خواتین کا معاشرے میں مقام

خواتین پر تشدد

آبادی کا آدھا حصہ ہونے کے باوجود، اپنے حقوق حاصل کرنے کے سلسلہ میں خواتین ابھی بھی کمزور ترین مخلوق ہیں۔ مسلسل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود وہ سیاست اور معاشرے میں ابھی تک کوئی نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ وہ خواتین جو شہری علاقوں میں رہتی ہیں وہ عام طور پر تعلیم یافتہ خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ آزادی سے گھوم پھر سکتی ہیں، تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور اپنے مستقبل کا خود انتخاب کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے، دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ دی جائے۔ اگر ایک غریب حاملہ عورت گر کر بے ہوش ہو جائے، تو ہو سکتا ہے کہ اس کا شوہر یا اس کا خاندان اسے کلینک لے جانے سے ہی انکار کر دیں۔ اس کے علاوہ، بہت سے شہری اور دیہی گھر ایسے ہیں جہاں شوہر اور ان کی بیویاں ایک میز پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے، یا شوہر پہلے کھانا کھاتے ہیں اور ان کی بیویاں بعد میں کھانا کھاتی ہیں۔

جبکہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک اور بالخصوص مسلمان ممالک پر اکثر ہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہاں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ ظلم کہیں پر بھی ہو وہ ظلم ہی ہے اور قابل مذمت ہے۔ خود ان ممالک میں بھی عورتوں پر تشدد کے واقعات کچھ کم نہیں ہیں۔ چنانچہ سویڈن کے اخبار” یوتے بوری پوستن“ (Goteborgs Posten)پر سویڈن میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بظاہر ترقی یافتہ اور تہذیب و تمدن کے دعویدار، مالی لحاظ سے خوشحال ممالک کی حالت کیسی دردناک اور فکر انگیز ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سویڈن میں تقریباً ہر سال بارہ ہزار خواتین اپنے قریبی تعلق رکھنے والے یا واقف کار افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئیں اور یہ اعداد و شمار بڑھ رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والی عورتیں اب پولیس کو اطلاع کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ اعداد و شمار میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ تشدد کرنے والا کون ہے لیکن تشدد گھر کی چار دیواری میں اور عورت کا کوئی واقف کار ہی کرتا ہے۔

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات کے اصل اعداد و شمار فراہم کرنا ممکن نہیں کیونکہ ایسے واقعات خاص طور پر گھریلو تشدد کے واقعات اکثر درج ہی نہیں ہوتے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے جائزے کے مطابق 2007ء میں خواتین پر تشدد کے تقریباً 4500 واقعات رونما ہوئے جن میں سات سو کے قریب عورتوں کو جنسی زیادتی اور اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننا پڑا، 1200خواتین قتل، 750اغواﺀ، 130گھریلو تشدد کا شکار جبکہ 140کو جلایا گیا ۔

اسلام نہایت سختی سے مردوں اور عورتوں دونوں کے مذہبی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ اس نے مکمل طور پر دونوں کے حقوق بیان کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسلام نے اپنی مقدس کتاب میں خواتین کی آزادی کے بارے میں بہت سے اہم اصول بیان کر دیے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی حدیثیں ایسی ہیں، جن میں سے ہم اپنی تشریحات کے مطابق اپنا راستہ تلاش کرنا چاہیے
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90601 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.