ہمارے ایک دوست کو عجیب قسم کا شوق تھا کہ جب وہ کوئی فلم
دیکھنے جاتے تو ساتھ میں ایک کاپی اور پنسل یا قلم لے جاتے اور فلم کے جو
ڈائیلاگ انھیں اچھے لگتے اسے لکھ لیتے پھر وہ دفتر میں دوستوں کو سنایا
کرتے تھے ۔یہ دراصل علمی ذ وق اور شوق کی بات ہے کہ ان ڈائیلاگ میں دریا کو
کوزے میں بند کردیا جاتا ہے ایک جملے میں بہت بڑی اور گہری باتیں کہہ دی
جاتی تھیں ،اسی طرح ایک ڈرامے میں ایک ڈائیلاگ کچھ اس طرح کا تھا ۔"تم
لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھو گے تو اس سے معاشرے میں بڑی بڑی
محبتیں جنم لیں گی"آج کے آرٹیکل کا عنوان سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے
"بلا عنوان"لکھا جائے یا یہ کہ اس کا عنوان "سوک سینس یا عام فہم باتیں یا
کامن سینس"رکھا جائے لیکن یہ کہ یہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں کہ جس پر
کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا یہ تو خود
سمجھنے اور سمجھانے کی چیزیں ہیں کہ ہم سے کوئی ایسی حرکت یا کام نہ ہوجائے
جو دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بن جائے اس لیے ہم نے اس کا عنوان چھوٹی
چھوٹی باتیں رکھا ہے کہ اس سے عموماَ تین طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ
کچھ چیزیں نفیس طبیعت پر بارگراں ہوتی ہیں دوسرے مرحلے پر اس سے آگے بڑھ کر
کچھ ذہنی اذیت بھی ہوتی تیسرے مرحلے پر ذہنی اذیت شدید ہو جاتی جس میں آپ
کا غصہ عروج پر ہو تا ہے جسے آپ کہیں اتار نہیں سکتے ۔مثلاَ ایک بہت غیر
اہم سی بات کہ آپ نماز پڑھ کر نکلے ایک چپل مل گئی دوسری کہیں بہت دور پڑی
ہے یہ ہوتا ہے آپ اپنی چپل پہن رہے ہوں اور غیر شعوری طور پر آپ کا پیر لگ
کر کسی کی چپل آگے چلی گئی اب اگر آپ پیر سے ہی اس چپل کو واپس اس کی دوسری
چپل کے ساتھ رکھ دیں تو اس میں کتنا وقت لگتا ہے بہر حال ایک اس کا اچھا
اور خوش کن پہلو یہ بھی ہے کہ بعض مساجد میں کوئی ایسا اﷲ کا بندہ بھی ہوتا
ہے جو نمازیوں کی جوتیوں کو سیدھی کرنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے اسی
لیے کبھی کبھی کچھ مساجدسے آپ نماز پڑھ کر نکلیں تو آپ کو نمازیوں کی چپلیں
بڑے سلیقے اور قرینے سے رکھی ہوئی نظر آتی ہیں۔جماعت ختم ہوئی امام صاحب نے
سلام پھیرابرابر میں میں ایک صاحب نے جیب سے موبائل نکالا اور اپنی مس
کالیں اور پیغامات دیکھنا شروع کر دیے ارے بھئی ایسی ہی کوئی ایمرجنسی ہے
تو آپ اٹھ کر باہر چلے جائیں یہ کیا کہ امام صاحب دعا مانگ رہے ہیں آپ
موبائل سے لگے ہوئے ہیں دوسری بات جس سے ذہنی اذیت پہنچتی ہے گو کہ اب یہ
سلسلہ پہلے سے کم ہو گیا ہے کہ دوران جماعت موبائل کا چیخ پڑنا اور پھر اس
کو بند نہ کرنا ٹون کے تسلسل سے بجنے سے نماز میں خلل پڑتا ہے ،ایک دفعہ
ظہر کی نماز میں ایک صاحب کے موبائل کی ٹیون شرو ع ہوگئی اور وہ بھی کسی
فلمی طرز پر تھی تکلیف دہ بات یہ ہوئی پوری نماز میں وہ بجتا رہا میرے خیال
میں شاید ان صاحب کو بند کرنا نہیں آتا تھا یا انھوں نے اس خوف سے اسے بند
نہیں کیا کہ اس سے نماز کے تقدس میں خلل پڑجائے گا جب جماعت ختم ہوئی تو
ایک بڑے میاں سے نہ رہا گیا اوروہ بول پڑے کہ میاں کیانماز پڑھنے آئے ہو یا
بارات میں آئے ہو امام صاحب نے قدرے ٹھنڈے لہجے میں سمجھایا کہ اگر آپ نماز
سے پہلے موبائل بند کرنا بھول جائیں تو دوران نماز ایک ہاتھ سے بند کیا
جاسکتا ہے پھر انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے
کہ ہم سادہ سی ٹیون اپنے فون پر لگائیں۔ ہمارے شہر میں تجاوزات کا مسئلہ تو
ایک طرح سے کینسر کے مرض کی طرح ہو گیا ہے دس فٹ کی دکان تو پندرہ فٹ
سرکاری زمین پر قبضہ پھر اس کے آگے کوئی ٹھیلے والا کھڑا ہو گیامعلوم ہوا
کہ تیس چوڑی سڑک صرف دس فٹ کی رہ گئی جس میں رکشہ ٹیکسی اور موٹر سائیکلوں
کے علاوہ پیدل چلنے والے بھی ہیں اب کسی کی بائیک ذرا سی بھی کسی سے ٹچ ہو
جائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے راستوں پر پیدل چلنے والوں کا حق ہوتا
ہے دوسرا حق ان لوگوں کا جو سواری پر ہوتے ہیں اب ان دونوں کے حقوق سلب کر
کے دکاندار حضرات اور ٹھیلے والے قبضہ کر لیتے ہیں تجاوزات کو ختم کرنے
والے محکمے کرپشن کی دلدل اتنے زیادہ غرق ہیں کہ وہ تجاوزات ہٹانے کی کبھی
کوئی کوشش بھی کرتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ عوام کا مفاد عزیز ہے یا وہ دل
سے یہ ناسور ختم کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ مہم بھی رشوتوں کے نئے ریٹس طے
کرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔اس لیے کہ کچھ عرصے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ جس جگہ
سے تجاوزات ختم کی گئی تھیں وہاں دوبارہ ویسے ہی قائم ہو گئیں ۔ایک مسئلہ
گلیوں میں شادی بیاہ کی تقریبات شامیانوں کا کئی کئی دن تک لگے رہنا پھر اس
میں کئی گھروں کا راستہ رک جاتا ہے جو جگہ چھوڑی جاتی ہے وہ اتنی تنگ ہوتی
ہے پھر دروازوں پر بنے ہوئے چبوترے اور سیڑھیوں کی وجہ سے بوڑھے حضرات اور
خواتین کے گرنے کا احتمال رہتا ہے ،اس کے ساتھ ہی ایک اس سے جڑا ہوا مسئلہ
یہ ہے کہ جب دوسرے دن شامیانے ہٹتے ہیں تو جس گھر میں تقریب ہوتی ہے ان کے
دروازے تو صاف ستھرے رہتے ہیں جہاں کھانا کھلایا جاتا ہے وہاں پر ہڈیاں
جھوٹے کھانے اور دیگر باقیات پر مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں اب جن کے
دروازوں کے سامنے یہ گندگی رہتی ہے ان گھروں کے لوگ بڑی ذہنی اذیت میں رہتے
ہیں اب یا تو وہ خود صاف کرائیں یا گلی کے خاکروب کا انتظار کریں یا اس بات
کا انتظار کے صاحب تقریب کے احساسات کب انگڑائی لیتے ہیں ان کی وجہ سے
دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے اس لیے اس کا ازالہ کردیا جائے آپ لاکھوں
روپیہ تقریب میں خرچ کرتے ہیں ایک دن پہلے پیسے دے کر صفائی کرواتے ہیں اگر
اسی سے یہ بھی طے کرلیں کہ کل آکر دوبارہ گلی کی صفائی کردینا تو اس طرح سو
دو سو کے اضافی خرچ سے پڑوسیوں کی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔گلی میں مکان
تعمیر ہو رہا ہے ہزاروں روپئے روزآن مزدوروں کو ادائیگی ہو رہی ہے اگر اسی
مزدور سے یہ بھی طے کرلیں کے تم روز گلی میں پڑی ہوئی بجری کو ایک کنارے
سمیٹ کر جاؤ گے تو اس سے پیدل چلنے والوں اور بائیک سواروں کو ایک طرح سے
سہولت مل سکتی ہے۔دوسروں کی ضرورت اور سہولت کے حوالے سے دور نبوی ﷺ کی مثا
ل کافی ہے کہ ایک صحابی نے مسجد نبوی کے سامنے یہ سوچ کر ایک کھونٹاگاڑا کہ
اگر کوئی گھڑسوار نماز پڑھنے آئے تو اسے گھوڑا باندھنے میں آسانی ہو جائے
گی ،ایک دوسرے صحابی نے یہ سوچ کر وہ کھونٹا اکھاڑ دیا کہ اس سے رات کے وقت
کوئی نمازی اٹک کر گر سکتا ہے آپ ﷺ نے دونوں کے عمل کو درست قرار دیا کہ
دونوں کی سوچ درست تھی ۔بس دکاندار سے چند سیکنڈ کا کام ہے اور آپ نے اپنی
بائیک سائیڈ اسٹینڈ پر بیچ روڈ پر کھڑی کردی اب وہاں بحث و مباحثہ میں کچھ
دیر ہوگئی ادھر پورا ٹریفک متاثر ہو رہا ہے ۔ایک صاحب اپنی کار کھڑی کر کے
کسی کام سے ایک دفتر میں گئے واپس آئے تو دیکھا کہ کوئی صاحب اپنی گاڑی اس
طرح لگا کر کھڑی کر گئے کہ یہ صاحب اپنی گاڑی نہیں نکال سکتے تھے ،پہلے تو
وہ تقریباَ آدھے گھنٹے تک مختلف دکانوں پر جا کر گاڑی کے مالک کا پتا کرتے
رہے اب ان کو دوسری جگہ کام سے جلدی جانا ہے ان کو کتنی ذہنی اذیت پہنچ رہی
ہے جو غصہ میں بدل رہی ہے ڈرامہ کا وہ ڈائیلاگ یاد کیجئے کہ تم دوسروں کی
چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھو گے تو اس سے معاشرے میں بڑی بڑی محبتیں
جنم لیں گی اگر وہ صاحب یہ خیال کرتے کہ یہ کار والے صاحب اگر مجھ سے پہلے
آگئے تو ان کو پریشانی ہو گی ،لہذا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر اپنی گاڑی کھڑی
کریں اگر وہ ایسا کرتے تو ان صاحب کا غصہ ایک طرح سے غائبانہ محبت میں
تبدیل ہو جاتابالآخر انھوں نے کچھ مزدوروں سے اجرت طے کرکے کسی نہ کسی طرح
اپنی گاڑی نکلوا لی لیکن ایک تحریر لکھ کر اس گاڑی میں ڈال دی تاکہ آئندہ
کے لیے انھیں احساس ہو جائے کہ ان کی ذرا سی لاپرواہی سے دوسروں کو کتنی
اذیت پہنچتی ہے ۔یہ موضوع تو بڑا طویل ہے یہ چند نکات تحریر کردیے تاکہ ہم
سب دوسروں کو اگر کوئی آسانی یا سہولت نہیں پہنچا سکتے تو اپنے طرز عمل سے
دوسروں کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچائیں - |