقانبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ ساتھ اصحاب رسولﷺ کا قبلہ اول بھی رہ چکاہے ،ہم جب ان تاریخی حقائق اور صہیونی ناپاک کرتوتوں کو سامنے رکھتے ہیں تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کاقیام حقیقت میں عربوں اور اہلِ اسلام کے خلاف طاغوتی استعماری قوتوں کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔

بہرکیف ،آج اسرائیل طاقتور اور عالم اسلام کمزور کیوں ہیں ؟ وجہ یہ ہے کہ اندرون و بیرون ِاسرائیل تمام یہودی مسلسل اس کی مادی ،معنوی ، سیاسی ،اقتصادی اور روحانی مدد کررہے ہیں، اس کے لئے ہمہ وقت ایک دوسرے سے رابطے میں بھی رہتے ہیں اور اس کے بالمقابل مسلمان کم ہمتی ، باہمی جنگ وجدل اور آپس میں عدم اعتماد کے شکار ہیں ،ہوناتو یہ چاہیئے تھا کہ جب یہودعرب فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے لئے متحد ہوتے، تو مسلمانوں کو بطریق اولی اتحاد کرنا چاہیے تھا، تاکہ اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیاجاتا، مگر ہم تویوں ہی کہہ کربات ختم کردیتے ہیں کہ یہ توعربوں اور فلسطینیوں کا مسئلہ ہے ۔

آج استعماری طاقتوں کے ایجنڈے اور سائے تلے عرب اسرائیل ڈھونگ مذاکرات کے موقع پر پھر فلسطین کی مقدس سرزمین چیخ چیخ کرپکاررہی ہے ،ہے کوئی عمرو بن العاصؓ،عمربن الخطاب ؓیاصلاح الدین ایوبی ؒ جیسے عملیت پسند، فاتح اور عظیم سپہ سالار جو مجھے ان صہیونیوں کے خونخوار اور غلیظ پنجوں سے آزاد کرائے ؟
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878291 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More