قارئین کرام اگر میں آپ سے کہوں
کہ اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج نے آج تک قوم کو ایک بھی ڈاکٹر نہیں دیا۔
این ای ڈی یونیورسٹی نے ایک بھی قابل وکیل نہیں بنایا، ڈاؤ میڈیکل کالج نے
کبھی کوئی حافظ نہیں تیار کیا، اور ایس ایم لاء کالج نے آج تک قوم کو ایک
بھی انجینئر نہیں دیا تو آپ کیا سوچیں گے؟یقیناً سب سے پہلے آپ یہ سوچیں گے
کہ میں آپ سے مذاق کر رہا ہوں، لیکن جب آپ یہ دیکھیں کہ میں سنجیدہ ہوں تو
پھر آپ کو میری ذہنی حالت پر شبہ ہوگا، اور جب میں آپ کو یہ یقین بھی
دلاؤنگا کہ میری ذہنی حالت بالکل درست ہے میں پاگل نہیں ہوں تو پھر آخری
بات یہ ہوگی کہ آپ مجھے ایک جاہل قرار دیں گے جسے یہ بھی پتہ نہیں کہ
اسلامیہ آرٹس کالج میں ڈاکٹری نہیں پڑھائی جاتی، این ای ڈی میں قانون کی
تعلیم نہیں دی جاتی، ڈاؤ میڈیکل کالج میں حافظ نہیں تیار کیے جاتے اور ایس
ایم لاء کالج میں انجینئرنگ نہیں پڑھائی جاتی۔
آپ کی بات سوفیصد درست ہوگی کیونکہ جب ایک کالج میڈیکل کی تعلیم نہیں دیتا
تو پھر اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ قوم کو اچھے ڈاکٹر تیار کر کے دے، جس کالج
میں قانون کی تعلیم دی جاتی ہو اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ قوم کو انجینئر
تیار کر کے دے، اور کسی میڈیکل کالج سے یہ توقع کرنا کہ وہ قوم کو حافظ
قرآن یا اچھے عالم دین تیار کر کے دے، بالکل جہالت والی بات ہے۔ ہے نا
جہالت والی بات! لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے پڑھے لکھے “نام نہاد
دانشور“ بیچ “چوراہے“ پر اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اور “ چوراہے“ پر
بیٹھ کر وفاق المدارس کے ذمہ داران سے یہ مضحکہ خیز مطالبہ کرتے ہیں “ کہ
باسٹھ سالوں میں یہ مدارس قوم کو کوئی ڈھنگ کا بندہ نہیں دے سکے ہیں، آج تک
انہوں نے کوئی ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بنایا تو اس لئے اب یہ مدارس کا سلسلہ
بند کر دینا چاہیے“ دیکھیں بات یہ ہے کہ مدارس میں دینی تعیلم دی جاتی ہے،
وہاں طلبہ کو حافظ قرآن، اور عالم دین بنایا جاتا ہے اور مدارس اپنے اس
مقصد میں کامیاب ہیں۔ مدارس ڈاکٹری، انجینئرنگ، قانون یا اکاوئنٹنگ کی
تعلیم نہیں دیتے ہیں۔ جس طرح عام طور سے میڈیکل کالج الگ ہوتے ہیں اور لاء
کالج الگ ہوتے ہیں، اسی طرح مدارس دینی تعلیم کے لیے ہوتے ہیں اور وہ قوم
کو حافظ قرآن اور عالم دین تیار کر کے دے رہے ہیں
دوسری بات یہ کہ اب مدارس میں بھی عصری علوم کی ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے
اور اکثر مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ میٹرک تک تعلیم دی جاتی ہے اور
اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کی بھی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے
کراچی ہی میں جامعہ بنوریہ سائٹ ٹاؤن اور جامعہ حنیفیہ ملیر سعود آباد کی
مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ یہ مدارس دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی
بھی ابتدائی تعیم فراہم کرتے ہیں( یہ صرف دو مثالیں میں نے پیش کی ہیں ورنہ
ملک بھر میں ہر مکتبہ فکر کے مدارس میں جدید علوم کی ابتدائی تعلیم دی
جارہی ہے)۔ اور اس کی بنیاد پر مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اگر مزید تعلیم
حاصل کرنا چاہیں تو وہ با آسانی کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتے
ہیں اور جدید عصری تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہی طریقہ کار ہمارے ملک میں
عام تعلیم کے لئے بھی ہے کہ اسکول عموماً میٹرک تک بنیادی تعلیم فراہم کرتے
ہیں اس کے بعد طلبہ اپنے رجحان کے مطابق میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس،
اکاؤنٹس، یا قانون کی تعلیم کے لئے کالجز میں رجوع کرتے ہیں اور یہی کام
مدارس بھی کرتے ہیں اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی “ پڑھے لکھے جاہل
دانشور “ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی دین بیزاری کا ثبوت دیتے ہوئے
مدارس کے اوپر تنقید کرے۔ ایک بات اور بھی ہے کہ ہم کسی ڈاکٹر سے انجینئرنگ
کے کسی مسئلے پر کوئی رائے دیں اور وہ اس پر درست رائے نہ دے سکے تو کیا یہ
سمجھا جائے گا کہ یہ ڈاکٹر نہیں بلکہ جاہل ہے؟ اس نے اپنا وقت ضائع کیا ہے
یا ہم ایک وکیل سے کسی مریض کے آپریشن کا کہیں اور وہ انکار کردے تو کیا یہ
سمجھا جائے کہ اس وکیل نے بھی اپنا وقت ضائع کیا؟ یا ایک بہت اچھے کمپیوٹر
انجینئر سے کہا جائے کہ وہ ایک جوتا بنا دے اور وہ نہ بنا سکے تو کیا ہم اس
کو یہ طعنہ دے سکتے ہیں کہ تمہیں تو کچھ بھی نہیں آتا ہے؟ نہیں بلکہ بات
بالکل سیدھی سی ہے کہ ہم لوگوں سے غلط توقعات وابستہ کررہے ہیں ایک ڈاکٹر،
ایک انجینئر اور ایک وکیل سے ان کے پیشوں کے متعلق ہی سوال کرنا چاہیے اور
توقع رکھنی چاہیے کہ یہ اپنے اپنے فن میں طاق ہیں ان سے ایسے معاملات میں
رائے لینا جس کی انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی ہے، بالکل فضول سی بات ہے۔
یہی بات ہے نہ! جب ہم ایک ڈاکٹر سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ جوتا بنا دے گا،
ہم وکیل سے یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ کسی مریض کا آپریشن کردے گا تو کسی
عالم دین سے یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ مریضوں کا علاج بھی کرے گا۔ وہ
انجینئرنگ میں بھی طاق ہوگا۔ وہ قانونی مسائل سے بھی واقفیت رکھتا ہوگا۔
اگر بالفرض ہم ان “ پڑھے لکھے جاہل دانشوروں “ کی بات مان لیں اور اس منطق
کو درست مان لیں کہ مدارس میں جدید عصری علوم کی بھی تعیم دی جانی چاہیے تو
پھر ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ عصری علوم کے تعلیمی اداروں
میں بھی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی، حفظِ قرآن اور صرف و نحو کی
تعلیم بھی دی جانی چاہیے ورنہ ان کو بھی بند کردینا چاہیے۔ آخری بات یہ کہ
“ چوراہے والے دانشور “ نے مدارس کے طلبہ اور مدارس کے نظام پر طنز کرتے
ہوئے کہا تھا کہ “ ایک جوتا تک تو یہ بنا نہیں سکتے “ میرا خیال ہی نہیں
بلکہ مجھے یقین ہے کہ یہ نام نہاد دانشور بھی جوتا نہیں بنا سکتا، یہ
دانشور کسی کے بال تک ڈھنگ سے نہیں کاٹ سکتا۔ تو پھر میرے خیال میں اس فرد
کو ڈوب کے مر جانا چاہیے کہ یہ اتنا پڑھا لکھا ہو کر جوتا نہیں بنا سکتا یا
کسی کے بال نہیں کاٹ سکتا۔ جب یہ فرد خود یہ کام نہیں کرسکتا تو پھر دوسروں
سے یا یہ مدارس کے لوگوں سے یہ توقع کیوں رکھتا ہے کہ وہ ہر کام کرسکتے
ہیں۔ ڈھنگ کے بندے کی جہاں تک بات ہے تو میں عرض کردوں کہ یہ زیادہ پرانی
بات نہیں ہے جب جنرل پرویز مشرف نے ملک میں آمرانہ نظام رکھا ہوا تھا اور
کسی کو اپنے آگے دم مارنے نہیں دیتا تھا، آج جو لوگ بڑھ بڑھ کر جنرل پرویز
مشرف پر حملے کررہے ہیں اس کے دور اقتدار کی غلطیاں لوگوں کو بتا رہے ہیں۔
جنرل مشرف کے دور میں یہی لوگ اس کی تعریف و توصیف کرنے میں سب سے آگے ہوتے
تھے۔ اس وقت بھی جنرل پرویز مشرف کو سرعام، اور سامنے بیٹھ کر کسی نے نصیحت
کی، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بیان کیا تو وہ کسی کالج یا یونیورسٹی کا
کوئی جدید تعلیم یافتہ فرد نہ تھا بلکہ “ جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن
کراچی “ کا طاب علم محمد عدنان کاکا خیل تھا۔ جس تقریب میں اس نے جنرل مشرف
کو آئینہ دکھایا اس تقریب میں ملک بھر کے تعیمی اداروں کے طبہ موجود تھے
لیکن وہ سب ایک ڈکٹیٹر کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ کیا پھر بھی یہ کہا
جاسکتا ہے کہ مدارس نے قوم کو کوئی ڈھنگ کا بندہ نہیں دیا۔ اللہ ہمارے حال
پر رحم فرمائے اور ہمیں ان نام نہاد دانشوروں کے چنگل سے بچائے۔ آمین |