یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزائی پائی
آج ہم اتنے خود کفیل ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے قائد حضرت قائد اعظم کا دن
منانے کی زحمت نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی تکلیف فرما ہی ہے تو یہ بھول جاتا
ہے کہ قائد کی آخری آرزو کیا تھی۔ْ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یہ ہیں
وہ تاریخی الفاظ جو حضرت قائد اعظمؒ نے کہے اور تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کا
قول درست تھا۔ آج جب ہم اپنے ملی بے حمایتی اور بے حسی کے ہاتھوں اس قدر
خوار ہو چکے ہیں کہ اب زبانی کلامی بھی کشمیر کا نام لیتے ہوئے بھی ڈر جاتے
ہیں۔ اپنے اقتدار کو بحال رکھنے کے لیے غیروں کے سامنے گڑ گڑاتے ہیں مگر
ظالم بھارتی حکومت کا دست جبر روکنے کی بات نہیں کرتے۔ کبھی ہمارے ارباب
اختیار نے سوچا ہے کہ وہ جس پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اس پاکستان
کے بانی نے بستر مرگ پر بھی کشمیر کو نہیں بھلایا تھا آپ نے فرمایا ’’خدا
کی قسم ہمارا دشمن مجھے اٹھا کر سمندر میں پھینک دے تب بھی میں اپنے اصولی
موقف سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اس عظیم قائد کے پیروکار ہونے کے دعویداروں نے
اسے یو این او کی فائلوں میں دفن کر دیا آج مقبوضہ کشمیر میں استفارہ ہو
رہا ہے اور نہتے کشمیری ہاتھوں میں پتھر پکڑے مسلح بھارتی فوج سے ٹکرا رہے
ہیں تو اس لئے کہ اپنی تحریک آزادی کے ’’بیس کیمپ‘‘ یعنی پاکستان سے امیدیں
وابستہ ہیں اس کے حکمرانوں سے نہیں۔ قربانیوں کی لازوال اور قدیم تاریخ
والے کشمیریوں کی عظمت کو سلام کہ انہوں نے اس سب کچھ کے باوجود ہمت نہیں
ہاری اور وہ اپنی تمام تر توانانیوں کے ساتھ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں
ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ وہ کشمیر ہے جسے ہمارے قائد اعظم نے بسترمرگ پر
بھی فراموش نہیں کیا تھا اور جو ہماری شہ رگ ہے پاکستان کی شریانوں میں
دوڑنے والا خون کشمیر سے ہی آتا ہے اس کا اندازہ اب تک ہمیں ہو جانا چاہیے
تھا کیونکہ آج ہم پانی کے ہاتھوں قحط کا شکار ہو رہے ہیں ہماری طرف آنے
والے پانیوں پر بھارت نے بند باندھ کر زندگی کے تمام راستے بند کر دئیے ہیں
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیسا پاکستان دے کر
جائیں گے کشمیر پر اقوام متحدہ نے متعدد کمیشنر قائم کئے مگر بھارت نے وہ
سب کے سب تجاویز سمیت ٹھکرا دئیے تب سے آج تک سلامتی کونسل کی قرار داد
موجود ہے۔ کہ کشمیر میں استواب رائے کروایا جائے مگر اب ا نکو بھی یہ تقاضا
تبدیل کرلینا چاہیے کیونکہ پچھلی چھ دہائیوں میں ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں نے
اپنی جانوں اور ہزاروں عفت مآب بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عصمتوں کا نذرانہ
پیش کرکے آزادی کا ریفرنڈم کر دیا ہے اب کس ریفرنڈم کا انتظار ہے اب صرف یہ
ہو سکتا ہے کہ باتوں سے نہ ماننے والے بھوت کو لاتوں سے منایا جائے۔
پاکستانی عوام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کشمیر پالیسی پر حکومتوں کی
بات مانیں گے یا پھر قائد اعظم کی بات جنہوں نے آخری لمحات تک کشمیر ، جونا
گڑھ اور حیدر آباد کے مسئلہ پر کمپرومائز نہیں کیا۔ |