موت کا ننگا ناچ ہے ہر جا خوف کا خونی پنجہ
غزہ فلسطین پرآٹھ جولائی سے شروع ہونے والی اسرائیلی بربریت میں انسانی لہو
کی ارزانی نے پوری دنیا ئے انسانیت کوغمزدہ کردیاہے ،بالخصوص عالم اسلام نے
اپنی عیدجس درد و کرب کے عالم میں گزاری ہے اس کودیکھتے ہوئے ان ملکوں کے
بے حس حکمران بھی اب امریکاکی غلامی کاطوق پہنے تھرتھرارہے ہیں۔ غزہ میں
قیامت صغری کادورطویل ہوتاجارہا ہے ۔تادم تحریراسرائیلی درندوں نے نہ صرف
رہائشی بستیوں،ہسپتالوں اورایمبولنس کے علاوہ اقوام متحدہ کی طرف سے قائم
کئے گئے پناہ گزین کیمپوں پربھی بمباری سے گریزنہیں کیااوراب تک اسرائیلی
حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد۱۲۶۸/اورزخمیوں کی تعدادسات
ہزارسے تجاوزکرگئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت عام شہری جن میں جوان
مردوں،عورتوں اوربچوں کی بتائی جاتی ہے۔
غزہ کے باسیوں کوعیدکے دن بھی اپنے غموں اور دکھوں کی حدت سے سستا نے کاایک
لمحہ میسرنہ آسکااورمسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالفطر کے موقع پر شفا
ہسپتال اور اس کے قریب ایک پارک پر حملے میں بچوں سمیت دس فلسطینی ہلاک اور
۴۶زخمی ہو گئے ہیں جب کہ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ان حملوں میں
کم از کم ۱۰۰فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ فلسطین میں طبی عملے کے ایک
اہلکارایمن شہابی اور غزہ پولیس کے آپریشن روم کا کہنا ہے کہ اس بے رحمانہ
اورانسانیت سوز حملے کے بعدہسپتال بندہوگیاہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن
نیتن یاہو کی طرف سے طویل مدتی کارروائی کی دھمکی کے بعد غزہ پر
اور۲۷/اور۲۸جولائی یعنی پیر اور منگل کی درمیانی شب بیوریجی مہاجر کیمپ
پرزمین، سمندر اور فضا سے شدید قسم کی بمباری کی گئی جس میں۱۳فلسطینی
مزیدشہید ہو گئے۔ شہدا میں چھ کا تعلق ایک ہی گھرانہ سے تھا۔اس دوران
اسرائیل نے غزہ پر۶۰فضائی حملے کئے جس میں حماس کے ٹی وی چینل، ریڈیو اور
دیگر عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فلسطینی حکام کے مطابق آٹھ جولائی سے
شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی
تعداد۱۲۶۸/ہو گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی بتائی جاتی
ہے۔حماس کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم اسماعیل ہانیہ کے بیٹے نے کہا ہے کہ
منگل کی صبح اسرائیل نے اسماعیل ہانیہ کے گھر پر بمباری کرکے اسے مکمل تباہ
کردیالیکن گھرخالی ہونے کی وجہ سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ۔اب تک
۲۵ہزارعمارتیں ملبے کاڈھیربن چکی ہیں،گویاغزہ کاملبہ لاشیں اگل رہاہے۔
ان قیامت خیزمناظرمیں سب سے زیادہ خونریزدن ۲۱جولائی تھاجب وحشیانہ فضائی
حملوں ،گولہ باری اورفائرنگ سے بلاتمیز۱۳۴بے گناہ بچے ،مردوزن کے پرخچے
اڑادیئے گئے۔ اسرائیلی فوجیوں کے روپ میں خونی درندے معصوم بچوں ،خواتین
،جوانوں اوربوڑھوں کوبلاتفریق خون میں نہلاتے رہے لیکن انسانی حقوق کے
علمبرداروں کوگویاسانپ سونگھ گیا اور زبانیں گنگ ہوگئیں ہیں اورانتہائی
حیوانیت کامظاہرہ کرتے ہوئے کسی کواسرائیل کوتنبیہ کرناجیسے مناسب ہی نہیں
دِکھتا۔ ادھر تل ابیب کے خوف ناک حملوں کا یہ عالم کہ وسطی غزہ میں اسپتال
پربھی گولہ باری کرنے سے گریزنہیں کیاگیا۔ جیٹ طیارے شہری آبادیوں کوملبے
کے ڈھیرمیں تبدیل کرتے رہے،رہی سہی صہیونی سنائپرزنے پوری کردی جوراہ چلتے
ہر شہری پرگولیاں برسا کر موت بانٹتے رہے۔کئی گھروں میں لاشوں پرماتم کرنے
والے خودخون میں نہاگئے اورکوئی رونے والابھی نہیں بچا۔غزہ کے ہسپتالوں میں
گنجائش اور ادویات ختم ہوچکی ہیں اورزخمی تڑپ تڑپ کی جان دے رہے ہیں۔
اسرائیلی ٹینکوں نے وسطی غزہ میں واقع اقصیٰ ہسپتال کونشانہ بنایاجس میں
مریضوں سمیت۹/ افرادشہیداور۵۰زخمی ہوگئے۔خان یونس میں گھرپربمباری سے بیس
افرادموقع پرشہیدہوگئے اوربعدازاں شدیدزخمی بھی اپنے پیاروں سے جاملے، رفاہ
میں بھی فضائی حملے میں چاربچوں سمیت ایک ہی خاندان کے دس افراداسرائیلی
شقاوت کاشکارہوگئے جب کہ شجائیہ میں گھروں کے ملبے سے اب تک۶۸ لاشیں
برآمدہوئی ہیں اورابھی اس ملبے میں کتنی باقی ہیں،کوئی نہیں جانتا۔ہم سب
انسان ہیں،ہم میں سے بہت سے تواپنی آنکھیں خشک پارہے ہیں مگرایسے بھی ہیں
جوفلسطینی بھائی،بہنوں اوربچوں کی المناک شہادتوں پراپنے آنسووں پرقابونہیں
رکھ پارہے اوران کاجی چاہتاہے کہ کوئی ایساطریقہ میسر ہو کہ وہ خودکواس ظلم
کے خلاف عملاً کچھ ایسا کرسکیں کہ وہ بھی اپنے پیاروں سے جاملیں۔اسرائیلی
درندگی کے سب سے ہولناک مناظرغزہ کے علاقے شجائیہ میں نظرآتے ہیں جہاں کی
تاریک گلیوں کے ہرگھر میں جا بجا خون بکھراہواہے اورابھی تک سیاہ دھواں اٹھ
رہاہے ۔درخت گرے پڑے اورہرقسم کے کھمبے ٹیڑھے میڑھے ہوکراپنی تباہ حالی کی
داستاں اپنی زباں میں پیش کر رہے ہیں۔سڑکوں پرملبے کے ڈھیراوراسرائیلی
بمباری سے سڑکوں پرجگہ جگہ گڑھے اسرائیل کے ظلم وستم کاماتم کررہے ہیں۔
گولہ باری میں ذراساوقفہ ہوتے ہی ایک کے بعددوسری،تیسری اورپھر لگاتارخون
مین لت پت لاشیں نکالی جاتی ہیں۔ایک گلی میں لاشیں ہی لاشیں ہیں لیکن ان کے
اعضاء بکھرے پڑے ہیں اوربعض لاشیں توناقابل شناخت ہوتی ہیں ،کبھی کبھاران
کے ہاتھوں کی مہندی سے شناخت کیاجاتاہے کہ یہ کسی خاتون یابچی کالاشہ
ہے۔اگلی نکڑپرمیاں بیوی بھاگتے ہوئے جارہے تھے،باپ نے شیرخواربچے کوسینے سے
لگا رکھا تھا اور لاشوں پرسے گزرتے ہوئے ان کے قدم تھم جاتے تھے،زردچہروں
کوکان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی ، انہی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں زندگی
محفوظ ہو۔جونہی باپ ایک دوکان کے شیلٹرکے نیچے پہنچ کراپنی بیوی
کوآوازدیتاہے کہ اچانک ایک گولہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھٹتا ہے جو اس کی
بیوی اورتین سال کی بچی کوہوامیں پرزے پرزے کرکے اڑادیتاہے۔یہ مناظرالجزیرہ
ٹی وی پردیکھ کرمیرے ہوش وحواس جواب دے جاتے ہیں اور کسی باضمیر انسان میں
اتنی تاب نہیں کہ مزیدٹیلیویژن کی اسکرین کودیکھ سکے۔کل پرسوں بھی ٹی وی
پرایساہی مناظردکھائے جارہے تھے کہ بمباری ہورہی تھی اورایمبولنس
کاپہنچناناممکن ہورہاتھا۔لوگوں کے پاس دوہی راستے ہیں،گھروں میں رہ کراپنی
زندگی کی باقی ماندہ سانسیں اورگھڑیاں گنیں یاجان بچانے کیلئے بھاگنے
کاخطرہ مول لیاجائے۔بھاگنے والے اپنے روتے بلکتے بچوں کااٹھائے ننگے پاوں
کسی محفوظ مقام کی تلاش میں ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں سے واپسی
کاکوئی راستہ نہیں ۔تین افرادایک بسترکواٹھائے جارہے تھے،جب ان سے پوچھا:
کیادیکھاہے؟ان کامختصرجواب تھاخوف اورموت۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم ممالک سمیت عالمی قیادت تومجرمانہ خاموشی
اختیارکئے ہوئے ہے تاہم اہل غزہ کے حق میں دنیابھرکے عوام سراپااحتجاج بنے
ہوئے ہیں اورکوئی دن ایسانہیں جب اسرائیل کی بربریت اورمغربی طاقتوں کی بے
حسی اورجانبدارانہ رویے کے خلاف مظاہرے نہ ہورہے ہوں۔اسرائیلی جارحیت کے
خلاف مغربی کنارے کے علاقے میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج کیااورغزہ کے
شہریوں سے بھائی چارے اوریکجہتی کے عزم کااظہارکیا۔غزہ میں نکالی جانے والی
ایک ریلی کاپولیس سے بھی تصادم ہوا۔ مشتعل مظاہرین نے احتجاج کے دوران میں
توڑپھوڑبھی کی۔حکومت فرانس اسرائیل کے خلاف عوام کاغم وغصے سے ماموراحتجاج
کچل نہیں سکی۔یورپ کے دیگرشہروں لندن ، ویانا ،ایمسٹرڈیم اورسٹاک ہوم میں
غزہ پراسرائیلی جارحیت کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں ۔بولیویاکے دارلحکومت
لاپازمیں ہزاروں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کے باہر اسرائیل کے خلاف
بھرپوراحتجاج کیا۔مظاہرین نے فلسطینی پرچموں کے علاوہ پلے کارڈبھی اٹھارکھے
تھے جن پرامریکااوراسرائیل کے خلاف نعرے درج تھے۔آسٹریلیاکے شہر سڈنی میں
بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پرنکل آئے اوربھرپورغم
وغصے کے ساتھ اپنااحتجاج ریکارڈکروایا۔
غزہ کی گھمبیرصورتحال پرسلامتی کونسل نے اجلاس بلایاتھا،اقوام متحدہ کے
جنرل سیکرٹری بانکی مون کاکہناتھا:غزہ میں بہنے والے خون
کوروکناہوگا۔سیکرٹری جنرل نے مشرقِ وسطی کے دورے قطرکے دارلحکومت دوحہ میں
ایک نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل پرزوردیاکہ وہ غزہ میں فلسطینی
شہریوں کی ہلاکتیں روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ امریکی صدراوبامانے
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوسے فون پررابطہ کیااورفلسطین میں بڑھتی ہوئی
ہلاکتوں پرتشویش کااظہارکیااورجان کیری کوحماس اوراسرائیل کے درمیان جنگ
بندی کیلئے اپناکرداراداکرنے کوکہاجس کے بعدوہ قاہرہ پہنچ رہے ہیں جہاں وہ
اسرائیل اورحماس کے درمیان مستقل جنگ بندی کے معاہدے کی کوشش کریں گے۔
ادھرجان کیری نے ایک امریکی چینل سے گفتگوکرتے ہوئے کہا:
اسرائیل اورفلسطین کے درمیان کشیدہ صورتحال کی اصل ذمہ داری حماس
پرعائدہوتی ہے کیونکہ اس نے اپنی ضدکے باعث جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام
بنادیں۔انہوں نے جنگ بندی کیلئے بانکی مون سے ملاقات کابھی عزم کیا۔فلسطین
کے صدرمحمودعباس نے شجایہ کے علاقے میں اسرائیلی جارحیت کوقتل عام قراردیتے
ہوئے اقوام متحدہ کاہنگامی اجلاس بلانے کامطالبہ کیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم
نیتن یاہو کا کہنا تھا: ہلاکتوں کے باوجودغزہ میں آپریشن جاری رہے گااوراس
آپریشن کیلئے انہیں عالمی طاقتوں کی مضبوط حمائت حاصل ہے ۔حماس کے مرکزی
رہنماخالدمشعل نے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے کویتی امیرسے ملاقات کی جس
کے بعدوہ صدر محمودعباس سے ملنے کیلئے دوحہ بھی گئے۔یہ سب تگ و دو
فلسطینیوں کی مسلسل پامالی روکنے کی نیم دلانہ کاوشیں ہیں۔نہتے فلسطینیوں
کاقصوریہ ہے کہ وہ اپنی ہی سرزمین کے ایک حصے میں آبادہونے کی جدوجہدکررہے
ہیں اوراپنے لئے آزادی کاحق مانگتے ہیں،وہ حق جسے اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیاجاچکاہے لیکن اس جدوجہدآزادی کے دوران میں
اگرکبھی کبھارعدم تشددکاکوئی واقعہ پیش آجائے توآسمان سرپراٹھالیاجاتاہے
اوراسرائیل کواپنے دفاع کے نام پرقتل عام کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے
حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں محکوم قوموں کایہ حق تسلیم کیاگیاہے کہ
اگران پرپرامن جدوجہدکے تمام دروازے بندکردیئے جائیں تووہ اپنے تسلیم شدہ
حقوق کی خاطرہتھیار تک اٹھاسکتی ہیں۔
مغربی اقوام کی طرف سے وحشیانہ تشددکی حمائت کااصل محرک تیل پرقبضہ کرنے
کیلئے مشرقِ وسطی میں تسلط غیرمعمولی اہمیت رکھتاہے جب کہ اسرائیل کواس خطے
کے سنگدل تھانیدار کاکردارسونپ دیاگیاہے۔ اسرائیل کویورپ میں جرمنی کی بھی
مکمل حمائت محض اس بنا پرحاصل ہے کہ وہ ہولوکاسٹ کے الزام اوراحساسِ جرم
تلے دباہواہے۔مشرقِ وسطی کے مسلمان ممالک میں مطلق العنان حکومتیں اورفوجی
آمریتیں بھی عالمی استعمار کی حکمت عملی کااہم حصہ ہیں جنہیں مسلط رکھنے
میں امریکانے اہم اورفعال کرداراداکیااورکسی عوامی جمہوری تحریک کوان ملکوں
میں ابھرنے نہیں دیا۔اس امریکی منصوبہ بندی کانتیجہ ہے کہ آج عرب ممالک کی
حکومتیں امریکاکی رہین منت ہیں،وہ کوئی صدائے احتجاج بلندکرنے کا حوصلہ
نہیں رکھتیں۔امریکااوراس کے حلیف یورپین ممالک مشرقِ وسطی میں اسرائیل کی
مددسے مسلمانوں کے خلاف تہذیبی یا صلیبی جنگ لڑرہے ہیں اورروشن خیالی کی
آرائش کے باوجودان کے اندرچھپا خونی بھیڑیانمودارہوچکاہے۔اس کے مقابلے میں
عرب حکومتوں پرشرمناک بے حسی طاری ہے،عرب دنیاکے مسلمان حکمران اس حقیقت سے
غافل ہیں کہ جب ان پربراوقت آیا توسامراج ان سے منہ پھیرنے میں دیرنہیں
لگائے گا۔
مسلم دنیاکے دوسرے ممالک میں سے پاکستان ،ترکی اورملائشیابڑی اہمیت کے حامل
ہیں ۔وہ مسلم دنیاکی مظلوم اقوام کے دکھ دردکوشدت سے محسوس کرتے ہیں لیکن
عوام بڑی حد تک بے بس ہیں۔ان کی حکومتیں بھی کوئی ٹھوس کرداراداکرنے کے
قابل نہیں۔بدقسمتی سے ایران مسلم دنیاکے اس منظرکو مسلکی تناظرمیں دیکھ
رہاہے۔پاکستان کی حکومت عوام کی نمائندہ اورجمہوری حکومت ہونے کے
باوجوداسرائیل کامقابلہ توکیااس کے خلاف کسی عالمی مہم میں بھی حصہ نہیں لے
پارہی۔ترکی جس نے کبھی بڑی جرات کامظاہرہ کیاتھا،اب اس نے ملک سے اسرائیلی
سفارتی نمائندوں کونکل جانے کیلئے کہاہے۔ ادھرامریکن جوئش گروپ کے صدر روزن
کی طرف گزشتہ ہفتے لکھے جانے والے ایک کھلے خط میں کہا گیا کہ ترکی کے وزیر
اعظم طیب اردغان دنیا میں اسرائیل کے خلاف بیانات دینے والے سب سے تلخ
رہنما ہیں جب کہ ترکی کے وزیر اعظم کو میں مشرقِ وسطی میں امن کے قیام اور
ترکی میں یہودی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کے اعتراف میں پروفائل آف کرج یا
جرات کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔بین الاقوامی خبررساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس
اور رویٹرز نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ میں ترکی کے سفیر سردار کلک نے امریکن
جوئش گروپ کے صدر جیک روسن کو وزیر اعظم رجب طیب اردغان کی طرف سے ایک خط
لکھا ہے کہ ترک وزیراعظم غزہ میں اسرائیل اقدامات کے بعد اور امریکن جوئش
گروپ کی طرف سے غزہ کے بارے میں اپنائے جانے والے موقف کے بعد خوشی سے یہ
ایوارڈ واپس کریں گے اور ترک وزیر اعظم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ
وہ قبضہ، اقتصادی ناکہ بندی اور تباہی اور بربادی کی اسرائیلی حکومت کی
پالیسوں سے جو اس نے غزہ اور غرب اردن میں فلسطینیوں کے خلاف اپنائی ہوئی
ہیں ان سے صرف نظر کریں گے۔ |