جاوید احمد غامدی صاحب مذہبی
اسکالر کے طور پر معروف ہیں، ان کی سرپرستی میں کئی ادارے کام کررہے ہیں،
انہوں نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں جبکہ ٹی وی چینلوں پر
بھی ان کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ غامدی صاحب کے چاہنے والے انہیں بلندپایہ
محقق اور کسی حد تک مجدد کا درجہ دیتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ مذہبی
حلقے میں انتہائی متنازع شخص ہیں۔ کبھی ان کو براہ راست سننے یا پڑھنے کا
موقع نہیں ملا اور ویسے بھی ان کے نظریات ٹھیک ہیں یا غلط، اس کا فیصلہ
کرنا مجھ جیسے دینی علوم سے کورے شخص کا کام نہیں، البتہ وہ علمائے کرام جن
کے تفقہ فی الدین کا ایک زمانہ معترف ہے، ان کی بعض کتابیں دیکھنے کا موقع
ملا ہے، جس میں ان علمائے کرام نے غامدی صاحب کے خیالات کو قرآن وسنت اور
اجماع امت کے خلاف قرار دیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل گستاخ رسول کی شرعی سزا جیسے حساس معاملے پر غامدی صاحب تنقید
کی زد میں رہے، اسی طرح مشرف دور میں ’’حقوق نسواں بل‘‘ پارلیمنٹ میں پیش
کیے جانے کے موقع پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث غرض تمام مکاتب فکر کے
علماء ایک طرف تھے اور دوسری طرف تنہا غامدی صاحب کھڑے تھے۔ عورت کی گواہی،
زنا کی سزا، حدیث کی حجیت اور اسی نوعیت کے کئی دوسرے مسائل پر غامدی صاحب
کی رائے کو سلف صالحین کی رائے کے الٹ سمجھا جاتا ہے۔ غامدی صاحب اس لیے
بھی تنقید کی زد میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے ٹی وی پروگراموں میں ایسے موضوعات
کو زیربحث لاتے ہیں جنہیں مسلم معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے، مثلاً
انہوں نے کئی پروگرام ’’اﷲ ہے یا نہیں‘‘ جیسے موضوع پر کیے۔ ناقدین کا کہنا
ہے کہ اس موضوع پر بھارت یا کسی اور غیرمسلم ملک میں بات کرنا تو سمجھ میں
آتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں 98 فیصد لوگ اﷲ پر یقین رکھتے ہیں،
وہاں ایسے موضوعات کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایمانیات سے متعلق معاملات
کو فلسفیانہ انداز میں عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے میں نقصان یہ ہوتا ہے
کہ بعض اوقات کسی شخص کے ذہن میں اعتراض تو بیٹھ جاتا ہے، مگر اس کا جواب
اسے سمجھ میں نہیں آتا، یوں اچھا خاصا صاحب ایمان فلسفیانہ چکر بازیوں کی
وجہ سے شک میں پڑجاتا ہے۔
مختلف ذرائع سے جو معلومات ملتی رہتی ہیں، ان کے مطابق غامدی صاحب کا حلقہ
روز بہ روز وسیع ہوتا جارہا ہے۔ ان کے معتقدین میں زیادہ تر عام پڑھے لکھے
لوگ شامل ہیں، جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ دینی علوم سے عدم واقفیت
کی بناء پر غامدی صاحب کے ہتھے چڑھ گئے ہیں، مگر کچھ عرصے سے ایک ایسا طبقہ
بھی بڑی تیزی سے ان کی محبت کا اسیر ہورہا ہے، جس پر ’’جہالت‘‘ کا ٹھپا
نہیں لگایا جاسکتا۔ ہم جن بزرگوں کی کتابیں پڑھ کر غامدی صاحب کے قریب سے
گزرنے کو بھی گناہ سے کم نہیں سمجھتے، آج ان ہی بزرگوں کے گھرانوں سے غامدی
صاحب کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کئی بڑے علمی گھرانوں کے چشم وچراغ آج
غامدی صاحب کی محفل کو روشن کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک عمارخان ناصر کی
وجہ سے مولانا زاہدالراشدی صاحب کی طرف پتھر لڑھکائے جاتے تھے اور آج؟ اب
تو غامدی صاحب سے ’’فیض یاب‘‘ ہونے کے لیے بزرگوں کے صاحبزادگان کی قطار
لگی ہوئی ہے۔ کئی صاحبزادے تو کھلے عام سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر
غامدی صاحب کے نظریات کا پرچار کررہے ہیں، جبکہ جو صاحبزادے شرماشرمی میں
کھل کر سامنے نہیں آرہے، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ پچھلے دنوں ایک
مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ایک عالم دین نے ایسے ایسے صاحبزادگان کے
نام بتائے کہ آدمی دل تھام لے۔ اب تو خیر سے غامدی صاحب کی ایک بڑے علمی
گھرانے میں رشتے داری بھی ہوگئی ہے، آخر اس کے بھی تو کچھ اثرات ظاہر ہوں
گے۔
مختلف مدارس کے مہتمم صاحبان اور دیگر علمائے کرام کے صاحبزادگان کا غامدی
تحریک کا حصہ بننا کوئی راز نہیں ہے، مذہبی حلقوں میں یہ معاملہ زبان زد
عام ہے، البتہ اس نادان کالم نگار نے معاملے کو کچھ ’’اوپن‘‘ کرنے کی جسارت
کی ہے۔ اس تحریر کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں، بلکہ اس سوال کا جواب
ڈھونڈنا ہے کہ صاحبزادگان جو ساتھ آٹھ برس تک دینی علوم حاصل کرتے رہے، وہ
فراغت کے بعد ایک ایسے شخص کے نظریات کو اپنانے کو ترجیح کیوں دے رہے ہیں،
جس کے خلاف ان ہی کے گھروں میں کتابیں لکھی گئیں۔ صاحبزادگان کے معاملے پر
اس لیے بھی بات کرنا ضروری ہے، کیوں کہ مستقبل میں مدارس کی باگ ڈور ان کے
ہاتھوں میں ہوگی، ان میں سے کئی ایک صاحبزادے آنے والے دور میں اپنے بڑوں
کی جگہ ذمہ داریاں انجام دیں گے۔ ہم صاحبزادگان کے معاملے کو یہ کہہ کر
نہیں دباسکتے کہ اس پر بات کرنے سے مسلک کو نقصان ہوگا، ہاں! اگر اس موضوع
پر بات نہ کی گئی تو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وہ طبقات جو دینی اداروں سے
اس کی اصل روح نکالنا چاہتے ہیں، وہ پرانے علماء سے مایوس ہوچکے ہیں، انہیں
معلوم ہے کہ یہ علماء ان کے جال میں نہیں آئیں گے، اس لیے ان شکاریوں نے اب
ان کے بیٹوں کے لیے طرح طرح کے جال تیار کیے ہیں۔ ہمیں احساس نہیں ہے مگر
یقین جانیے ان صاحبزادگان پر ایک منظم منصوبے کے تحت کام ہورہا ہے، کئی این
جی اوز ان گول مٹول لڑکوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل مفتی ابولبابہ
صاحب نے بھی اپنے ایک کالم میں اس طرف اشارہ کیا تھا، بلکہ اس سلسلے میں
ایک این جی او کا کچھ ذکر بھی ہوا تھا۔
بہرحال صاحبزادگان ایک بڑا موضوع ہے، اس معاملے کے کئی رخ ہیں اور ہر رخ پر
کئی کئی کالم لکھے جاسکتے ہیں۔ ہم غامدی صاحب کے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ایک
صاحبزادے سے بات ہوئی، انہوں نے سارا ملبہ مدارس کے نصاب اور تدریس کے
طریقۂ کار پر ڈال دیا، ان کا کہنا تھا کہ مدارس میں پڑھائی کا انداز جدید
دور سے ’’میچ‘‘ نہیں کررہا ہے، وہاں حصول علم کے بنیادی سوال ’’کیوں؟‘‘ پر
پابندی ہے۔ ایک طالب علم سے توقع رکھی جاتی ہے کہ اسے جو کچھ پڑھایا جارہا
ہے، وہ گردن نیچی کرکے بس اسے سنتا رہے، زیادہ کیوں، کیوں کرنے یا سوال
اٹھانے والے کو گستاخ طالب علم تصور کیا جاتا ہے۔ جب ایسا طالب علم مدرسے
کے ماحول سے باہر آتا ہے تو اسے معاشرے کی جانب سے باربار ’’کیوں؟‘‘ کا
سامنا کرنا پڑتا ہے، جب وہ طالب علم اس ’’کیوں‘‘ کے جواب کی تلاش میں نکلتا
ہے تو اس کا اکثر اوقات مدارس میں پڑھائی گئی باتوں کے برعکس صورت حال سے
پالا پڑتا ہے، وہ اس تلاش میں ایسی ایسی بحثیں دیکھتا ہے، جس کا جواب اس کی
سات آٹھ سالہ تعلیم کے الٹ ہوتا ہے، یوں یہ ’’کیوں؟‘‘ اسے کسی غامدی کے پاس
لاکھڑا کردیتا ہے۔ اگر اس ’’کیوں؟‘‘ کا جواب اسے دور طالب علمی میں مل جاتا
تو وہ اس صورت حال سے بچ سکتا تھا۔ صاحبزادے کا یہ بھی کہنا تھا ہمیں مدارس
میں معتزلہ اور نہ جانے کون کون سے فرقوں کے متروک فلسفوں کے بارے میں
پڑھایا جاتا ہے، حالانکہ ان گروہوں کو مٹے ہوئے بھی صدیاں گزرچکی ہیں، جبکہ
جدید دور کی گمراہ فلاسفی جس سے طالب علم کو فراغت کے بعد قدم قدم پر لڑنا
پڑتا ہے، اس کے بارے میں اسے کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔ اگر تقابلِ ادیان
پڑھاتے ہوئے ’’غامدیت‘‘ اور ’’پرویزیت‘‘ بھی پڑھائی جائے تو نئے فضلاء کو
اجنبی فلسفوں سے یوں متاثر نہ ہونا پڑے۔
ایک عالم دین سے ان صاحبزادے میاں کے خیالات پر بات ہوئی تو انہوں نے مدارس
کے نصاب اور طریقۂ تدریس میں اصلاحات کی پرزور حمایت کی، مگر ان کا کہنا
تھا کہ صاحبزادوں کی جانب سے اپنی قلابازیوں کا ذمہ دار مدارس کے نظام کو
ٹھہرانا درست نہیں، بلکہ اس کی وجوہ کچھ اور ہیں۔ دراصل زیادہ تر
صاحبزادگان کی علمی استعداد قابل رشک نہیں ہوتی، ’’صاحبزادگی‘‘ کو انجوائے
کرتے کرتے یہ لوگ درس نظامی مکمل کرلیتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ مدارس کا
ماحول مخصوص وضع قطع اور طورطریقوں کا پابند ہوتا ہے، جس میں یہ صاحبزادگان
خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپاتے، اس لیے صاحبزادگان غامدی جیسے لوگوں کے پاس
زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ وہاں انگریزی بال، فرنچ کٹ داڑھی، تھری
پیس سوٹ اور خواتین کے جھرمٹ میں بیٹھ کر بھی دین کی ’’خدمت‘‘ ہوسکتی ہے۔
صاحبزادگان کی اپنے آباؤاجداد کے طورطریقوں سے روگردانی کا اصل سبب کیا ہے؟
مدارس کا نظام تعلیم یا سہل کوشی، میرا خیال ہے اس پر کھل کر بات کرنے کا
اب موقع آگیا ہے، بات ہوگی تو تجاویز سامنے آئیں گی، تجاویز سامنے آئیں گی
تو کوئی نہ کوئی حل بھی نکل ہی آئے گا۔ |